توحید و رسالت کے بعد اہل تشیع کا سب سے اہم عقیدہ حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کا اقرار ہے ۔ اس ولایت کا تعلق حضرت رسول اسلامؐ کے آخری حج سے ہے۔ آنحضرت ،ذی قعدہ کے آخری عشرہ اور ہجرت کے دسویں برس، اللہ کے حکم سے خانہ الٰہی کے لیے مکہ روانہ ہوئے۔ آپ نے لوگوں کو کعبہ کی زیارت کی اطلاع دی۔ (اشاد ، شیخ مفید، ص ؍ ۹۱، اعلام الوریٰ ، ص؍ ۱۳۷، تاریخ اسلام ، ذہبی، بخش مغازی، صفحہ ؍ ۷۰۱)آپ نے دیگر علاقوں میں بھی اپنے قاصد بھیجے تاکہ وہ مومنین کو اس کار عبادت کی جانب دعوت دے سکیں ۔انہوں نے بھی بالکل ویسے ہی اطلاع رسانی کی جیسا حکم رسول تھا کہ یہ آپ کا آخری حج ہے ۔ یہ سفر خاص اہمیت کا حامل تھا اس لیے جس شخص کے پاس سفر کی استطاعت تھی اس نے آنحضرت کی ہمراہی کا شرف حاصل کرنے میںذرہ بھر تامل نہ کیا۔اس اعلان کے بعد مدینہ اور اطراف مدینہ کے مسلمین کا ایک عظیم اجتماع اکھٹا ہوگیا۔تاریخ داں کے مطابق صرف شہر نبوت سے ۷۰۰۰۰ (ستر ہزار )سے ۱۲۰۰۰۰(ایک لاکھ بیس ہزار)لوگ آپ کے ہمراہ تھے۔(تذکرہ خواص الامہ، ص ؍ ۳۰، سیر حلبیہ، ص ؍ جلد ؍ ۴، ص ؍ ۳۰۸، سیر ہ احمد زینی دحلان ، جلد؍ ۳، ص؍ ۳،احتجاج طبرسی، جلد ؍۱ص؍۵۶،طبرسی نے آپ کے ہم سفر کی تعداد ستر ہزار یا اس اس سے زیادہ ذکر کی ہے) اس کے بعد جیسے جیسے یہ قافلہ راہ سفر کو طے کرتا رہا ، قافلہ کے گردزائرین کا حلقہ وسیع ہوتا گیا۔ راہوں میں مختلف شہروں سے اورخود شہر مکہ سے ایک قابل ملاحظہ تعداد آپ کے ساتھ ہوگئی تاکہ آپ کے ہمراہ مناسک حج انجام دے سکے۔ مورخین نے آپ کے اس سفر کو حجۃ الوداع، حجۃ الاسلام، حجۃ البلاغ، حجۃ الکمال او رحجۃ التمام سے تعبیر کیا ہے۔
رسول اکرم ؐ،۲۴ ؍یا ۲۵ ؍ذی قعدہ ، بروز دوشنبہ ،غسل کرکے ننگے پاؤںاپنے اہل بیت اور اصحاب و مسلمین کی ایک عظیم جماعت کے ہمراہ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی جانب عازم سفر ہوئے ۔ امام علی علیہ السلام اس وقت یمن میں تبلیغ الٰہی کے فرائض میں مشغول تھے ، جب آپ کو اس سفر کی اطلاع ہوئی تواہل یمن کے ہمراہ جانب مکہ چل دیئے اور مناسک حج کے آغا زسے قبل حضرت رسول اسلام ؐ سے ملحق ہوگئے ۔ (ارشاد؛ شیخ مفید، ص ۹۲، اعلام الوریٰ ، صفحہ ؍ ۱۳۸، صحیح بخاری، جلد؍۲، باب:۱۸،حدیث؍۲، صفحہ؍ ۱۵۹اور جلد:۳، کتاب العمرہ، باب عمرۃ التنعیم ، صفحہ؍ ۴۔ صحیح مسلم ، جلد :۴، باب اہلال النبی و ہدیہ ، حدیث اول، صفحہ: ۵۹، البدایہ و النہایہ، جلد:۵، صفحہ:۲۲۷، سیر ہ حلبیہ ، جلد:۳، صفحات: ۳۱۸،۳۱۹ اور ۳۳۴ )
اعمال حج تمام ہوئے اورآپ نے مکہ کو الوداع کہہ کر مدینہ کی راہ لی ۔ درمیان راہ میں ایک مقام پر اللہ نے آپ پر وحی نازل کی۔ تاریخ نے اس مقام کا نام ’غدیر خم ‘بتایا ہے۔اہل لغت نے ’غدیر‘ کے سلسلے سے تحریر کیا ہے کہ ’غدیر ، پانی کا وہ گڈھاہے جہاں سیلاب ختم ہوجانے کے بعد اس کا پانی ٹھہرتاہے اور کافی سرعت سے خشک ہوجاتا ہے۔‘ ’غدیر‘،’ فعیل‘کے وزن پر ہے اوریہاں فعیل فاعل کے معنی میں بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ یعنی (غادر یا غدار)اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ یہ تالاب وقت ضرورت خشک ہوجاتا ہے اورتشنگان آب کی پیاس نہیں بجھاتا ۔ غدیر خم ریگستان میں سیر حاصل زمین کا وہ علاقہ ہے جہاں سے تین میل کے فاصلے پر ’جحفہ ‘ہے جہاں زمانہ جاہلیت میں خزاعہ اور کنانہ قبائل زندگی گزارتے تھے ۔’ خُم‘کے معنی بدبو کے ہیں ۔ کہاجاتا ہے کہ غدیر خم کی آب و ہوا اتنی مکد رتھی کہ کوئی بھی بچہ وہان سن بلوغت تک زندہ نہیں رہ سکتا مگر یہ کہ وہ کسی دوسری جگہ منتقل ہوجائے۔
