"انسانی تہذیب کا ارتقاء”
کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے جس میں پہلا باب تہذیب کے تقاضے، اگلے چار ابواب تہذیب کے عوامل( معاشی، سیاسی، اخلاقی، زہنی) اور چٹھے باب میں قبل از تاریخ تہذیب کی شروعات جن میں قدیم و جدید حجری تہذیب ، تاریخ کی طرف اور دھات سازی پر بحث کی گئی ہے۔
مصنف نے وحشی انسان کی زندگی کا رکازیات اور اثار کی مدد سے ہر پہلو کا جامع جائز لیا ہے۔ شکار، کاشت ابتدائی صنعتیں، معاشی تنظیم، حکومت، قانون ،خاندان ، شادی و دیگر رسوم و رواج، جنسی و سماجی اخلاقیات، مذہب و عقائد، تحریر سائنس، ارٹ و فنون پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
کتاب میں مصنف قدیم وحشی انسان کے لئے "غیر تہذیب یافتہ” یا "غیر مہذب” لفظ استعمال نہیں کرتا کیونکہ وہ بھی نہایت احتیاط سے اپنے بچوں کو قبیلے کی وراثت اور وہ تمام معاشی، سیاسی، اخلاقی اور زہنی عادات ودستور منتقل کرتا ہے جنہیں اس نے زمیں پر زندہ رہنے کے دوران تخلیق کیا اور انہیں ترقی دی۔ اس لئے منصنف انہیں "غیر متمدن انسان” کہتا ہے۔
آج انسان جس دور میں جی رہا ہے یہ شائد سب کو معلوم ہو کہ انسان پہلے سے ایسا نہیں تھا۔ یہ تہذیبی ترقی بتدریج ارتقاء کا نتیجہ ہے جس سے کئی میلین جانداروں میں صرف انسان اس مقام پہ پہنچا، 6-7 میلن سال پہلے جب ہمارے اجداد موسمی یا دیگر وجوہات کے بنا پر درختوں سے اتر گئے تو انہیں میدانوں میں خوراک کی تالاش یا اپنی حفاظت کے تحت دو پاوں پر کھڑا ہونا پڑا۔ اگر چہ اس وقت ہم انہیں انسان نہیں کہہ سکتے لیکن یہ عظیم انسانیت تک پہلا قدم تھا۔ دو پاوں پر کھڑے ہونے سے ان کے اگلے پاوں ازاد ہوگئے اور یوں انہیں قدرتی اوزار ہاتھوں کی شکل میں مل گئے جس نے انہیں جدید انسان تک پہنچانے میں مرکزی کردار ادا کر دیا۔ ابتدائی انسان نما نے ہاتھوں میں پتھر اٹھائے اور ان سے سخت چھلکوں والے پھلوں کو توڑنے لگا۔ یہ واحد جاندار تھا جو ایسا کرنے کے لئے بیرونی اوزاروں کا استعمال کر رہا تھا۔ دوسرے جاندار اپنے چونچ، دانت اور پنجوں سے جو کام کررہے تھے ابتدائی انسان نما وہ کام ہاتھوں کے مدد سے پتھروں اور چڑوں سے کرنے لگا۔ بے شک ہاتھوں کا ازاد ہونا جدید انسانی تہذیب کی جانب پہلا انقلابی قدم تھا۔
کارل مارکس کے ہم خیال و ہمعصر دوست فیڈر اینگلز نے 1831 میں ایک مضمون لکھا تھا ” ایپس سے انسانوں کا ارتقاء ہونے میں انسانی ہاتھوں اور محنت کا کردار "، فیڈرک اینگلز انسان کی زہنی ترقی کا جواز انسانی ہاتھوں اور محنت کو گردانتے ہیں۔ ہاتھوں سے انسان کو کام کرتے ہوئے مختلف قسم تجربات کا سامنا ہوا۔ انہیں تجربات نے انسان کو اگے پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
