بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اپنی کتاب ’’ قواعدِ اردو ‘ ‘ میں حروفِ تہجی کی ظاہری شکلوں کے پیچھے چھپے دل چسپ حقائق کا تجزیہ کیا ہے ۔ قدیم ادوار میں جب بول چال کو لکھنے میں رواج دیا جانے لگا تو عبرانی حروف کی بناوٹوں کو روزمرہ زندگی سے ہی اخذ کیا جانے لگا ۔ چند حروف کی مثالیں دیکھئیے،
(الف) ۔ ابتدا میں قدیم مصری خط میں ا پر بیل یا گائے کا منہ جُڑا ہوتا تھا اور وہ بیل کے سر اور سینگ کی علامت سمجھا جاتا تھا ۔ جو بعد میں صرف ا رہ گیا ۔ فونیقی زبان میں اس کا نام ’’ الف ‘‘ ہوا ۔ پھر اس کی دو اقسام متعارف ہوئیں ۔ الفِ مقصورہ ( سادہ الف ) اور الف ممدودہ ( مد کے ساتھ ) ۔ علامتی اعتبار سے الف کے معانی خدائے واحد ،مفرد ،اکیلا اور راست باز کے ہیں ۔ حسابِ ابجد میں اس کی عدد ی قوت ۱ (ایک) ہے ۔ ب کےلئے ایک مستطیل گھر اور ساتھ ایک بیٹھے ہوئے آدمی کا نقشہ مستعمل تھا ۔ دوسرے الفاظ میں ب کا حرف ’’ بیت ‘‘ یعنی گھر سے ماخوذ ہوا ۔ ج کا حرف جمل سے منسوب ہے ۔ عربی میں اونٹ کو جمل کہتے ہیں ۔ غور سے دیکھیں تو اونٹ پر بیٹھاسوار جب نکیل کھینچے تو اونٹ کا سر پیچھے ہو جانے سے شکل ج کی مثل ہو جاتی ہے ۔ ش دانتوں یا بتیسی سے اخذ کیا گیا ۔ س ، مچھلی ۔ عین عربی میں آنکھوں کو کہتے ہیں ۔ سو اسی نسبت سے ع کو شکل دی گئی ۔ اسی طرح ک ہتھیلی ، ن سانپ ، د دروازہ اور م پانی کی لہر کی علامات سمجھے گئے ۔ کلائیو ایڈورڈ کے مطابق جب حروفِ تہجی کا عرف نہ تھا تو تب بھی تجارت، معاہدات اور تحاریر ہواکرتی تھیں مگر حروف کی بجائے اشیاء کی تصاویر بنا کر وضاحت کی جاتی تھی ۔ اونٹ کے متعلق تجارت ہوتی تو ( ج ) کی شکل بنائی جاتی ۔ مزید یہ کہ بغیر نقطے کی جیم اونٹ جبکہ نقطے والے جیم اونٹ کے مالک کی علامت تھی ۔ ایسے ہی خالی (ب ) گھر اور نقطے والی (ب ) گھر کے مالک کی نشانی سمجھی جاتی ۔
فوررٹ ولیم کالج کے اساتذہ اردو حروف ہجا میں اک غیر معمولی جست لگائی ۔ قبل ازیں ڑ ، ٹ ، ڈ پر چار نقطے ہوتے تھے ۔ انہوں نے نقطے ہٹا کر چھوٹی طوئے کا استعمال کرکے یہ الجھن مٹا دی ۔ یاد رہے کہ سندھی زبان میں آج بھی کچھ حروف پر چار نقطے مستعمل ہیں ۔ دنیا کی تمام زبانوں کے حروف کی تعداد مقرر کر دی گئی ہے ۔ انگریزی کے 26،عربی 29فارسی کے 33 اورہندی کے 42حروف ہیں ۔ لیکن اردو شاید واحد زبان ہے جس کی پیدائش سے لے کر آج تک حروف کی تعداد کا تعین نہ ہو سکا ۔ جوں جوں وقت گزرا ، حروف کی تعداد میں تفاوت و اختلاف شدید تر ہوتا گیا ۔ 35,36 37 . 38 . 50 .51. 52 . 53 . اور54 حروف کی بحث کے سلسلے ،سندھ کے ساحل سے لے کر تابخاکِ جمنا گنگ ،زبان سمیت دراز رہے ۔ مستزاد یہ کہ ہماری آبادی کی طرح اردو میں بھی حروف اور آوازوں کی تعداد ضرورت سے کچھ زیادہ ہے ۔