جُحفہ ، غرفہ کے وزن پر ہے ۔ اس سے مراد آبادی کا وہ علاقہ ہے جو ساحل حجاز پر ، رابغ کے جنوب مشرق ، مکہ و مدینہ (خُلیص و بدر)کے درمیان واقع ہے جو اپنی مکدورآب و ہوا سے مشہور ہے۔ شام ، عراق اور مصر کے حاجی جوکہ پانی کی راہ سے یہاں پہونچتے تھے، کا میقات تھا لیکن ا ب ایسا نہیں ہے او ر اب حجاج کرام ’مقام رابغ ‘سے احرام باندھتے ہیں۔(قاموس ؛مجمع البحرین ، المنجد؛تہذیب الصحاح، اخبار مکہ، ارزقی، ج؍ ۲، ص ؍ ۳۱۰، حواشی سیر ہ ابن ہشا م ، ج ؍ ۱، ص ؍ ۹) غدیر اور جحفہ کے مابین ۳۔۴ کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور مکہ و جحفہ کے درمیان ۶۴ کلو میٹر کا ۔ جحفہ سے مصر، مدینہ ، عراق اور شام کی راہیں جد اہوتی ہیں ۔ غدیر خم تھوڑے سے پانی اور چند پرانے درختوں کے باعث کاروان کے لیے قیام گاہ بنا ہوا تھالیکن وہاں گرمی اپنی شدت پررہتی تھی ۔ (ابن خلکان نے وفیات الاعیان جلد:۵، ص :۲۳۱پر حامی سے نقل کیا ہے کہ : ’وھذا لوادی موصوف بکثرۃ الوخامۃ و شدۃ الحر‘یہ وادی شد ت گرما کے باعث قابل سکونت نہ تھی۔)
جمعرات کے دن ۱۸؍ ذی الحجہ کو رسول اسلامؐ غدیر خم پہنچے ۔ اس سے پہلے کہ مصر، شام اور عراق کے حجاج ایک دوسرے سے جدا ہوتے ، جبرئیل امین پیغام الٰہی لے کر نازل ہوئے ۔ ’اے رسول! آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اوراگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کولوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔‘(سورہ مائد؍ ۶۷)
اُس وقت جو حضرات آگے بڑھ گئے تھے اور جحفہ کے قریب پہونچ گئے تھے انہیں واپس بلایاگیا اور جو پیچھے رہ گئے تھے ان کی آمد کا انتظار کیا گیا تاکہ سب یکجا ہوجائیں۔ ساتھ ہی آپ نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ زمین کو ٹھہرنے کے لائق بنایا جائے ۔ جو ادھر ادھر پتھر ،خار اور ناہموار یاں ہیں ،ا نہیں ہموار کیا جائے تاکہ درخت کے سایہ میں ٹھہرا جاسکے۔انہیں سب مصروفیات میں وقت ظہر آن پہنچا ۔آپ نے شدید گرمی میں نماز ظہر کی امامت فرمائی ۔گرمی اتنی سخت تھی کہ حجاج کرام نے اپنی ردا اور لباس کو آفتاب اور ریت کی گرمی سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ بنالیا تھا۔ اس طرح کہ تمازت آفتاب سے بچنے کے لیے لباس کا کچھ حصہ سر کے اوپر جبکہ ردا کا کچھ حصہ پاؤں کے نیچے دبایا ہوا تھا تاکہ آفتاب، ریت اور پتھر کی گرمی کوکم ازکم کچھ کم کیا جاسکے۔(’وکان یوما قائظا شدید الحر۔۔۔ان اکثرھم لیلف ردائہ تحت قدمیہ من شدۃ الرمضاء‘(اعلام الوریٰ ، صفحہ؍۱۳۹)’وکان اکثرھم یشدالرداء علی قدمیہ من شدۃ الحر‘(کشف الیقین، صفحہ: ۲۴۱))
رسول اسلا م کے لیے بھی پرانے درخت کی ٹہنیوں پر کپڑا ڈالاگیا تاکہ موجود گرمی اور حرارت آفتاب سے (کچھ حد تک)محفوظ رہا جاسکے ۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو پالان شتر سے بنے منبر پر تشریف لے گئے اورخطبہ کا آغاز کیا۔ لوگ آپ کے ارشادات کو سماعت کررہے تھے اور جن تک آپ کی آواز نہیں پہنچ سکتی تھی صحابہ کرام ہواؤں کو سفیر بنا کراپنی آواز کو ان کے گوش گزار کرتے۔اس طرح پیغام الٰہی تمام حضرات تک پہنچ جاتا۔حمد الٰہی اوراللہ کی کثیر نعمات کے تذکرہ کے بعد آپ نے ایک مقام پر تمام حاجیوں سے سوال کیا: الست اولیٰ بکم من انفسکم ؟
قالوا:بلیٰ۔
قال: من کنت مولاہ فعلی مولاہ
کیا میں تمہارے نفسوں پر تم سے زیادہ حق دار نہیں ہوں ؟
سب نے عرض کیا: جی ہاں !
