ایک انگریز کو پنجابی سیکھنے کا شوق چرایا۔ پتا چلا کہ فلاں گاؤں میں ایک مولوی صاحب پنجابی سکھانے کے بڑے ماہر ہیں۔ منت سماجت کے بعد وہ سکھانے پر راضی ہوئے۔ اب انگریز نے بس پکڑی اورمولوی صاحب کے گاؤں روانہ ہو گیا۔ مولوی صاحب کا گاؤں بس سٹاپ سے تین میل پیدل مسافت کے فاصلے پرتھا۔ انگریز بس سے اترااور مولوی صاحب کے گاؤں کی طرف چل پڑا۔ راستے میں اس نے ایک آدمی کودیکھاجو چارپائی بننے کے لیے بان تیار کررہا تھا۔ انگریز نے حیرت سے پوچھا کہ یہ کیا کررہے ہو؟ اس نے آدمی نے جواب دیا ’’ چارپائی بنانے کے لیے بان ’’وٹ ‘‘ رہا ہوں‘‘۔ انگریز بولا’’اچھا ! تم لوگ “ٹوئسٹ” کرنے کو ’’وٹ‘‘ بولتا ہے ‘‘۔
تھوڑا آگے گیا تو کیا دیکھا کہ ایک دکاندار بڑا پریشان بیٹھا ہے۔ گورے کو ترس آیا ، وہ اس کے قریب گیااور پوچھا کہ خیر تو ہے ؟ آپ بڑے پریشان نظر آرہے ہیں۔ دکاندار نے بیزاری سے گورے کی طرف دیکھااور کہا’’آج کام بڑامنداجارہا ہے۔ صبح سے ایک روپیا بھی نہیں ’’وٹ‘‘ سکا‘‘۔ انگریز نے سرہلاتے ہوئے کہا ’’اوہ! اچھا پنجابی لوگ “کمانے” کو ’’وٹ ‘‘ بولتا ہے‘‘۔ انگریز بڑاخوش تھا کہ اس نے ایک لفظ کا دوہرا استعمال سیکھ لیا تھا۔ اپنی لغت میں معلومات کا اضافہ ہونے کی خوشی میں سرشار انگریز نے دکاندار کو گڈبائے کیااور گاؤں کی طرف روانہ ہوگیا۔
تھوڑی دور ہی گیا ہوگا کہ گاؤں کے چودھری صاحب آتے دکھائی دیئے۔ انگریز بڑی حیرت سے چودھری صاحب کو تکے جارہا تھا۔ چودھری صاحب کا کھسا، اونچے شملے والی پگ اور کلف لگنے کی وجہ سے اکڑی ہوئی قمیص نے چودھری صاحب کوخوب سجیلا بنارکھاتھا۔ گوراگلے ملنے کے لیے آگے بڑھا توچودھری نے دور سے ہی آوازلگائی ’’ گورے بھاجی ! ذرا آرام نال۔ کدے میرے قمیص نوں ’’وٹ‘‘ نہ پئے جائے ‘‘۔ انگریز نے جواب دیا ’’ میں سمجھ گیا۔ آپ لوگ کپڑے پر “سلوٹ” پڑنے کو ’’وٹ ‘‘ بولتے ہو۔ گورا بڑا خوش تھا کہ وہ پنجابی کے صرف ایک لفظ ’’وٹ ‘‘ کے تین مختلف استعمال سیکھ چکا تھا۔ چودھری کو گاؤں آنے کا مقصد بتاتے ہوئے وہ آگے بڑھ گیا۔
ابھی ایک آدھ منٹ ہی گزراہوگاکہ اس نے ایک آدمی کو دیکھا جو اپنا پیٹ دبائے سرپٹ کھیتوں کی طرف دوڑا چلا جا رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کا پیٹ خراب ہو اور اب مزید برداشت کرنا مشکل ہو۔ وہ شلوار خراب ہونے سے پہلے کسی محفوظ جگہ پہنچنا چاہتا تھا۔ انگریز نے سمجھا کہ شاید یہ بندہ کسی مصیبت کا شکارہے۔ پس اس کی مدد کرنی چاہیے۔ انگریز نے زورسے آوازلگائی ’’ بھائی جان ! خیرتوہے ؟ اس آدمی نے کنکھیوں سے انگریز کی طرف دیکھا اور دوڑتے دوڑتے جواب دیا ’’ کوئی گل نئی بادشاہو۔ بس میرے پیٹ وچ بڑازور دا ’’وٹ ‘‘ پیا ہوااے‘‘۔ انگریز نے پریشانی کے عالم میں تھوڑی دیر سوچا اور پھر مسکراتے ہوئے خود سے مخاطب ہوا ’’ اوہ اچھا! تم پنجابی لوگ “لوز موشن” کو بھی ’’وٹ‘‘ بولتے ہو‘‘۔ پنجابی زبان کی وسعت پر حیران ہوتے ہوئے وہ گاؤں کی طرف روانہ ہوگیا۔
تھوڑی دیر بعد دور سے ایک بزرگ آتے دکھائی دیئے۔ قریب آئے تو انگریز نے ان کو روکا اورپوچھا کہ گاؤں ابھی مزید کتنی دور ہے ؟بابا جی نے حقے کا کش لگایا اور دھواں اڑاتے ہوئے بولے ’’ پتر! وٹو وٹ ٹری جاؤ۔ ہن تھوڑا ای رہ گیا اے‘‘۔ باباجی نے مزید سمجھانے کے لیے پگڈنڈی کی طرف سیدھا اشارہ کیااور پوچھا کہ سمجھ آئی ؟ انگریز نے جواب دیا ’’جی ہاں! میں سمجھ گیا تم لوگ اس “راستے” کو بھی ’’وٹ‘‘ بولتے ہو جس پر بندہ پہلے سے چل رہا ہو‘‘۔ باباجی سرہلاکر آگے بڑھ گئے۔ باباجی کو آگے جاتادیکھ کر انگریز نے بھی اپنی راہ لی۔
