ماتھا تو میرا اُسی وقت ٹھنک گیا تھا جب شاہ رخ خان نے بھارت کے حوالے سے اپنی مشکلات کا ذکر کیا۔ پھر جب ہمارے ایک مسلّمہ مذہبی رہنما نے بہت ثقہ قسم کی دعوت بھی خان کو دے ماری تو ماتھا ٹھنکنے کے ساتھ ساتھ آنکھ بھی پھڑکنے لگی اور پھر …وہی ہوا جس کا ڈر تھا ؎
آسماں بارِ امانت نتوانست کشید
قرعۂ فال بنامِ منِ دیوانہ زدند
شاہ رخ خان نے مجھے ٹیلی فون کیا کہ اس نے پاکستان آنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
’’مملکت خداداد ہی اب میرا وطن ٹھہرے گا۔ تم یہ بتائو کہ میں کس شہر کو اپنا ٹھکانہ بنائوں۔‘‘
میں نے اپنی طرف سے اور مسلمہ رہنما کی طرف سے اور پوری قوم کی طرف سے خان کو خوش آمدید کہا اور خوب غور کرنے کے بعد اُسے کراچی آباد ہونے کا مشورہ دیا۔ خان نے شکریہ ادا کرنے کے بعد یہ بھی کہنا ضروری سمجھا کہ میری رائے معلوم کرنے کے بعد اب وہ کسی اور سے اس ضمن میں ہرگز رجوع نہیں کرے گا۔ میری رائے اس کے نزدیک صائب تھی۔ میں نے بہرحال یہ راز اپنے تک ہی رکھا۔ مجھے ضرورت بھی کیا تھی کہ ایک شخص نے اگر میری عقل و دانش اور فہم و فراست پر اعتماد کرکے مشورہ لیا ہے تو اس کی تشہیر کرتا پھروں۔ چاند چڑھے گا تو پوری دنیا دیکھ لے گی۔ شاہ رخ کی کراچی کی طرف ہجرت کوئی معمولی واقعہ نہیں ہوگا کہ چھپا رہے گا۔
لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ مشورہ ایسے بے شمار مشوروں کا پیش خیمہ ثابت ہوگا اور یہ سلسلہ بالآخر میرے لیے آزار بن جائے گا۔ دوسرے ہی دن خان کا پھر فون آیا کہ کون سا علاقہ رہنے کے لیے موزوں ہوگا۔ لگتا تھا اس نے پاکستان کا نیا ثقافتی رُجحان اِدھر اُدھر سے معلوم کر لیا تھا۔ کہنے لگا ’’تمہارے ملک میں یعنی میرے نئے وطن میں اغوا برائے تاوان تازہ ترین ثقافتی پیش رفت ہے‘ اس لیے ظاہر ہے کہ ڈیفنس جیسے امیر کبیر علاقے مناسب نہیں ہوں گے۔ ایسے علاقے میں آباد ہونے کا مطلب ہوگا کہ آ بیل مجھے مار۔ میں نے اس کی تحقیق کی تصدیق کی اور یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے گلستانِ جوہر کا محلہ مناسب رہے گا کیونکہ یہ ڈیفنس کی طرح مالدار ہے نہ لالو کھیت کی طرح قلّاش‘‘۔
شاہ رخ خان کو کراچی آباد ہوئے دس دن گزرے ہوں گے کہ اس کا ٹیلی فون آیا۔ کہنے لگا ’’ایک بات پوچھنی ہے، اعتبار چونکہ تمہاری ذکاوت اور ذہانت پر ہے‘ اس لیے تمہی سے پوچھ رہا ہوں۔ بازار کام سے گیا تھا۔ واپس آیا تو گھر والوں نے بتایا کہ کوئی آدمی ایک پرچی دے گیا ہے‘ جس پر پیغام لکھا ہے کہ دس لاکھ روپے تیار رکھو‘ ہم کل دوپہر بعد از نمازِ ظہر آئیں گے اور وصول کر لیں گے‘‘۔
سچی بات یہ ہے کہ جب میں نے شاہ رخ خان کو کراچی آباد
ہونے کا مشورہ دیا تھا تو مجھے اس پرچی کے بارے میں سب کچھ پتہ تھا۔ وہ اس طرح کہ ایک دوست نے چند دن پہلے بتایا تھا کہ اب اس طرح کے پرچی نُما پیغام دکانوں کے علاوہ گھروں میں بھی بھیجے جاتے ہیں۔ ایک فلیٹ کے خود سر مکین نے اس پیغام پر عمل کرنے سے انکار کیا تو اسے وہیں، دن دہاڑے، دوسرے بہت سے مکینوں کے سامنے، مار مار کر لہولہان کر دیا گیا تھا۔ اس سے اس نے تو سبق حاصل کیا تھا، گواہوں نے بھی عبرت پکڑی تھی۔ لیکن بات یہ ہے کہ کراچی جیسے شہرِ بے مثال میں زندگی گزارنے کے لیے ان چھوٹے موٹے تازہ ترین ثقافتی رجحانات کا ساتھ دینا ہی پڑتا ہے؛ چنانچہ میں نے شاہ رُخ خان
کو سمجھایا کہ دیکھو خان! تم اگر ڈیفنس یا باتھ آئی لینڈ جیسے چمکدار علاقے میں رہتے اور اغوا ہو جاتے تو کروڑوں اربوں روپے دینے پڑتے۔ مڈل کلاس محلّے میں رہنے کا یہ فائدہ ہے کہ معاملہ دس پندرہ لاکھ سے آگے نہیں بڑھے گا۔ مہینے دو مہینے بعد اتنی رقم ادا کرنا تمہارے لیے کون سا مشکل ہے!