پھر آپ نے فرمایا: جس کا میں مولا ہوں اس کے (یہ)علی مولیٰ ہیں ۔ رسول اسلام نے اس جملہ کو تین دفعہ تکرار کیا۔ (اصول کافی، جلد:۱، ص:۲۹۵۔۲۹۶، تذکرۃ الخواص الامہ، ص:۲۹، امالی شیخ طوسی، ص:۲۴۷، کشف الغمہ، جلد :ا ، ص:۵)اور فرمایا: اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ و احب من احبہ و ابغض من ابغضہ وانصر من نصرہ واخذل من خذلہ وادرالحق معہ حیث دار۔ الافیبلغ الشاھد الغائب
اے اللہ ! تو اسے دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اسے دشمن رکھ جو علی کا دشمن ہوجائے ۔(سنن ابن ماجہ، باب فضائل اصحاب رسول خدا، باب فضائل علی ابن ابی طالب، جلد:۱، ص:۴۳، حدیث:۱۱۶۔البدایہ والنہایہ، جلد:۷، ص:۲۸۶، صواعق محرقہ:باب:۹،صفحہ:۱۲۲، حدیث:۴) اس کی مدد کر جو علی کی مدد کرے اور اسے اس کے حال پر چھوڑدے جو علی کو چھوڑدے۔ (مسند احمد بن حنبل، جلد:۱، ص:۱۱۸۔۱۱۹)اور حق اس جانب موڑدے جدھر علی جائیں ۔اس کے بعد لوگوں سے فرمایا: اے لوگو! حاضرین ،غیر حاضرین کے لیے اس پیغام کو حاضر کردیں۔ (کشف الغمہ، جلد:۱، ص:۵۰)
ابھی لوگ اپنی جگہ پر موجودہی تھے کہ جبرئیل دوبارہ نازل ہوئے اور فرمایا: ’آج میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے۔ ‘(سورہ مائدہ، آیت :۳)
اس وقت لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام کو مبارک پیش کیں۔درمیان صحابہ پیش پیش رہنے والوں میں خلیفہ اول و ثانی تھے ۔ انہوں نے امام کو مبارک باددی اور کہا:مبارک ہو ! اے ابن ابی طالب! تم میرے اور ہر با ایمان مرد و زن کے مولیٰ ہوگئے ۔((اصبحت و امسیت مولی کل مومن و مومنۃ)تاریخ اسلام ، ذہبی، باب:عہد خلفا، صفحہ:۴۳۳’بخ بخ یاابن ابی طالب ، اصبحت مولای و مولیٰ کل مسلم‘(تاریخ بغداد، جلد:۸، صفحہ:۳۹۰))
اسی وقت بلند یاپہ شاعر حسان بن ثابت نے آخری نبی سے اذن کلام لیا۔ آپ نے اجازت عنایت فرمائی ۔ انہوں نے شان ولایت میں قصیدہ پڑھے اور دنیا کے لیے جشن محفل اورشعرائے کرام کی راہیں واضح کرگئے ۔
واقعہ غدیر خم اتنی عظیم اور تاریخی سچائی ہے جسے علمائے شیعہ نے تواتر کے ساتھ نقل کیا ہے۔ علمائے اہل سنت نے بھی بکثرت ذکر کیا ہے۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کی اس سے واضح اور کوئی دلیل نہیں ہوسکتی ۔یوں تو سرکار ختمی مرتبت نے مختلف مقامات پر عظمت ِعلی کو وقتا فوقتا واضح کرتے رہے ہیں لیکن آپ کی حیات کا آخری حج،لاکھ حاجیوں کا مجمع ، غدیر خم کا صحرا اور چلچلاتی دھوپ ، یہ سب گواہ بن گئے کہ امام علی علیہ السلام ہی جانشین رسول ہیں ۔ ساتھ ہی آپ نے نہ صرف اسے وہیں تک محدود رکھا بلکہ اس کی اشاعت کا حکم دیا ۔ باب عظمت میں یہ بات بھی قابل ملاحظہ ہے کہ ولایت علی جیسے ہر مومن پر واجب ہے ویسے ہی اس کی تبلیغ بھی لازم ہے۔ اس کا انکار تو بہرحال اور کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ۔اللہ ہم سب کو ولایت علی علیہ السلام سے ہمیشہ متمسک رہنے کی توفیق عنایت فرمائے اور ہمیں مبلغ ولایت بنائے ۔