ولیم شیکسپیئر ایک ممتاز اور بے مثال تخلیق کار
پیدائش:26 اپریل 1564ء
وفات: 23 اپریل 1616ء
میری قامت سے ڈر نہ جائیں لوگ
میں ہوں سورج مجھے دیا لکھنا
آنِؔس معین
کتاب: علم و دانش کے معمار
مصنف : احمد عقیل روبی
شاہکار ادب سے انتخاب: تعبیر علی
ولیم شیکسپیئر شاید انگریزی زبان کا واحد شاعر ہے جسے دنیا میں سب سے زیادہ پڑھا گیا، جس کے ڈراموں کے سب سے زیادہ تراجم ہوئے، جس نے انسانوں کی نفسیات، محبت، ہمدردی، دشمنی، دکھ اور سکھ کے بارے میں سب سے زیادہ لکھا، جس کی عظمت کو دنیا کے سب ادیبوں اور شاعروں نے تسلیم کیا ۔بس دو بڑے ادیب تھے، جنہوں نے اسے شک کی نظروں سے دیکھا۔ دونوں کا تعلق روس سے تھا، ایک ٹالسٹائی اور دوسرا دوستو فسکی۔ٹالسٹائی کو تو شیکسپیئر نے با لکل متاثر نہیں کیا۔ ٹالسٹائی نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ میں نے شیکسپیئر کو 15 سال کی عمر میں پڑھا تو مجھے وہ بس یوں سا ادیب دکھائی دیا۔ 70 سال کی عمر میں جا کر میں نے سوچا کہ اسے دوبارہ پڑھا جائے تا کہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کر سکوں۔ میں نے جب اسے دوبارہ پڑھا تو بھی اپنا فیصلہ نہ بدل سکا۔دوستو فسکی کو شیکسپیئر پسند تو تھا مگر اسے وہ ایک ایسا شاعر کہتا تھا، جس کے ہاں بہت غلطیاں تھیں اور یہ اس لئے تھیں کہ اس نے لکھتے ہوئے محنت نہیں کی۔ دوستو فسکی 31مئی 1859 ء کو لکھے اپنے بھائی کے نام خط میں لکھتا ہے:’’پشکن نے اپنی شاعری کی بہت کانٹ چھانٹ کی، بہت محنت کی لیکن شیکسپیئر اپنے لکھے کی کانٹ چھانٹ نہیں کرتا تھا، اسی لیے اس کے ہاں بے شمار غلطیاں اور خامیاں موجود ہیں۔ کاش اس نے اپنے کام پر محنت کی ہوتی۔‘‘کہا جاتا ہے کہ انسانی زندگی کے دُکھ سُکھ کا جتنا احاطہ شیکسپیئر نے کیا ہے ،شاید ہی کسی دوسرے شاعر نے کیا ہو، یہی وجہ ہے کہ ہر پڑھنے والے کو اس کے ڈراموں میں اپنا عکس نظر آتا ہے۔ انسانوں کی ایک بڑی تعداد اس کے قارئین میں شمار ہوتی ہے۔ دنیا کے تمام لائبریریوں کا ایک خاص حصہ اس کے نام اور کام کے لیے مخصوص ہے۔ اس کے ڈراموں پر بے شمار کتابیں لکھی گئیں، بہت تنقیدی کام ہوا۔ اس کے ڈراموں پر لکھی جانے والی کتابوں کی تعداد اس کے ڈراموں سے یقینا ہزار گنا زیادہ ہوں گی، لیکن کیسی عجیب بات ہے کہ اس کی زندگی اور اس کے حالات پر دو ڈھائی صفحات سے زیادہ مواد دستیاب نہیں ہوتا۔شیکسپیئر کی زندگی کے حالات کے بارے میں بہت سے ابہام ہیں۔ اس کے بارے میں لکھنے والوں نے یہاں تک لکھا کہ وہ ایک زمیندار کا ہرن چراتا ہوا پکڑا گیا یا یہ کہ جب وہ لندن آیا تو پہلا کام اسے یہ ملا کہ اسے گھوڑوں کی دیکھ بھال کے لیے سائس بنا دیا گیا ۔ یہ سب کچھ شاید اس لیے ہوا کہ ڈراما نگار کی حیثیت اس زمانے میں بس یہ تھی کہ وہ ڈراما لکھ کر دے دے۔ ریہرسل کے وقت موجود رہے ،اداکاروں کے تلفظ کی طرف دھیان دے۔ کوئی پبلشر اس کے ڈرامے کو چھاپنے پر اس وقت تک رضا مند نہیں ہوتا تھاجب تک کوئی امیر، ر ئیس یا پیسے والا اس ڈرامے کو سپانسر نہیں کرتا تھا۔ڈراما نگار کی سوانح عمری چھاپنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس لئے ڈراما نگار کی زندگی کے حالات زیادہ تر اندھیرے ہی رہتے تھے۔ شیکسپیئر کو یہ دن بھی دیکھنا نصیب نہ ہوا کہ اس کے ڈرامے اس کی زندگی میں چھپ سکیں۔ شیکسپیئر کی موت کے سات سال بعد اس کے دو اداکار دوستوں ہنری کونڈل اور جان ہیمنگ نے اس کے دو ڈرامے چھپوا کر مارکیٹ میں پیش کیے۔ اور ٹھیک سو سال بعد باقاعدہ سوانح عمری چھپ کر لوگوں تک پہنچی۔ولیم شیکسپیئر 26 اپریل1564ء کو جان شیکسپیئر کے گھر اسٹیفورڈ میں پیدا ہوا۔ ماں کا نام میری آرڈن تھا۔ اس کی چار بہنیں اور تین بھائی اور بھی تھے۔ شیکسپیئر کو ڈرامے دیکھنے اور ڈراما لکھنے کا شوق بچپن ہی سے تھا۔ اس کے گائوں میں جب ڈراما دکھانے نوٹنکی آتی تھی ،تو وہ بہت شوق سے دیکھنے جاتا تھا ۔اداکاروں کے بولے ہوئے مکالمے تنہائی میں دہراتا۔ یہ شوق اتنا بڑھا کہ کئی بار اس نے ارادہ کیا کہ وہ گھر چھوڑ کر نوٹنکی والوں کے ساتھ بھاگ جائے۔اس کا باپ پیشے کے لحاظ سے قصاب تھا۔ سنا ہے کہ ایک بار اس نے ایک جانور کو ذبح کرنے کی کوشش کی۔ چھری چلانے سے پہلے ایک لمبی چوڑی تقریر جھا ڑ دی۔ یہ و ہ مکالمے تھے ،جو اس نے تھیٹر کے اداکاروں سے سنے تھے۔ جانوروں پر چھری چلانے کا شاید یہ اس کا آخری موقع تھا۔شیکسپیئر کے لیے 13کا ہندسہ منحوس ثابت ہوا کیونکہ13 سال کی عمر میں اسے سکول سے اٹھا لیا گیا۔ غربت اور مفلسی نے اس کی تعلیم کا راستہ روک لیا۔ 18 سال کی عمر میں اس نے جین ہیتھ وے سے شادی کر لی۔ یہ شادی اگرچہ اس کی مرضی کے خلاف تھی، لیکن اسے یہ شادی اس لئے کرنا پڑی کہ سسرال والوں نے اس کے مالی حالات بہتر کرنے کی حامی بھر لی تھی۔ شادی کے بعد اس نے بیوی سے جوں توں گزارا کیا۔ ایک بیٹے اور دو بیٹیوں کا باپ بنا اور پھر بھاگ کر لندن چلا گیا۔ تھیٹر کمپنیوں میں چھوٹے موٹے کئی کام کئے۔ اداکاری کا شوق تھا۔ چھوٹے موٹے کردار کر کے ایکٹروں کی صف میں شامل ہو گیا۔ قلی سے کام شروع کیا تھا آہستہ آہستہ اداکاروں کے گروپ کا ناظم بن گیا، پھر قلم ہاتھ میں تھاما اور ڈرامے لکھنے شروع کر دئیے۔ اس کام میں اس نے بہت عذاب دیکھے، مگر ہمت نہ ہاری۔ 1603ء میں اپنا نام ایکٹروں کی اس فہرست میں درج کر اہی لیا، جو بادشاہ وقت جیمز اول کے منظورِ نظر تھے۔ ڈراما نویسی جاری رکھی اور پھر وہ مشہور ڈراما نگار بن گیا۔ولیم شیکسپیئر انگریزی زبان کا سب سے بڑا شاعر اور ڈراما نگار تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کی شاعری نے اس کے ڈراموں کو حسن بخشا۔ اسی شاعرانہ ڈرامے کی بدولت اسے ساری دنیا میں عظمت حاصل ہوئی۔ ٹی ایس ایلیٹ کا کہنا ہے:For the Greates Drama is a Poetic Darama, and Dramatic Defacts can be Compensated by Poetic Excellence.