ڈاکٹر سید اسد ہمدانی کا تعلق آزاد کشمیر کے ضلع کوٹلی کے نواحی علاقے پنجیڑہ سے ہے۔۔۔۔پونچھ یونیورسٹی کے شعبہ زراعت سے وابستہ رہے ۔آج کل یونیورسٹی آف کوٹلی میں شعبہ بائیوٹیکنالوجی میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔۔ ایچ ای سی نے برطانیہ کی ساسیکس یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کے لیے نامزد کیا اس سلسلے میں انھیں کافی دفعہ برطانیہ جانے کا موقع ملا تو “ولایت یاترا” نے جنم لیا۔یہ سفرنامہ ان کے اسفار کے دوران پیش آنے والے مشاہدات تجربات اور تاثرات پر مشتعمل ہے۔ہمدانی صاحب نے ترقی یافتہ اقوام کی ترقی کے راز پر کھل کر اپنے مافی الضمیر پیش کیا اور کسی مصلحت کو خاطر میں لائے بغیر جو محسوس کیا اسے بہعینہٖ بلا کم و کاست بیان کر دیا۔
ہمدانی صاحب نے جہاں انگریزوں کی کام سے لگن سادگی اور پروفیشنل اپروچ پر کھل کر داد دی وئیں پر ان ان کے اندر چھپے تعصب اور مسلم دشمنی کے رویے کو بیان کرنے سے بھی نہ ہچکچائے۔
مغرب میں کام سے لگن بالخصوص اعلیٰ تعلیم میں تحقیق اور جستجو تعلیمی بجٹ اور کمٹمنٹ پر کھل کر اظہار خیال کیا۔مغربی اقوام اگر آج بام عروج پر ہیں تو اس کی وجہ ان کی تعلیم پر خصوصی توجہ اور کلیئرٹی ہے۔جب کہ ہمارے ہاں لوگ کام کی بجائے اپنی پروموشنز اور ترقی کے لیے بھاگ دوڑ کرتے نظر آتے ہیں اور اس کے لیے وہ تمام حربے اختیار کرتے ہیں جو رائج الوقت ہیں۔ کبھی کارپردازان حکومت سے تعلق کام آتا ہے تو کبھی برادری اور دیگر اثرورسوخ کے ہتھکنڈے اپنائے جاتے ہیں۔جب کہ مغرب میں اس طرح کا کوئی چور دروازہ نہیں ہوتا بلکہ صرف اور صرف کام قابلیت اور محنت ہی اصل کلید ہوتی ہے ترقی کے ابواب کھولنے کے لیے۔ہر شخص اپنے کام سے کام رکھتا ہے اور ڈنڈی مارنے کی گنجائش قطعاً نہیں ہوتی ہے۔
چپراسی ٹائپ کسی قسم کی مخلوق وہاں نہیں پائی جاتی بلکہ ہر آدمی اپنا کام خود کرتا ہے۔اور یہ روایت اعلیٰ حکومتی ایوانوں سے ہوتے ہوئے ہر طرح کی درسگاہوں سے گزر کر ہر چھوٹے بڑے دفتر تک پہنچتا ہے۔۔
یونیورسٹیوں میں تحقیق عام زندگی اور مارکیٹ سے جڑی ہوتی ہے۔مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے مطابق ریسرچ ہو کر عملی افادیت کا باعث بنتی ہے جب کہ ہمارے ہاں یونیورسٹیوں میں ایسی کوئی تحقیق بدقسمتی سے نہیں ہو رہی ہے۔
حکومتی ایوانوں میں پروٹوکول اور ہٹو بچو کی روایات موجود نہیں ہیں۔ایوانوں میں بیٹھے پارلیمنٹ کے ممبران قانون سازی کرتے ہیں جب کہ بلدیاتی نمائندے بلاتخصیص تعمیر و ترقی کے کام کرتے ہیں۔چاہیے طوفان یا زلزلہ ہی کیوں نہ آ جائے قومی اور بلدیاتی انتخابات ایک دن کے لیے بھی ملتوی نہیں ہوتے۔ہر ادارہ اپنی ڈومین اور دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے کام کرتا ہے۔
جب کہ ہمارے ہاں بلدیاتی انتخاب ایک عرصے سے التواء کا شکارہیں۔اختیارات نیچے تک جانے کی بجائے ان کا دائرہ کار چند ہاتھوں تک محدود ہے۔ایک چپراسی کی تعیناتی سے لیکر بڑی سے بڑی پوسٹنگ اور تقرری کے اختیارات ایوان میں بیٹھے وزراء کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔۔
برطانیہ ایک طویل عرصے تک برصغیر میں قابض رہا مگر بدقسمتی سے افسر شاہی کا ایک ایسانظام چھوڑ گیا جو اسکے اپنے ملک میں کہیں نظر نہیں آتا۔نہ ہی لارڈ میکالے کا نظام تعلیم ہی وہاں کہیں نظر آتا ہے۔ہمارے ہاں تعلیم کی انتہا اسی کو سمجھا جاتا ہے کہ طالب علم ڈاکٹر یا انجنئیر بن جائے جب برطانیہ میں ہر مضمون کی اپنی اہمیت ہوتی ہے اور کوئی بھی مضمون کم تر یا برتر نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر اسد کے اقرباء میں سے بہت سارے لوگ برطانیہ میں تارکین وطن میں شامل ہیں جو کئی عشروں سے وہاں مقیم ہیں ڈاکٹر صاحب نے انھیں بھی قریب سے دیکھا۔اس حوالے سے ایک محقق کی نظر سے آپ نے جو دیکھا اس کا اظہار کیا۔آپ لکھتے ہیں کہ ایک طرف یہ لوگ پاؤنڈ کما کر اپنے علاقوں میں بڑی بڑی کو ٹھیاں بناتے ہیں تاکہ دوسروں سے ممتاز کہلا سکیں۔مگر بدقسمتی سے سے برادری ازم مسلکی اختلافات جیسی خرافات سے یہ تارکین وطن ایک ترقی یافتہ ملک میں رہنے کے باوجود پیچھا نہ چھڑا سکے۔
یہ لوگ پیسے کمانے والی مشین تو بن چکے ہیں مگر اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے بدترین غفلت کا شکار ہیں۔اکثریت کے بچے آکسفورڈ اور کیمبرج جیسی عظیم درسگاہوں سے ناواقف ہیں۔حالانکہ ان عظیم درسگاہوں سے تعلیم حاصل کرنا کسی بھی طالب علم کا خواب ہو سکتا ہے۔دنیا میں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نوبل انعام حاصل کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق انہی درسگاہوں سے فارغ التحصیل لوگوں سے ہے۔مگر ہمارے لوگوں کی اکثریت کی نظر ان عظیم تعلیمی اداروں کی بجائے زیادہ سے زیادہ دولت کمانے میں لگی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اتنے طویل عرصے سے اس معاشرے میں رہنے کے باوجود مثبت اقدار کو اپنے اندر جذب کرنے کی بجائےمنفی چیزوں کو ہی اختیار کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب ہمارے اپنے سماج کے کھوکھلے پن پر بھی اپنے گہرے کرب اور تاسف کا اظہار کرتے ہیں۔ہم ایک دوسرے سے علم عمل اور تعلیم میں مقابلہ کرنے کی بجائے کوٹھی اور کار سے مقابلہ کرتے ہیں۔ڈاکٹر اسد کو فطرت اور اس کے مظاہر سے بھی گہری انسیت ہے۔دریائے تھیمز کے کنارے فطرت کی جلوہ آرائیوں کا نظارہ کرتے ہیں تو وہ مالک الملک کی عظمت کا اعتراف بھی کرتے نظر آتے ہیں ساتھ ہی وطن مولود کشمیر کے فطری حسن کو گوروں کے دیس کے حسن پر فوقیت دیتے ہیں۔روایت سے ہٹ کر خواہ مخواہ احساس کمتری کا شکار ہو کر مغرب کی ہر چیز سے مرعوب بھی نہیں ہوتے البتہ ان کے حسن انتظام پر انھیں بجا طور خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
ملک عزیز میں ہونے والے معاملات پر ہر حساس ادیب کی طرح آپ کا دل بھی خون کے آنسو روتا ہے۔ذیل کی سطور میں اس کرب کو ملاحظہ کیجیے۔
“ہم قربانی کا جانور خریدتے ہیں اس کو پینٹ کرکے پورے محلے میں گھماتے ہیں اپنی دولت کی دھاک دوسروں پر بٹھاتے ہیں۔پروسیوں کو آگ لگاتے ہیں رشتہ داروں میں پگ اونچی کرتے ہیں۔نمود کا اظہار کرتے سخاوت کی دھونی رمائے آخر میں جانور ذبح کرکے آدھے سے زیادہ گوشت اپنے فریزر میں ٹھونس کے تقوٰی کا اظہار کرتے ہیں۔ہم مرچوں میں اینٹوں کا سفوف ملاتے۔کم تولتے۔مول زیادہ لگاتے چیزیں ذخیرہ کرتے ہیں اور حسب خواہش لوگوں سے نفع بٹورتے ہیں پھر بھی ڈھٹائی سے کہتے ہیں ہذا من فضل ربی۔سرکاری کاموں کے لیے رشوت طلب کرتے ہیں۔