پندرہ سولہ دن بعد پھر خان کا فون آیا۔ بڑا کنفیوزڈ تھا۔ کہنے لگا ’’یار یہ عقیدے کا کیا چکر ہے؟ بھارت میں تو مجھ سے کبھی کسی نے میرا عقیدہ نہیں پوچھا تھا۔ یہاں مختلف قسم کی پوشاکوں، عبائوں اور مختلف رنگوں کی دستاروں میں ملبوس گروہ دروازے پر آ کر پوچھتے ہیں کہ آپ کا عقیدہ کیا ہے؟ تاکہ اسی عقیدے کی سیاسی پارٹی آپ کو اپنا ممبر بنائے۔ آخر عقیدے کا سیاسی پارٹیوں سے کیا تعلق ہے؟‘‘ میں نے اُسے سمجھایا کہ عوام کی آسانی کے لیے یہاں ہر عقیدے کی الگ سیاسی پارٹی ہے اور ماشاء اللہ سبھی کا انتخابات میں حصہ لینے کا مصمّم ارادہ ہے۔ تم اگر اہلِ حدیث ہو تو مولانا ساجد میر صاحب سے رجوع کرو۔ دیوبندی ہو تو مولانا فضل الرحمن صاحب کو ملو اور بریلوی ہو تو حاجی فضل کریم صاحب یا ثروت قادری صاحب کی خدمت میں حاضری دو۔ قادری صاحب کا سن کر وہ کہنے لگا کہ ’’تمہارے
ہاں ایک اور قادری صاحب بھی تو ہیں جو دساور سے آئے ہیں‘‘۔ میں نے سمجھایا کہ ان کی فکر تم مت کرو۔ ان کی فکر کرنے والے اور بہت ہیں اور سبھی طاقت ور ہیں۔
مشکل سے ایک ہفتہ گزرا تھا کہ پھر شاہ رخ خان نے فون کیا۔ پوچھنے لگا ’’مہندر سنگھ کو کیوں قتل کر دیا گیا اور رگھبیر سنگھ کو کیوں اغوا کیا گیا ہے؟‘‘ میں جانتے بوجھتے ہوئے انجان بن گیا (علمائے کرام اسے تجاہلِ عارفانہ کہتے ہیں)۔ کون سا مہندر سنگھ؟ لیکن شاہ رخ خان بچہ نہیں تھا۔ کہنے لگا ’’تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ خیبر پختون خوا میں آباد سکھ برادری کے سینکڑوں افراد کو اغوا اور قتل کیا جا رہا ہے‘‘۔ میں نے اُسے بتایا کہ یہ یہود و ہنود کی سازش ہے اور اس میں امریکہ اور اسرائیل ملوث ہیں۔ پوچھنے لگا ’’وہ کیسے؟‘‘ میں نے سمجھایا کہ پاکستان میں رہنا ہے تو یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ جو واقعہ بھی ہو‘ اس سے انکار کرکے اُسے سازش قرار دے دینا ہوگا!
یہ سلسلہ چلتا رہا۔ کبھی وہ ہزارہ برادری کے بارے میں مشکل مشکل سوالات کرتا، کبھی چلاس کے واقعات کا ذکر کرتا۔ ایک دن پوچھنے لگا کہ ’’یہ جو ہر ماہ کئی ہندو خاندان ہجرت کرکے بھارت جا رہے ہیں، کیوں جا رہے ہیں؟ اور جس محترم مذہبی رہنما نے مجھے پاکستان آنے کی دعوت دی تھی، کیا اسے ان ہندو خاندانوں کی ہجرت کے بارے میں معلوم ہے؟‘‘
میرا پیمانۂ صبر لبریز ہو چکا تھا۔ میں نے غصے سے فون پٹخ دیا۔
http://columns.izharulhaq.net/2013_01_01_archive.html
“