دوسری انقلابی قدم اگ کا دریافت اور اس پر قابو پانا تھا۔ بلاشبہ اگ کا دریافت ایک ایکسیڈنٹل واقعہ تھا اور اس کے لئے کوئی محنت نہیں کی گئی تھی۔
اگ نے انسانوں کو درندوں سے بچایا۔ بہت ساری ایسے اشیاء جو ناقابل خوراک تھے قابل خوراک بن گئے۔ اگ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اس نے سخت خوراک کو نرم بنایا جو انرجی پہلے خوراک ہضم کرنے میں استعمال ہوتی تھی اس سے کم مقدار میں اب ہونے لگی۔ باقی ماندہ سے دماغ کی گروتھ ممکن ہوئی۔
اس سے یہ ہوا کہ ایک جین MYH16 میں میوٹیشن ہوئی جس سے انسانی جبڑا چھوٹا ہوگیا اور انسانی دماغ کو زیادہ جگہ ملی جس سے انسانی زہانت میں اضافہ ہوا۔
اب قدیم وحشی اور غیر متمدن انسان کا دور شروع ہو چکا تھا جو اس کتاب کی موضوع ہے۔ موجودہ دور کے بہت سے قبائیل جنہیں وحشی قبائیل کہتے ہیں جیسے اسکیمو قبائیل ، نیگرو قبائیل ،ریڈ انڈینز بعض افریقی قبائیل، اسٹریلیا کے وحشی قبائیل وغیرہ اسی دور سے متعلق ہے۔ اسی دور میں انسان گروہوں اور جنڈ کے شکل میں رہنے لگا۔ پتھر کے ابتدائی اوزار بنے۔ میمتھ، ارنا بھینسے اور ہاتھی جیسے دیو قامت جانوروں شکار کیا جانے لگا۔ بڑے بڑے جانوروں کی شکار نے غیر متمدن انسان کو اکٹھے رہنے پر مجبور کیا جس سے قبیلہ یا جرگہ وجود میں ایا۔
غیر متمدن انسانوں کے ہاں زخیرہ کرنے کی روایت نہیں تھی۔ وہ یا تو بہت کھاتے تھے یا فاقہ کرتے تھے۔ چیری نے اپنے ایک اسکیمو گائیڈ سے پوچھا” کس کے متعلق سوچ رہے ہو” اس نے جواب دیا مجھے سوچنا نہیں پڑتا میرے پاس بہت سارا گوشت ہے۔ غیر متمدن انسان نے جانوروں کے پنجے اور دانت استعمال کئے اور ہاتھی دانت ہڈیوں اور پتھروں سے اوزار بنائے۔ یہ ان کے سادہ معاشرے کی بنیاد تھی۔
اسی دوران عورت سب سے بڑی معاشی دریافت کر رہی تھی اور وہ زمین کی فیاضی تھی۔ جب مرد شکار پر جاتا تو اسے جھونپڑی کی اردگرد جو بھی قابل خورد شے ملتی اسے اٹھا لیتی۔ ہم یقینی طور پر نہیں کہہ سکتیں کہ انسان نے کب بیج بونا شروع کیا لیکن ہم قیاس کر سکتے ہیں کہ جب انسان نے غلہ اکٹھا کرنا شروع کیا تو جھونڑی اور میدان کے درمیان بیج گر گئے ہوگے جن سے افزائش کے راز کا پتہ چلا۔
یہ مفروضہ قائم نہیں کرنا چاہیئے کہ انسان یک دم شکار سے کاشت کے طرف ایا۔ امریکی انڈین کے طرح کئی قبائیل ہمیشہ اس عبوری دور میں رہے مرد شکار کرتا رہا اور عورت کاشت کرتی رہی ۔ نہ صرف یہ کہ یہ تبدیلی بتدریج تھی بلکہ یہ کھبی بھی مکمل نہ تھی۔