ٹی ایس ایلیٹ کا خیال ہے کہ اپنی خوبصورت شاعرانہ خصوصیات کی بنا پر شیکسپیئر جی بی شا اور ابسن سے بڑا ڈراما نویس ہے۔ وہ ایک عہد کا ڈراما نویس نہیں آنے والے تمام عہدوں کا ڈراما نویس ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شیکسپیئر کے مشہور ڈراموں میں مندرجہ ذیل ڈرامے بہت اہم سمجھے جاتے ہیں:1۔ ہنری ہشتم ( تین حصے)2۔مرچنٹ آف وینس3۔ کنگ جان4۔ ٹیمنگ آف شریو5۔ ایزیولائک اِٹ6 ۔ ہیملٹ7۔ کنگ لیئر8۔ جولیس سیزر9۔ میری واٹوز آف ونڈسٹر10۔ وتھیلو11۔ رومیو اینڈ جیولٹ12۔ میگبتھ13۔ ٹویلوتھ نائٹ14 ۔ دی ٹمپسٹ15 ۔ ونٹرزٹیل16۔ انتھونی اینڈ قلوپطرہ17۔ کامیڈی آف ایررز18۔ مچ اوڈا بائوٹ نتھنگ19۔ لوزلیبر اسٹ20۔ اے مڈسمر نائٹ ڈریمزشیکسپیئر کے ڈراموں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ (1) تاریخی ڈرامے۔ جن میں رچرڈ II اور رچرڈIII۔ ہنری ہشتم ( تین حصے )، جولیس سیرز۔ انتھونی اور قلوپطرہ رہتے ہیں۔ ٹریجڈی ڈرامے جس میں کنگ لیئر، ہیملٹ، اوتھیلو اور میکبتھ کے نام آتے ہیں۔ ڈراموں کا تیسرا حصہ شیکسپیئر کے کامیڈی ڈرامے ہیں۔ جن میں مرچنٹ آف وینس، رومیو اینڈ جیولٹ، ٹیمنگ آف دی شریو۔ میری انفز آف ونڈسٹر، ٹویلوتھ نائٹ، ونٹرز ٹیل، کامیڈی آف ایررز، اے مڈسمر نائٹ ڈریمز، لوزلیبر لاسٹ کے نام آتے ہیں۔اپنے المیہ ڈراموں میں شیکسپیئر نے یونانیوں کے تصور المیہ کے کسی اصول کو مدنظر نہیں رکھا اور نہ ہی اس نے المیہ کے بارے میں کوئی اپنے اصول بنائے ہیں۔یونانیوں کے تھیٹر میں30ہزار مرد اور عورتیں ایک وقت میں ڈراما دیکھنے آتے تھے، موسیقی کے وہ فن پارے سننے آتے تھے، جو ان کی روح کو اپنے قبضے میں لے کراس مذہبی عقیدے کی گرفت میں رہنا چاہتے تھے جو انہیں اپنا اسیر بنا لے۔ وہ ٹریجڈی میں رونما ہونے والے ایکشن کے منتظر رہتے تھے، جو اُن کے دل اور روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دے۔ ایسے شاندار لباس اور آرائش جو اُن کی آنکھوں کو چکا چوند کر دے۔ تھیٹریکل اثرات، مناظر کے علاوہ مذہب کا جذبہ بھی تھا جو انہیں بیٹھائے رکھتا تھا۔ خوف، ڈر اور دہشت ان لوگوں کی تطہیر جذبات کا باعث بنتے تھے۔ یہ سب کچھ شیکسپیئر کے المیوں میں نہ تھا۔ یونانی المیہ میں پلاٹ کو بہت اہمیت حاصل تھی جبکہ شیکسپیئر کے المیہ میں سب سے زیادہ اہمیت کردار کی تھی۔ ہیملٹ، کنگ لیئر، اوتھیلو، میکبتھ، جولیس سیرز، قلوپطرہ، کنگ جان کے کردار اس بات کی وضاحت کے لیے کافی ہیں۔شیکسپیئر کے ڈراموں کی اکثر کہانیاں پہلے سے مشہور گویوں (Bards)کے ذریعے گلی گلی پھیل چکی تھیں، لیکن اس عظیم ڈراما نگار نے جب انہیں اپنے ڈراموں کاموضوع بنایا تو انہیں لافانی بنا دیا۔ مثال کے طور پر وہ کہانیاں جو تاریخ سے تعلق رکھتی ہیں صرف تاریخ کا حصہ تھیں لیکن جب شیکسپیئر نے ان پر ڈرامے لکھے تو وہ گھر گھر پھیل گئیں۔