حروف ِ ہجا فارس (ایران) میں
عربوں کے ایران پر دھاوے اور اقتدار کے بعد ایرانی زبان میں بھی تغیرات آئے اور مقامی پارسی زبان کے چار حروف ( پ ، چ ، ژ ، گ )شامل ہونے سے جدید فارسی کے حروف تہجی کی تعداد 32 ہوگئی ۔ فارسی کا مقامی تلفظ پارسی تھا ۔ چونکہ عرب ’’پ ‘‘کی آواز نہیں نکال سکتے لہٰذا وہ پارس کو فارس ، پارسی زبان کو فارسی اور آغا ( سردار ) کو آقا کہتے تھے ۔ ایران کا قدیم نام ’’ پارس ‘‘ تھا اور پارسی نام کا صوبہ آج بھی ایران میں موجود ہے ۔ محققین کے مطابق ایران کا لفظ آریہ سے مشتق ہے ۔
حروف تہجی ہندوستان میں
عربی اور فارسی بولنے والے ہندوستان پر قابض ہوئے تو حسبِ عادت یہاں کی مقامی زبانوں کو شدید متاثر کیا ۔ حتیٰ کہ دفتری و عدالتی زبان فارسی ٹھہری ۔ تاہم فارسی میں بھی ہندی کے کچھ حروف مثلاََ ڑ ، ڈ ، ٹ اور ے شامل ہو گئے اوراس نئی زبان کے حروف ِ تہجی کی تعداد 36 ہوئی ۔ علاوہ ازیں اردو میں الف کے بعد ( آ ) کا اضافہ بھی ہوگیا جو عربی کے کھڑی زبر کے برابر کی آواز بنی ۔ گویا حروف تہجی کی تعداد میں تغیرات کو زمانے میں ثبات حاصل رہا ہے ۔ جو سکالر آیا اک نیا حرف دے گیا ۔ ان حروف کے اعداد کا تعین ان کے ہم شکل حروف کے اعداد کے مطابق کر دیا گیا ۔ یعنی ب کا عدد ۲ ہے تو ٹ ، پ کے عدد بھی ۲،۲ تصور ہوں گے ۔
’’ ڑ ‘‘ ا ک عجیب اور غریب حرف
عربی اور فارسی کے راستے حروف ہندوستان پہنچے تو یہاں کے مقامی باشندوں کی طرح مقامی حروف بھی حملہ آوروں میں گھُل مِل گئے ۔ چراغ بجھے یا نہ بجھے ،خیمہ بدلنے کا رواج پختہ تھا ۔ مقامی حروف نے اپنی جگہ بنا کر حروف تہجی کی تعداد بھی بڑھا دی ۔ مگر ڑ بیچارہ تھا اور رہا ۔ کسی با معنی لفظ نے ڑ کو اپنے شروع میں لگانا قبول ہی نہ کیا ۔ ستم یہ کہ جہاں بھی استعمال ہوا ،ناخوشگوار ہی ہوا ۔ اس کے صوتی اثرات اور شکل اکثریت کو بھاتے ہی نہیں ۔ یہ ہندوستان میں قدیم دراوڑی زبانوں بشمول تلگو،ملیالم اور تامل وغیرہ میں شامل ہے ۔ سرکاری قاعدے کے مطابق یہ اردو حروف تہجی کا پچیسواں اور اس کے فوراََ بعد ’’ ڑھ ‘‘ چھبیسواں حرف ہے ۔ کچی جماعت سے ہی بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ ڑ سے کوئی لفظ شروع نہیں ہوتا ۔ یقینا طلباء سوچتے ہیں کہ پھر ڑ سے پہاڑ کیسے بن جاتا ہے ۔ غالباََ رائی کے پہاڑ ایسے ہی بناکرتے تھے ۔ تا ہم یہ عقدہ عیاں ہوچکا ہے کہ ’’ ڑوڑہ ‘‘ اور ’’ ڑوڑی ‘‘ کے الفاظ بھی لغات میں موجود ہےں ۔ یہ روڑہ ہی کی پُر تشدد شکلیں ہیں ۔ ا ب فدایانِ اردو کا مطالبہ ہے کہ کسی نہ کسی زبان سے ڑ سے شروع ہونے والے الفاظ کو باقاعدہ لکھت میں شامل کیا جائے تاکہ اردو کی کم مائیگی کا تاثر رفع ہو سکے ۔ مثلاََ پشتو لفظ ’’ ڑوند ‘‘ ( اندھا ) یا پھر گوجری لفظ ’’ ڑوت پیو‘‘ بمعنی سوتیلا باپ وغیرہ ۔ اسی طرح پوٹھوہاری میں پھلوں کی گٹھلی کو ’’ ڑک ‘‘ کہتے ہیں لہٰذا اس کو ڑ کے حامل لفظ کے طور پر ذخیرہ الفاظ میں شامل کرنے کی تجاویز ہیں ۔ اس حوالے سے تاریخِ ادب میں ناصر کاظمی نے ایک شعر لکھ
کر ’’ ڑ ‘‘ کا بھرم یوں رکھا ہے ،
’’ ڑ ‘‘ حرف بد نصیب ہے ناصر میری طرح
اب تک کسی بھی لفظ کے آگے نہ لگ سکا ِ
چند اور کریہہ الصوت حروف
عربی و فارسی سے اردو میں آتے آتے حروف تہجی ڑ ،ڈ ، ٹ جیسے کرخت آوازوں کے حروف لے کر شامل ہوئی ۔ فارسی و عربی میں یہ آوازیں نہ ہیں ۔ مگر ہندوستان میں یہ راءج ہیں ۔ 1857 تک ان حروف پر چار نقطے لگائے جاتے تھے ۔ پھر انھیں نامناسب سمجھ کر ترک کر دیا گیا اور اس کی جگہ ان پر ’’ ط ‘‘ کی علامت لگائی جانے لگی ۔ جس سے ط کی قدرو منزلت میں اضافہ ہوا اور اس کی تعریف یوں ہونے لگی ،، یہ عربی کا سو لہواں ، فارسی کا انتیسواں اور اردو کا بائیسواں حرف ہے ۔ اسے طائے حُطّی مہملہ یا غیر منقوط بھی کہتے ہیں ۔ ِِ
ہمزہ (ء )کا بیان
ہمزہ حرف نہیں بلکہ علامت ہے جس کا استعمال مُصوتی تسلسل کےلئے کیا جاتا ہے ۔ ہمزہ کو کبھی الف کا قائم مقام بھی ماناجاتا ہے ۔ جب دو حروف علت اپنی آواز الگ الگ دیں تو ان کے بیچ ہمزہ آئے گا ورنہ غیر ضروری ہے ۔ مثلاََ آءو ، جاءو ، آءوں ، لاءوں وغیرہ ۔ کچھ الفاظ لکھتے وقت الجھن رہتی ہے اس پر ء لکھیں یا پھر یائے لکھ دیں ۔ جیسے کے لئے ، گئے وغیرہ ۔ اصول ہے کہ آخری حرف سے پہلا حرف اگر بالکسر ہو تو (یے)استعمال ہوگی ۔ اگر مذکورہ حرف پر زبر ہے تو(ء )کی علامت لکھی جائے گی ۔ گویا ’’کے لِیے ‘‘ اور ’’ گَئے ‘‘ درست املا ہیں ۔
،،اردو بے ادبی کی مختصر تاریخ ،، سے اقتباس بشکریہ روزنامہ دنیا
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...