شکار ،غلہ بانی اور کاشت کے بین بین ایجادات ہو رہی تھیں۔ قدیم ذہین زندگی کی معاشی الجھنوں کی میکانکی حل تلاس کرنے میں لگا ہوا تھا۔ ابتدائی انسان فطرت کی پیش کشوں زمین کا پھل، جانوروں کی کھال اور فر بطور پوشاک اور پہاڑوں میں غار بطور رہائش سے مطمئن تھا۔ پھر اس نے اوزار بنائے۔ بقول فرینکلن "انسان اوزار استعمال کرنے والا جانور ہے۔ بانس سے اس نے دستے، چاقو، اور بوتلیں بنائیں۔ چھال اور ریشے سے اس نے رسی اور کئی قسم کا کپڑا بنایا۔ جانوروں کے ہڈیوں سے ڈوئی، چمچے، ظروف، استرے اور چھرے بنائے۔ سخت یا نرم اوزار سینگوں یا ہاتھی دانتوں اور جانوروں کے بالوں اور کھالوں سے بنائے گئے۔ پرندوں اور مچھلی کی ہڈیوں اور بانس کے نازک شاخوں سے سوئیاں بنائیں گئیں۔ جانوروں کے پٹھوں سے دھاگہ بنایا گیا جو اتنا باریک تھا کہ اج کے جدید ترین سوئی کی نکے سے گزر سکتا تھا۔
سیدھے سادے معاسروں میں حکومت نہیں ہوتی۔ غیر متمدن شکاری ضابطے کو صرف اس وقت مانتے تھے جب وہ شکاریوں کے ٹولے میں شامل ہوتے اور ایکشن کے لئے تیار ہوتے۔مستقل سماجی تنظیم کی سب سے ابتدائی شکل ایک جھتا تھا، رشتہ دار خاندانوں کا ایک گروہ جو مشترکہ زمین کی ایک ٹکڑے پر قابض تھا۔ جس کا ایک ہی ٹوٹم اور ایک جیسے رواج وقوانین تھے۔ جن جتھوں کا ایک گروہ ایک سردار کے ماتحت اکٹھا ہوتا تو ایک قبیلہ وجود میں اتا جو سٹیٹ کی جانب قدم تھا۔ لیکن یہ ایک سست رفتار ارتقاء تھا۔ بعض گروہوں کا کوئی سردار نہیں تھا اور بہت سارے گروہ سردار کو صرف جنگ کے وقت برداشت کرتے۔ جمہوریت جو ہمارے عہد میں ایک زوال پزیر نظام ہے، غیر متمدن قبائیل میں بہترین شکل میں پائی جاتی تھی۔
غیر متمدن انسانی دور میں خاندان اس مفروضے پر منظم تھا کہ اس میں مرد کی حثیت سطحی اور ضمنی تھی جبکہ عورت کی حثیت بنیادی اور ارفع تھی۔ بعص قبیلوں اور غالبا انسانی گروہوں میں جس طرح افزائش نسل میں نر جانور کے کردار پر توجہ نہیں دی جاتی تھی جو جنسی عمل سے گزرتے بچے پیدا کرتے اور علت ومعلول سے بلکل بے خبر ہوتے ہیں۔ اسی طرح انسانوں مں مرد کی کردار کو زیادہ اہم نہیں سمجھا جاتا تھا۔ غیر متمدن زمانے کی ماں اپنے بچے کے والد کے بارے میں متفکر نہ ہوتی کیونکہ اس کی شناخت اس کا خاوند نہیں تھا بلکہ وہ اپنے باپ بھائی یا جرگے کی ملکیت ہوتی۔ اس کا بچہ انہیں مرد رشتہ داروں کو جانتا ۔ بہن اور بھائی کے درمیان محبت کا تعلق خاوند اور بیوی کے تعلق سے زیادہ مضبوط تھا۔
پاکدامنی (عصمت) ایک جدید تصور ہے۔ غیر متمدن نوجوان لڑکی کو اپنے عصمت کے کھو جانے کا خوف نہیں بلکہ بانجھ پن کی شہرت کا ڈر تھا۔ قبل از شادی حمل خاوند کی تلاش میں رکاوٹ بننے کی بجائے مددگار ثابت ہوتا کیونکہ اس سے بانجھ پن کے سارے شکوک دفع ہوجاتے اور نفع بخش بچوں کی پیدائش یقینی ہوجاتی تھی ملکیت کے تصور سے پہلے کنوار پن سے نفرت کرتے تھے۔ یہ ملکیت کا ہی تصور تھا جس نے دوشیزگی کو جرم کے بجائے پاک دامنی بنادیا اور تمام بڑی تہذیبوں کے اخلاقی ضابطوں میں ایک اہم عنصر بنا دیا۔ملکیت کے تصور کے ساتھ عورت کو شادی سے پہلے جنسی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مرد نے یہی پابندیاں اپنے اوپر عائد کرنے کی متعلق کبھی نہیں سوچا۔کسی بھی زبان میں باعصمت مرد کے لئے کوئی لفظ نہیں ۔ دوشیزگی کا وصف صرف عورتوں کے لئے مخصوص کیا گیا۔