شیکسپیئر کا مشہور زمانہ ہیملٹ بھی اس قسم کی کہانی ہے۔ بارہویں صدی کے ایک محقق نے اس کہانی کو ایک سچی کہانی قرار دیا ہے۔ اس واقعہ کو شیکسپیئر نے اپنے ڈرامے کا موضوع بنایا اور یہ ڈراما لیجنڈکی صورت اختیار کر گیا، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ بالکل اس سے ملتا جلتا قصہ یونانی ڈراموں میں بھی پایا جاتا ہے۔ اسکائی لیس کا ڈراما ’’آگامم نان‘‘ ، ’’الیکٹر‘‘ اور ’’اورسٹیز‘‘ تینوں ڈراموں میں پھیلی ہوئی کہانی ایک ہو جائے تو شیکسپیئر کا ہیملٹ بن جاتا ہے۔ آگامم نان جب ٹرائے سے واپس آتا ہے تو اس کی بیوی کلائیٹم نسٹرا اپنے عاشق سے مل کر اسے قتل کر دیتی ہے۔ الیکٹر اس کی بیٹی اور چھوٹا بیٹا اور سٹیز یہ سب کچھ جانتے ہیں اور سٹیز محل سے چلا جاتا ہے، جو ان ہو کر واپس آتا ہے اور اپنے باپ کا انتقام اپنی ماں اور اس کے عاشق کو مار کر لیتا ہے۔ ہیملٹ میں باکل یہی کہانی ہے۔ ہیملٹ جب اپنی ریاست میں واپس آتا ہے تو تخت پر اپنے باپ کو بیٹھا دیکھتا ہے۔ باپ کا بھوت ہیملٹ کو ساری کہانی سناتا ہے۔ وہ باپ کا انتقام لینا چاہتا ہے، لیکن انتقام لینے میں نا کام رہتا ہے۔شیکسپیئر کسی نہ کسی حوالے سے یونانی ڈرامے سے اثر قبول ضرور کرتا ہے۔ چاہے وہ کرداروں کی تشکیل کا سلسلہ ہو یا ماحول اور فضا کا، مثلاً :اسکائی لیس کا ڈراما آگامم نان دیکھئے، آغاز میں ڈر، خوف کی ایک کیفیت ہے جو ہر طرف طاری نظر آتی ہے اور شروع ہی میں محسوس ہوتا ہے کہ محل میں کچھ ہونے والا ہے اور پھر محل میں کلائی ٹم لسٹرا اور اس کے عاشق کی منصوبہ بندی سے آگامم نان کا قتل ہو جاتا ہے۔ اب ذرا شیکسپیئر کے ڈرامے میکبتھ پر نظر ڈالیں، ڈراما شروع ہوتا ہے تو چڑیلوں کی ملاقات ایک سازش اور منصوبہ بندی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ میکبتھ کے محل میں موت کا سایہ اسی طرح گردش کرتا نظر آتا ہے، جس طرح اسکائی لیس کے ڈرامے آگامم نان میں موت دکھائی دیتی ہے۔ اسی طرح میکبتھ کی سازش بادشاہ کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔1564ء میں پیدا ہونے ولاشیکسپیئر ، 30سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے سب سے بڑا ڈراما نویس بن گیا۔ 20سال اس نے ڈرامے لکھے اور گھر واپس اپنے گائوں سٹیفورڈ واپس آ گیا۔ لندن رہ کر بھی گائوں کو نہ بھولا۔ 1606ء میں جب 52 سال کا ہوا تو 23 اپریل 1616ء کو فوت ہوگیا۔ شیکسپیئر لندن میں رہا تو طربیہ ڈرامے لکھتا رہا۔ وراثت اور جانشینی اور دوسرے ہلکے پھلکے موضوعات کو ڈرامے میں سموتا رہا۔ آخری سالوں میں شیکسپیئر نے ان ڈراموں کی طرف توجہ دی جو اس کے عظیم المیے بن کر دنیا کے سامنے آئے ،جن میں زندگی اور مصیبت سے نبر دآز ما نظر آتی ہے، جن میں ایک وقار بھی ہے اور شان و شوکت بھی، بلند خیالی بھی ہے اور فکر کی عظمت اور گہرائی بھی۔
(احمد عقیل روبی کی کتاب ’’ علم ودانش کے معمار‘‘
سے اقتباس)