تحریر: قیصر شہزاد
معروف امریکی فلسفی اور نفسیات دان ولیم جیمز نے ۱۸۹۷ میں ہارورڈ یونیورسٹی میں انگرسول یادگاری خطبہ دیا جس کا عنوان ’’بقائے دوام پر دو اعتراضات کا جائزہ‘‘ تھا ۔یہ خطبہ عام فہم فلسفے پر ان کی تحریروں کے مجموعے The Will to Believe and other essays in Popular Philosophy میں شائع ہوا کرتا ہے۔ فلسفے اور نفسیات کی جانب آنے سے پہلے جیمز طب کے طالبعلم رہ چکے تھے اور مذہبی مزاج رکھنے کے باعث اپنے زمانے کی طبی تحقیقات خصوصاً انسانی دماغ کی ساخت ، وظائف کے متعلق سائنسی انکشافات اور فکرو شعور سے اس کے تعلق کے متعلق آراء و افکارکو بہت سنجیدگی سے لیتے تھے۔ چنانچہ اس خطبے میں انہوں نےعقیدۂ بقائے دوام پر ایک ایسے اعتراض سے بحث کی ہے جس کی بنیاد میں عضویاتی نفسیات [Physiological Psychology] کی تحقیقات ہیں۔ ہماری رائے میں یہ مبحث سائنس، مذہب اور فلسفے کے آپس کے تعلق کی ایک اہم مثال پیش کرتا ہے۔
اعتراض یہ تھا کہ فکرو شعور چونکہ انسانی دماغ کا وظیفہ[function] ہے چنانچہ مرنے کے بعد جب دماغ بقیہ جسم کے ساتھ مٹی میں مل کر فنا ہوجاتا ہے تو اس کا وظیفہ کیسے قائم رہ سکتا ہے۔ ولیم جیمز اس اعتراض کی بنیاد کو رد کیے بغیر اس سے بحث کرنا چاہتے ہیں اور اپنے سامعین سے گزراش کرتے ہیں کہ یہ بات درست تسلیم کرلی جائے کہ ’’فکر دماغ کا وظیفہ ہے‘‘۔ اس کے بعد وہ سوال اٹھاتے ہیں کیا یہ نظریہ مان لینا منطقی طور پر ہمیں بقائے دوام کے عقیدے کو ترک کرنے پر مجبور کرتا ہے؟ یعنی کیا یہ ممکن نہیں کہ سائنس پر مبنی یہ نظریہ بھی تسلیم کیا جائے اور مرنے کے بعد جی اٹھنے کا عقیدہ بھی رکھا جائے؟ جیمز کا بنیادی دعوی ہے کہ ان دونوں نظریات میں کوئی تعارض نہیں اور دونوں کو بیک وقت مانا جا سکتا ہے۔ فکر کے دماغ کا وظیفہ ہونے کے باوجود یہ عین ممکن ہے کہ دماغ کے ختم ہوجانے کے بعد بھی روحانی زندگی کا وظیفہ جاری رہے۔ اس نظریے کو اعتراض کی بنیاد بنانے کے پیچھے ’’وظائف‘‘ کا ایک سطحی تصور اور تعبیر کارفرما ہے۔ یہ درست ہے کہ کسی شے کے وظیفے کا اس پر انحصار کا تعلق ہوتا ہے لیکن وظیفے کے اس انحصار [functional dependence]کی کئی ممکن صورتیں ہیں جبکہ معترضین صرف ایک صورت پر مصر ہیں اور دیگر امکانات کو بلاوجہ نظر انداز کیے ہوئے ہیں ۔ چنانچہ عضویاتی نفسیات دان جب یہ کہتا ہے کہ ’’فکر دماغ کا وظیفہ ہے‘‘ تو اس کی مراد وہی ہوتی ہے جو ان جملوں سے ہوتی ہے: ’’بھاپ کیتلی کا وظیفہ ہے‘‘ یا ’’روشنی برقی کرنٹ کا وظیفہ ہے‘‘ یا ’’ توانائی گرتی ہوئی آبشار کا وظیفہ‘‘ ہے۔ان تمام صورتوں میں ایک مظہر کسی شے کا وظیفہ اس لیے کہلاتا ہے کہ وہ شے اسے پیدا کرتی ہے۔ چنانچہ پانی بھری کیتلی، برقی کرنٹ اور آبشار بالترتیب بھاپ، روشنی اور توانائی کو پیدا کرتی ہیں لہذا یہ مظاہر ان کے وظائف کہلاتے ہیں ۔ یہ وظائف جنہیں تخلیقی وظائف[productive functions] کا نام دیا جاسکتا ہے ظاہر ہے اپنے پیدا کنندگان کے بغیر وجود نہیں رکھ سکتے۔ چنانچہ اگر شعور دماغ کا تخلیقی وظیفہ ہے تو دماغ کے فنا ہوجانے کے بعد اس کے باقی رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن کیا ہر وظیفہ تخلیقی وظیفہ ہی ہوتا ہے؟ ہمارے پیشِ نظر نفسیاتی نظریہ بقائے دوام سے متعارض تب ہی ہوسکتا ہے جب اس سوال کا جواب اثبات میں دینا لازم ہو۔ ولیم جیمز کا خیال ہے کہ ہر وظیفہ تخلیقی وظیفہ نہیں ہوتا کیونکہ فطرت میں ہمیں کئی اور طرح کے وظائف بھی ملتے ہیں۔ اور جب تک یہ ثابت نہ کیا جائے کہ شعور ان میں سے کسی طرح کا وظیفہ نہیں ہوسکتا تب تک اس کا تخلیقی وظیفہ ہونا ضروری نہیں مانا جاسکتا۔ غیر تخلیقی وظائف کی پہلی قسم جو جیمز نے ذکر کی ہے اس میں ایک مظہر کسی شے کا وظیفہ اس لیے نہیں کہلاتا کہ وہ شے براہِ راست اسے پیدا کرتی ہے بلکہ اس لیے کہ وہ شے اس کے راستے کی کوئی رکاوٹ دور کرکے اس کا تکمیل پانا ممکن بناتی ہے۔ اس نوع کو جیمز نے [permissive or releasing function]کہا ہے اور اس کی مثالوں میں آڑی کمان[crossbow] کے ٹریگر اور تیر نکلنے یا پستول کے اندر بارود پر لگنے والی ننھی سی ہتھوڑی اور دھماکے کے تعلق کا ذکر کیا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ تیرکانکلنا اور دھماکہ ہونا بالترتیب ٹریگر اور ہتھوڑی سے براہِ راست پیدا نہیں ہوتے لیکن وظائف انہی کے ہیں چنانچہ دھماکہ تخلیقی وظیفہ تو بارود کا ہے جبکہ ہتھوڑی یا ٹریگر اس کی راہ میں حائل رکاوٹ کو دور کرکے permissive وظیفہ ادا کرتے ہیں ۔
اسی طرح رنگین شیشےیا منشور کی صورت میں ہمارے سامنے وظائفی تعلق کی ایک تیسری مثال آتی ہے جسے ترسیلی یا ایصالی [transmissive] وظیفہ کہا جاسکتا ہے۔ یک رنگی روشنی کو منشور سے گزارئیے تو قوسِ قزح کے رنگوں کا ایک طیف دوسری جانب بن جائے گا۔ اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ رنگ برنگا طیف منشور کا وظیفہ ہے لیکن کیا اسے پیدا محض منشور نے کیا ہے؟ نہیں۔ طیف تخلیقی وظیفہ توسادہ روشنی کی شعاع کا ہے جو منشور کے اندر پیدا نہیں ہوتی لیکن یہ طیف منشور کا ترسیلی یا ایصالی وظیفہ کہلا سکتا ہے کیونکہ خارج سے خود میں آنے والی شعا ع کو وہ مختلف رنگوں کی پٹیاں بنا کران کی ترسیل ضرور کرتا ہے۔
معترض نفسیات دان اس قاعدے سےکہ’’شعور دماغ کا وظیفہ ہے‘‘ یہ سمجھنے اور سمجھانے پر مصر ہے کہ شعور دماغ کا تخلیقی وظیفہ ہے جبکہ منطقی طور پر اسے دیگر دو صورتوں کا امکان بھی ذہن میں رکھنا چاہیے۔
اس بحث کا بقائے دوام کے عقیدے سے تعلق واضح کرنے کےلیے جیمز کچھ یوں استدلال کرتے ہیں:
فرض کیجئے کہ مادی اشیاء کی یہ کل کائنات دراصل ایک پردہ ہے جس نے اپنے پیچھے حقیقی دنیا کو چھپا رکھا ہے۔ کسی شاعر نے کہہ رکھا کہ کہ زندگی رنگ برنگے شیشوں سے بنا ایسا گنبد ہے جو ابدیت کی سفید ضوفشانی کو رنگا رنگی فراہم کرتی ہے۔ آپ فرض کرلیں کہ یہ شاعرانہ تخیل آرائی حقیقت کی درست عکاسی کرتی ہے۔ چنانچہ کائنات اور زندگی ایک وسیع گنبد کی مانند ہے جو ویسے تو غیر شفاف اور اتنا موٹا ہے کہ اپنے پیچھے موجود روشنی اور ضوفشانی کو چھپائے رکھتا ہے لیکن بعض اوقات اور بعض مقامات پر اس کی غیر شفافیت کم ہوجاتی ہے اور کچھ شعاعیں اس دنیا میں بھی پہنچ جاتی ہیں۔ یہ شعور کی متناہی اور چھوٹی چھوٹی شعاعیں سمجھی جاسکتی ہیں جو کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے ایک دوسری سے مختلف ہوتی ہیں اور اس اختلاف کا دارو مدار گنبد میں پائے جانے والی کھڑکیوں اور روزنوں کی گونا گونیوں پر ہے۔ اب یہ مان لیجئے کہ ہمارے دماغ در اصل یہ کھڑکیاں یا روزن ہیں جن کے ذریعے لامتناہی شعور کی متناہی کرنیں ، علم، بصیرت، وجدان ، احساس اور ادراک کی صورت میں اس دنیا میں داخل ہوتی ہیں۔اپنی زندگی میں تو یہ روزن اپنی بدلتی کیفیات کے باعث کم یا زیادہ ، واضح یا غیر واضح کرنوں کی ترسیل کرتے رہتے ہیں اور جب یہ روزن بند ہوجاتے ہیں تو اس دنیامیں ان کے ذریعے آنے والی شعاعوں کی ترسیل تو بند ہوجاتی ہے لیکن شعور کے وجود کا اصل منبع تو اس دیوار کے ہی پرے واقع ہے جس میں کبھی یہ روزن ہواکرتا تھا لہذا روزن کے بند ہوجانے سے دیوار پر روشنیٔ شعور کا منبع ویسے کا ویسے ہی برقرار رہتا ہے جیسے ان روزنوں کی موجودگی میں یا ان کے پیدا ہونے سے بھی پہلے ہوا کرتا تھا۔
اس تمثیل سے واضح ہے کہ شعور دماغ کا وظیفہ مان لیے جانے کے بعد بھی اس کا تخلیقی وظیفہ نہیں بن جاتا بلکہ اسے ترسیلی یا ایصالی وظیفہ مان لینے میں منطقی طور پر کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوتی۔ چنانچہ یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ جدید عضویاتی نفسیات کا پیش کردہ نظریہ جس کی رو سے شعور دماغ کا وظیفہ ہے جسمانی موت کے بعد بھی روح کے زندہ رہنے کے عقیدے سے متعارض نہیں۔
ولیم جیمز کی اس توجیہ پر یہ اعتراض کیا گیا کہ یہ عمومی طور پر بقائے دوام کا امکان تو ثابت کردیتی ہے لیکن انفرادی بقائے دوام کا عقیدہ جس پر مذاہب کا اصرار ہے اسے ثابت نہیں کرتی۔ کیونکہ اس تمثیل کی روشنی میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک روحِ کلی ہے جس میں جسم کی موت کے بعد انفرادی روح لوٹ جاتی ہے۔ یہ نظریہ مذہب کے لیے کیسے قابلِ قبول ہوسکتا ہے؟ کتاب کے دوسرے ایڈیشن کے تعارف میں جیمز نے اس اعتراض کا جواب دیا ہے۔ ان کے مطابق کائنات کے گنبد سے پرے ایک ہی روحِ کلی ہے یا کئی انفرادی ارواحِ کلی موجود ہیں اس مسئلے پر ان کی بیان کردہ تمثیل کوئی متعین رائے اختیار نہیں کرتی لہذا یہ اعتراض ان پر وارد نہیں ہوتا بلکہ ایک غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔
جیسا کہ ہم نے تمہید میں عرض کیا تھا یہ گفتگو سائنس ، فلسفے اور مذہبی مباحث کے تعلق کی پیچیدگیوں پر مفید روشنی ڈالتی ہے اور ہمارے سامنے اس بات کی ایک مثال پیش کرتی ہے کہ عام طورپر لوگوں کا رویہ سائنسی نظریات کو بلا سوچے سمجھے اور ان میں موجود ابہامات اور متعدد تعبیرات کے امکان کو بالکل نظرانداز کرکےجو ں کا توں قبول کرلینے اور سماجی ، مذہبی اور فلسفیانہ مباحث کے لیے ان کے سطحی اور منفی مضمرات پ اصرار کرنے کا ہے۔ جس منطقی انداز سے جیمز نے شعور اور دماغ کے تعلق کے سائنسی و نفسیاتی نظریے کی عقیدۂ بقائے دوام کے ساتھ مطابقت واضح کی ہے وہ اس اندازِ فکر کی غلطی کو عمدگی کے ساتھ واضح کرتا ہے۔
یہ آرٹیکل اشارات ڈاٹ کام سے اس لنک سے لیا گیا ہے۔
http://bit.ly/1QS9Dfo