زیر نظر تصویر میں دکھائی دینے والا تابوت پولینڈ کے نائب وزیرخارجہ کا ہے جو کراچی کے ہوائی اڈے کے رن وے پر دہشت گردی کے حملے کا شکار ہو کر موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے تھے۔ ان کے ساتھ تین دوسرے لوگ بھی ہلاک ہوئے اور متعدد زخمی بھی ہوئے تھے۔
آج سے پچاس سال پہلے یکم نومبر کو راولپنڈی سے کراچی پہنچنے والے پولینڈ کے صدر مملکت ماریان سپیچالسکی کے اعزاز میں ہونے والی استقبالیہ تقریب کے دوران ایک حیران کُن سانحہ کراچی ایئرپورٹ پر پیش آیا اور پلک جھپکتے ہی ایک خوشگوار تقریب نہایت سنگین صورتحال میں بدل گئی جب ایک کیٹرنگ وین قطار میں کھڑے ہوئے "وی-آئی-پیز" کے درمیان گھس گئی جو اُن معزز مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے ان سے مصافحہ کرنے میں مصروف تھے۔ اس واقعے نے پولینڈ کے نائب وزیر خارجہ زیڈ ولنیاک، اُس وقت کے انٹیلی جینس بیورو کے ڈپٹی ڈائریکٹر چودھری نذیر احمد سمیت دو مقامی فوٹوگرافرز اشرف بیگ اور ایم یاسین کی جان لے لی تھی۔
صدر مادام سپیچالسکی اور ان کے وفد کو لانے والا خصوصی طیارہ صبح گیارہ بج کر 11 منٹ پر سندھ کے دارالحکومت کراچی میں اترا۔ پولینڈ کے رہنما کا گورنر سندھ لیفٹیننٹ جنرل رخمن گل، اور نیوی کے سی-ان-سی وائس ایڈمرل مظفر احسن نے استقبال کیا۔ اس کے بعد انہیں رن وے پر ہی مرکزی استقبال کی جگہ میں لے جایا گیا۔ جب صدر نے سفارت کاروں اور کچھ پاکستانی شہریوں سے مصافحہ ختم کیا تو طیارے کے پیچھے سے وین نکلی، یو ٹرن لیا اور بڑی تیزی سے وی آئی پی لائن کی طرف بڑھی، اس سے پہلے کہ انھیں پتہ چلتا کہ کیا ہوا ہے، وین مرکزی استقبال کی جگہ میں چڑھ دوڑی اور بہت سے افراد اُس وین کے پہیوں کے نیچے آکر کچلے گئے۔ اس افسوسناک واقعے میں مرنے والوں کے علاوہ متعدد افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔ وین کے ڈرائیور کی شناخت "فیروز عبدالله" کے نام سے ہوئی جو کراچی ایئرپورٹ پر پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کا ملازم تھا.
محمد فیروز عبد اللہ کمیونسٹ مخالف، اسلامی بنیاد پرست تھا. اس نے پورے وفد کو مارنے کی منصوبہ بندی بنائی ہوئی تھی، خاص طور پر وہ پولش صدر ماریان اسپائیچلسکی کو مارنا چاہتا تھا مگر خوش قسمتی سے وہ اس واقعے میں بچ گئے۔
پولش صدر سپیچالسکی ہوائی اڈے پر پیش آنے والے اس خوفناک سانحے کے بعد اپنی اور ساتھ آئے ہوئے پورے وفد کی تمام تر مصروفیات منسوخ کر کے کراچی ائیرپورٹ کے "وی آئی پی" لاونج میں ہی رک گئے اور تقریبا چار گھنٹے بعد شام تین بج کر پندرہ منٹ پر واپس پولینڈ کے لئے روانہ ہوگئے۔ میڈم سپیچالسکی سمیت صدر کے ساتھ آیا ہوا پورا وفد بھی خصوصی طیارے سے روانہ ہوا۔ مسٹر ولنیاک کی لاش کو بھی اسی طیارے کے ذریعے پولینڈ لے جایا گیا۔
پاکستان میں اپنی نوعیت کا مذہبی طور پر شدت پسندی کا یہ پہلا واقعہ تھا جس میں بیرونِ ملک سے آئے ہوئے کسی وفد کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ تفتیش کاروں کے مطابق "فیروز عبداللہ" کا واضح محرک "سوشلسٹوں" کو مارنے کی اس کی خواہش تھی۔ اس کا خیال تھا کہ "سوشلسٹ" اور "سوشلزم" اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہیں۔ یہ افسوسناک واقعہ پاکستان کے پہلے عام انتخابات کے موقع پر پیش آیا، جس میں دائیں بازو کی مذہبی سیاسی جماعتیں(اس وقت جن کا اصل گڑھ کراچی تھا) اپنی انتخابی مہم کے ایک حصے کے طور پر سوشلسٹوں کے خلاف انتہائی مخالفانہ بیان بازی سے کام لے رہی تھیں ۔اتفاق سے "فیروز عبدالله" کی سیاسی وابستگی بھی ایک ایسی مزہبی جماعت سے تھی جو کراچی اور بلخصوص اس کے تعلیمی اداروں میں گہرا اثر رکھتی تھی۔
فیروز پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلا جس کے نتیجے میں دس مئی 1971 کو خصوصی فوجی عدالت نے اسے سزائے موت کی سزا سنائی۔ فیروز کو تیرہ جولائی 1971 میں پھانسی دے دی گئی تھی۔
“