وزیر اعظم محمد علی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچپن میں ہم دونوں بھائیوں نے جتنی فلمیں دیکھی اپنے والد صاحب کے ساتھ دیکھیں ، ایک پورا قافلہ ہوتا تھا ، جس میں ہم دو بھائی ہمارے کزن ، والد صاحب اور اُن کے کزن شامل ہوتے تھے ۔ مہینے میں ہم کوئی تین چار فلمیں دیکھتے تھے ، پھر جب ذرا بڑا ہوا تو والد صاحب سے اجازت لے کر میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ فلمیں دیکھنی شروع کر دیں ، پھر ایک وقت آیا میں نے اکیلے ہی سینما جانا شروع کر دیا ۔ ، جو فلم پسند آتی اُس کو تین تین چار چار بار دیکھتا ۔ خاص طور پہ ہیرو کے سارے مقالمے اُس کی اداکاری سمیت یاد کرتا ۔ اور گھر میں دروازہ بند کر کے شیشے کے سامنے ، کبھی محمد علی کبھی کمال کبھی وحید مُراد اور کبھی ندیم بنتا ، ، ان سب میں محمد علی میرا پسندیدہ اداکار تھا ، پھر میں نے دوستوں کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا اور آنکھوں میں کچھ ڈالے بغیر آنسو لے آتا ، دوستوں کی تالیاں ( جو مٹھائی کے انتظار میں جلدی جلدی بجا دیتے ) میرے اندر کے فنکار کو اور پختہ کرتی جاتیں ۔
ایک دن میں گھر میں شیشے کے سامنے محمد علی کی وفات کا سین کر رہا تھا ، دروازے کو بند کرنا بھول گیا تھا اور جب آنکھوں میں آنسو لائے آخری ہچکیاں لے رہا تھا تو مجھے اپنی ماں کی ہلکی سی چیخ اور والد صاحب کا قہقہہ ایک ساتھ سُنائی دیا۔ ، میں نے فوری پلنگ کی نیچے چُھپنے کی کوشش کی مگر بڑے بھائی نے پکڑ کر باہر نکال لیا ۔
سکول کی بزم ِ ادب میں میں تقاریر میں حصہ لیتا تھا اپنی ہر تقریر میں یہ شعر ضرور پڑ ھتا
اُٹھ باند کمر کیا کرتا ہے
پھر دیکھ خُدا کیا کرتا ہے
ماسڑ سلطان صاحب کہتے قمر مسعود ہر تقریر میں یہ شعر اس لیے پڑھتا ہے کہ اس میں لفظ ،،، کمر ،، آتا ہے ، میں اقبال نوید کی نکل اُتارنے کی کوشش کرتا تھا جو اسی سکول میں پڑھتا تھا اور تقاریری مقابلے میں ہنیشہ انعام حاصل کر کے آتا تھا ، ہمارے ماسڑ سلطان صاحب جو تعلیم اور تقاریر میں ہماری جیم میم درست کراتے تھے اس دفعہ اُنھوں نے چودہ اگست کو سکول میں ڈرامہ سٹیج کرانے کا اعلان کیا ، شہر کا ڈی سی اور شہر کے دوسرے معززین مدعو تھے مجے قائد اعظم محمد علی کا رول ملا ، سب نے ڈارمے کی دل کھول کر داد دی اور خاص طور پہ میرے رول کو بہت پسند کیا گیا ۔ ، دوستوں کی تالیاں ، گھر والوں کا اداکاری کرتے دیکھ کر بھی نہ مارنا ، اور شہر کے معززین کا میری اداکاری کو پسند کرنا اس بات کی دلیل تھی کہ میرے اندر ایک بہت بڑا اداکار بیٹھا ہے ، جو اب ان چوٹے موٹے سامعین کی داد کا محتاج ، نہیں ہے۔۔
اب میں خواب میں دیکھتا میں گھر سے باہر نکل رہا ہوں ، گھر کے باہر لوگوں کا ایک ہجوم ہے جو میری ایک جھلک دیکھنے کا منتظر ہے ، پولیس اس ہجوم پہ لاٹھیاں برسنا شروع کرتی ہے اور میرے اندر کا ہیرو جاگتا ہے میں پولیس والے سے لاٹھی پکڑ کر اُس کو بُرا بھلا کہتا ہوں اور ہجوم سے محبت کے مقالمے بولنے لگتا ہوں، لوگ مجھے کندھوں پہ اُٹھا لیتے ہیں ، اب اُ پ خود ہی بتائیں ایسے خوابوں کے بعد بھی میرے بڑے اداکار بننے میں کوئی کثر رہ گئی تھی ۔