غیر متمدن معاشرے میں حسن کو کا کوئی خاص تصور نہیں تھا ۔ مرد عورت کا انتخاب حسن کے بجائے سودمندی پر کرتا تھا۔ اگر غیر متمدن انسان میں تصور حسن کہیں موجود بھی تھا تو یہ ہماری تصور سے بہت مختلف تھا۔ رچرڈ کہتا ہے "جتنی نیگرو نسلوں کو میں جانتا ہو اس میں خوبصورت عورت وہی ہوتی ہے جس کا جسم بغل سے لیکر کولہوں تک ہموار سیڑھی کی طرح ہو۔ افریقہ میں موٹی عورت کو سب سے یادہ دلکش سمجھا جاتا ہے۔ منگو پارک کہتا ہے نائجیریا میں موٹاپے اور حسن کو مترادف الفاظ سمجھا جاتا ہے۔
غیر متمدن معاشرے میں ستر پوشی کا بھی تصور نہیں تھا۔ پوشاک زیبائش کی ایک شکل تھی۔ سردی یا شرم کے لئے استعمال کی جانے والی شے نہ تھی۔ جب ڈارون نے فیوجی کے لوگوں پر ترس کھا کر انہیں سردی سے بچنے کے لئے سرخ کپڑا دیا تو انہوں نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے زیبائش کے طور پر استعمال کیا۔ اسی طرح اورینیکو خواتین نے وہ کپڑے پھاڑ دیے جو عیسائی پادریوں نے انہیں دیے تھے۔ ان کا اصرار تھا کہ کپڑے پہن کر انہیں شرم ائی گی۔ زیادہ تر غیر متمدن عورت، بعد کے عورت کے طرح پوشاک اپنے عریانی ڈھانپنے کے لئے نہیں بلکہ اپنے دلکشی بڑھانے کے لئے استعمال کرتی تھی۔
غیر متمدن کلچر پر نظر ڈالتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ معاشی زندگی کے تمام طریقے ایجاد کر لئے گئے ہیں۔ شکار ،ماہی گیری، غلہ بانی ، کاشت کاری، نقل وحمل، صنعت و تجارت اور سیاسی زندگی کا سادہ ڈھانچہ منظم ہو چکا ہے۔ جرگہ خاندان ، دیہی کمیونٹی اور قبیلے وجود میں آ چکے ہیں۔ بچوں کی تربیت ، جنس کی باضابطگی ، اخلاق وعادات اور وفاداری میں توقیر اور عمدگی کا پیدا ہونا، مذہب کی بنیادی رکھ دی گئی ہیں ۔ اخلاق کی حوصلہ فزائی اور گروہوں کی مضبوطی کے لئے مذہب کی امیدیں اور خوف کا اطلاق ہوتا ہے۔ گفتار پیچدہ زبانون میں ترقی کر گئی۔ طب اور جراحت کا اغاز ہوا۔ سائنس اور ارٹ میں معمولی شروعات ہو چکی ہے۔ بہر طور حیران کن تخلیق کی تصویر ہے۔ انتشار سے ہیئت وجود میں آ رہی ہے۔ جانور سے عاقل کی طرف سفر شروع ہو رہا ہے۔ ان "وحشیوں” اور ان کے ہزاروں سال تجربے کے بغیر تمدن وجود میں نہ اتا۔ ہم ہر چیز میں ان کے ممنون ہے۔ جس طرح ایک خوش قسمت مگر نالائق بیٹا اپنے بزرگوں کی طویل مشقت سے حاصل کردہ کلچر، سلامتی اور سہولیات وراثت میں لیتا ہے۔
اک ستارہ تھا میں
ایک تو سفر کی تھکاوٹ، پھر تقریب میں شرکت کا طویل وقت، اور پھر تقریب سے رہائش گاہ تک کا...