کچھ دیر بعد اس کا گزر ایک ایسے بندے کے پاس سے ہوا جو ہونقوں کی طرح فضامیں دیکھے جارہاتھا۔ انگریز نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھاتو اس نے دور آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا’’ اج تے فضاوچ بڑی ’’وٹ ‘‘اے ‘‘۔ انگریز نے اپنی جسم کو ہوا میں کچھ محسوس کرایااور مسکراتے ہوئے بولا ’’ اچھا! تو آپ پنجابی لوگ “ہوا میں نمی” کو بھی ’’وٹ‘‘ بولتے ہو‘‘۔
کچھ دور گیا تو ایک اور بندے کو دیکھا جو بڑا ہی پریشان دکھائی دے رہا تھا۔ انگریز نے وجہ پوچھی تو اس نے سراٹھا کر اسے دیکھااور اپنا سرجھکا کرپھر زمین لکیریں مارنے لگا۔ یہ دیکھ کر پاس کھڑے اس کے ایک دوست نے کہا’’ بابوجی ! پریشانی دی کوئی گل نئی۔ ایہہ بڑامیسنا اے۔ اینویں ای ’’ وٹ ‘‘ دڑ کے بیٹھا اے‘‘۔ انگریز نے سرہلایااور دل میں سوچا کہ پنجابی میں “خاموش” بیٹھنے کو بھی ’’وٹ‘‘ کہتے ہیں۔
اب انگریز کا تجسس بڑھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ گاؤں میں داخل ہوچکاتھا۔ کچے پکے مکان ، کاندھوں پر ہل رکھے واپس آتے کسان ، سرپر گھڑے اٹھائے پانی لاتی ہوئی مٹیاریں ، تندور پر روٹیاں لگاتی ہوئی عورتیں ، گلی ڈنڈا کھیلتے ہوئے لڑکے بالے اور منڈیروں پر بیٹھے کبوتراور کوّ ے بڑا ہی دلکش نظارہ پیش کررہے تھے۔ اب ضرورت تھی کہ مولوی صاحب کا مکان پوچھاجائے۔ انگریز نے متلاشی نظروں سے ادھر ادھردیکھا، تھوڑے فاصلے پر کچھ لوگ نظر آئے تو ادھر چل پڑا۔ وہاں پہنچاتومعلوم ہوا کہ لڑائی ہو رہی ہے۔ انگریز بچ بچاؤ کے لیے آگے بڑھا۔ انگریز کو اپنی طرف آتے دیکھ کر لمبے قدکے آدمی نے کہا’’ بابوجی ! رک جاؤ۔ مینوں ایدے تے بڑا’’وٹ ‘‘ اے۔ میں انوں کوئی نئیں چھڈنا‘‘۔ انگریز نے سوچا کہ “غصے” کو بھی پنجابی میں ’’وٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔
اس بندے سے مایوس ہر کر انگریز دوسرے بندے کی طرف بڑھا تاکہ لڑائی ختم کرائی جا سکے مگراس نے بھی غصے سے اس کی طرف دیکھا اور کہا ’’سرکار!تھاں تے ای رک جاؤ۔ ایہہ ’’وٹ ‘‘ ختم نئیں ہو سکدی ‘‘۔ انگریز رک کر سوچنے لگا کہ پنجابی میں تو “لڑائی“کو بھی ’’وٹ‘‘ کہتے ہیں۔ بہرحال انگریز مایوس نہ ہوااور لڑائی ختم کرانے کے لیے آگے بڑھا۔ اسے آگے بڑھتا دیکھ کر مجمع میں سے ایک آدمی آگے آیا،اس کا بازو پکڑ ااور اپنی طرف کھینچتے ہوئے بولا’’ تسی اگے نہ جاؤ۔ نئی تے انہاں نے تہانوں وہ ’’وٹ‘‘ دینا اے ‘‘۔ انگریز کومعلوم ہواکہ “پِیٹ دینے” کو بھی پنجابی میں ’’وٹ‘‘ کہاجاتا ہے۔ یہ دیکھ کر انگریز مولوی صاحب کے مکان کی طرف بڑھ گیا۔
وہ ایک بچے کو مارہے تھے جس کی آئے روز شکایات آتی رہتی تھیں۔ انگریز نے کہا ’’مولوی جی! جانے دیں۔ بچہ ہے۔ بڑاہو گا تو سمجھ جائے گا‘‘۔ مولوی صاحب نے ایک نظر اسے دیکھااور کہا’’ اینے پورے گاؤں وچ انی پائی ہوئی اے۔ اج پہلے میں ایدے ’’وٹ ‘‘ کڈھان گا تے پھر چھڈاں گا‘‘۔ انگریز نے بے بسی کے عالم میں دماغ پر زور دیا اور پھر اس نتیجے پر پہنچا کہ پنجابی میں تو “اکڑفوں” کو بھی ’’وٹ ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ دیکھ کر انگریز اپنی جگہ سے اٹھا، مولوی جی کو سلام کیا، باہر نکلا اور یہ کہتے ہوئے واپسی کی راہ لی:
“What a comprehensive language?
My life is too short to learn”