آج سیر و تفریح کے لیےشجری ڈیلاس{ Arboretum Dallas} نباتاتی باغیچے Botanical} Garden} گیا۔ وہاں ایک بینچ پرتانبے کے ولیم شیکسپیئرپیداءش :{26 اپریل 1564؛ انتقال 23 اپریل 1616) برطانوی ڈراما نگار،شاعر} کے مجسمے کو بیٹھا دیکھا تو کچھ دیران کے پاس بیٹھ کرگفتگو کی۔ میں نے شیکسپیئر کو بتایا کہ آپ کے انتقال کے تقریبا 416 سال بعد سٹریٹفورڈ اپان ایون، سنٹرل انگلینڈ کے چرچ آف ہولی ٹرینٹی کے قبرستان سے کھوپڑی چرالی گئی ہے۔ تو وہ کہنے لگے شاید اررو کے کسی شاعر یا ڈرامہ نگار نے اپنے جسم پر لگانے کے لیے چرائی ہوگی۔ چلیں چارسو سولہ سال بعد تو کسی اردو کے لکھنے والے کو یہ خیال تو آیا کہ کہیں سے عقل لے لی جائے۔ مجھ سےولیم شیکسپیئر کہنے لگے اردو میں آغا حشر کاشمیری نے میری عقل و فراست اور ڈراموں پر بڑی مہارت سے ہاتھ صاف کیا۔ یہ مجھ سے اور میرے ڈرامائی فن کے ساتھ بھدا مذاق تھا۔ آغا حشر کاشمیری نےبزمِ فانی‘ (رومیو جولیٹ)، ’مارِ آستین‘ (اوتھیلو)، ’مریدِ شک‘ (ونٹرز ٹیل)، ’شہیدِ ناز‘ (کنگ جان) اور اردشیر دادا بھائی کے لیے ’سفید خون‘(میژر فار میژر) اور ’خوابِ ہستی‘ (میکبیتھ) کے جو ناقص ترجمے کئے ۔جس نے میری ڈرامائی ااور ادبی شناخت کو مجروح ہی نہیں کیا ۔ بلکہ انھوں نے اپنی ادبی اور ڈرامائی استعداد کا مذاق آڑایا اور اپنی شخصیت کا " فالودہ " کیا۔ ولیم شیکسپیئرنے اس بات پر افسوس کیا اور یہ احتجاج بھی ریکارڈ کروایا کہ آغا حشر کاشمیری نے میری ادبی حیثیت جو نقصان پینچایا وہ اپنی جگہ مگر اس سے آغا حشر کاشمیری کی ادبی اور ڈرامائی مزاج اور فن کی پول کھول دی۔ ولیم شیکسپیئر میں آنسو بھری آنکھوں سے غصے کے ساتھ یہ سوال کیا کہ کس احمق نے آغا حشر کاشمیری کو " ہندوستان کا شیکسپیئر " کہا ۔ اگر یہ شخص مجھے مل جائے تو میں اس کی ٹانگیں توڈ دوں۔ تو میں نے کہا ولیم شیکسپیئر صاحب اردو کا لکھنے والا ویسے ہی ٹوٹا پھوٹا ہے اس کی ٹانگین توڈنے سے آپ کو کچھ نہیں ملے گا۔ وولیم شیکسپیئر نے یہ بھی بتایا کہ اب مجھے لوگ انگلستان میں " انگریزی کا آغا حشر کاشمیری" کہنے لگے ہیں۔