پٹواری سے مل کر دوسروں کی جائیداد ہتھیاتے ہیں۔ہمارے ڈاکٹر سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کی بجائے گاہک تلاش کرتے ہیں اور پرائیویٹ کلینکس کی طرف مدعو کرتے ہیں۔ہمارے رہنما زکوٰت کے پیسوں سے اپنا علاج کرواتے ہیں۔نوکری کی لالچ اور نقد پیسوں کے عوض اپنا ووٹ بیچ دیتے ہیں۔ہم ریسرچ کے نام پر ڈنڈی مارتے ہیں۔ہمیں قوم کے بچوں کے مستقبل سے زیادہ اپنے گریڈوں اور تنخواہ کی فکر رہتی ہے۔ہم عبادات تک میں نمود اور دکھاوا کرتے ہیں”
جہاں انگریز پروفیسرز کا اپنے کام سے انصاف اور مکمل لگن تھی وہیں تصویر کا یہ رخ بھی چشم کشا ہے۔
“ڈاکٹر سٹیو کشمیری نژاد اشتیاق اور ایک یونانی لڑکے کا ریسرچ سپروائزر تھا دونوں ہی پی ایچ ڈی سکالرز تھے مگر جو مراعات یونانی کو حاصل تھیں وہ اشتیاق کے لیے نہ تھیں مسئلہ یہ تھا کہ اشییاق ویک اینڈ پہ چل اؤٹ کرنے نہیں جاتا تھا اگر جاتا بھی تو شراب جی بجائے اورنج ڈرنک پر اکتفا کرتا تھا
۔”
ایک اور جگہ مصنف کا کہنا تھا
“ان کی عدالتوں میں انصاف ضرور ہوتا ہے مگر انگریز نظریاتی مسلمان کو پسند نہیں کرتا وہ ہر اس مسلمان کو پسند کرتا ہے جو شراب پیتا ہو لڑکیوں کے بارے میں گندے مذاق میں جھجک نہ محسوس کرتا ہو۔اور جو عیاشی کا دلدادہ ہو۔”
برطانیہ میں موجود تارکین وطن کے بارے میں درج ذیل جملوں میں اپنے کرب کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔
“بریلویوں وہابیوں سلفیوں شعیوں دہریوں میں بٹے کشمیری برادریوں میں بھی منقسم ہیں افسوس ایک جمہوری اور خوشحال ملک کی ساری سہولیات کا فائدہ اٹھا کر بھی نہ سدھرے تو نجانے کب سدھریں گے؟”
اسی طرح ہمارے اندر چھپے احساس کمتری کو ان جملوں میں بیان کرتے ہیں۔
“پتہ نہیں ہم اپنی نام نہاد شناخت کے چکر میں سیاستدانوں اور ان کےچیلوں کو کیوں پروٹوکول دے دے کر انھیں اپنے آپ پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ایک فوٹو سیشن ایک اخباری تصویر ایک فیس بکی خبر ایک وزیر مشیر اس کے چیلے یا چہتے کے ساتھ کھڑے ہو کر نمود و نمائش۔۔۔۔کیا مل جاتا ہے ہمیں ۔خدا کے بندو ایسے لوگ جب تمھارے پاس آئیں تو ان سے پوچھو سرکاری تعلیمی اداروں کا کیا حال ہے؟سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجے کی کیا سہولیات ہیں؟کیا غریب کو سستا انصاف دستیاب ہے؟شعور کی آنکھ کھلے گی تو ہم پر بھید کھلیں گے ورنہ غلام کب ترقی کیا کرتے ہیں؟”
یہ سفرنامہ جہاں ایک طرف معلومات کا خزینہ ہے وہاں مصنف کے حساس دل کی آواز بھی ہے۔
دو سو انچاس صفحات پر مشتمل یہ سفرنامہ اپنے خوب صورت گٹ اپ اور تصاویر کے ساتھ نہایت دیدہ زیب ہے۔قیمت پانچ سو روپے ہے اور حصول کے لیے مصنف کے فون نمبر 00923455153375 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔۔
سفرنامے کے مطالعے کے دوران املاء کی بے تحاشا غلطیاں قاری کو سخت ذہنی کوفت کا شکار کرتی ہیں۔اگر کتاب کو چھاپنے سے پہلے مناسب پروف ریڈنگ ہو جاتی تو یقیناً مزا دوبالا ہو جاتا۔ اسی طرح پودینے کے لیے پیڑ کا لفظ بھی پہلی دفعہ ہی سنا ہے۔۔۔میری دعا ہے کہ مصنف کا قلمی سفر جاری رہے چونکہ ہمارے ہاں ایسے درد دل رکھنے والے مصنفین انگلیوں پہ گنے جا سکتے ہیں۔جنھیں منزل کھونے کا احساس ہو۔۔۔۔۔۔