اور ،،،،، اور پھر ایک دن میں نے محمد علی کی آواز ، وحید مُراد کا ڈانس ، ندیم کا تھپڑ کھا کر رونا ، طالش کا نوابی لباس میں پائیپ پینا اور علاوالدین کو بطور باپ دلہا کے باپ کے قدموں پہ اپنی پگڑی رکھنا یہ سب اور ایک دوست سے اُدھار دس لے کر میں لائیل پور سے لاہور جانے والی ایک ایسی پسنجحر ٹریں میں بغیر ٹکٹ کے بیٹھ گیا جو سٹیشنوں کے علاوہ بھی جگہ جگہ رکتی تھی ، میری نظر گارڈ پہ رہتی اور میں ڈبے بدلتا رہتا آخر فلم کے سکرپٹ کے مطابق بغیر پکڑے لاہور سٹیشن سے باہر نکل آیا ، اور لوگوں سے راستہ پوچھتے پوچھتے داتا دربار پہنچ گیا ،داتا کا لنگر کھانے کے بعد میں نے سوچھا فلم میں اب ہیرو کو گانا چاہیے اُسی وقت ایک شخص نعت شریف پڑھ ریا تھا میں نے اسی نعت کو فلم میں گانے کی جگہ لے لیا اور محسوس کیا اُس نعت خواں کی بجائے میں نعت پڑھ رہا ہوں اور سارا دربار رو رہا ہے ، رات کو جب میں دربار میں ہی سو گیا میں نے خواب میں دیکھا داتا صاحب مجھے محمد علی کی کوٹھی میں داخل کرا رہے ہیں اگلی صبح اُٹھ کر دربار سے کھانا کھایا اور سوچھا جس طرح مصنف اور ہدایت کار کو فنانسر کی ضرورت ہوتی ہے مجھے بھی کیسی ایسے آدمی کی ضرورت ہے ، جو میرے اندر کے اداکار کو سینما کی سکرین پہ دیکھا سکے اچانک مجھے رات کا خواب یاد آگیا اور میں داتا دربار سے پیدل لوگوں سے راستہ پوچھتے پوچھتے گلبرگ کی طرف چل پڑا ۔ سورج میرا راستہ کھوٹا کرنے کے لیے اپنی تپش کی بارش مجھ پہ برساتا رہا مگر میں راستوں پہ لگے نلکوں سے پانی پی پی کر اُسکا مقابلہ کرتا رہا اور کوئی دس گیارہ بجے گلبرگ کی مین سڑک پہ پہنچ گیا ، اب صرف تھوڑا سا کام باقی رہ گیا تھا کی کسی طرح محمد علی صاحب کی کوٹھی کا پتہ مل جائے تاکہ محمد علی صاحب مجھے اپنی کار میں بیٹھا کر شاہ نور سٹوڈیو لے جا سکیں ، مگر دشمن سماج مجھے ہر طرح سے ناکام بنانے پہ تُلا بیٹھا تھا ، کوئی محمد علی صاحب کی کوٹھی کا پتہ نہیں بتا رہا تھا اور ،،، اور پھر غیبی امدا نے میری آنکھیں کھولیں اور میں نے دیکھا ایک کوٹھی کے باہر لکھا ہے ،، محمد علی ،، میں نے منزل کو اپنے قدموں کی نیچے محسوس کیا اور ایک لمبی سے تھوک گھاس پہ پھینکی میرے لیے اُس وقت یہ گھاس ہی ظالم سماج تھی ، اس وقت داتا صاحب تو کہیں نظر نہ آئے مگر میں نے اُن کو آس پاس محسوس کیا اور میں دونوں سڑکوں کے درمیاں بنے پارک میں محمدعلی صاحب کی کوٹھی کے عین سامنے بیٹھ گیا اور انتظار کرنے لگا کب محمد علی اور زیبا صاحبہ گاڑی سے باہر نکلیں ۔ اور میں اُنکے سامنے کھڑا ہو جاوں ، میں نے تمام مقالمے یاد کر لیے تھے جو مجھے اُن سے بولنے تھے بلکہ جو محمد علی اور زیبا صاحبہ نے کہنا تھا وہ بھی اور اُن کو جو جواب میں کہنا تھا وہ بھی یاد کر لیے تھے اس عرصے میں میرے چہرے پہ کیا جذبات ہونے چائیں اور آخری مقالمہ بولتے آنکھوں میں آنسو ضرور آنے چائیں میں نے بیٹھے بیٹھے اُس کی بھی پریکٹس کر لئی تھی اور آخر پہ دیکھ رہا تھا کہ محمد علی صاحب گاڑی سے باہر نکل رہے ہیں مجھے اپنی باہنوں میں لے رہے ہیں زیبا صاحبہ میرا ماتھا چوم رہیں اور دونوں مجھے گاڑی میں بیٹھا رہے ہیں اور گاڑی شاہ نور سٹوڈیو کی طرف چل پڑی ہے ۔
مگر جناب کوئی ایک بج گیا مگر کوئی گاڑی کوٹھی سے باہر نہیں نکل رہی ، ، میں نے محسوس کیا کوئی اہل ِ حدیث سازش کر رہا ہے وگرنہ رات تو داتا صاحب خود مجھے کوٹھی میں داخل کرا کے گئے ہیں ، میں نے اُٹھ کر کوٹھی کی گیٹ کو یاتھ لگایا تو وہ کھولا ہی ہوا تھا میں اندر چلا گیا کیا دیکھتا ہوں جہاں گاڑی کھڑی کی جاتی ہے وہاں ایک چار پائی ہے جس پہ ایک انتہائی کالے رنگ کا موٹا ساآدمی سر پہ صافہ باندے بیٹھا حقہ پی رہا ہے اور تھوڑی سی دور اُس سے بھی سیاہ رنگ کا ایک کُتا لیٹا ہے جس نے مجھے دیکھتے ہی گرجدار آواز میں مقا لمے بولنے شروع کر دیے ہیں مگر چارپائی پہ بیٹھے شخص نے ،، کٹ ،، کہہ کر کتے کو خاموش کرا دیا ہے ، میں نے سین میں انٹری دیتے ہوئے ذرا رعب دار آواز میں کیا ،، میاں جی محمد علی صاحب کہاں ہیں ،، اُس شخس نے میرے طرف دیکھے بغیر کہا ،، وہ کراچی گئے ہیں ،، میں نے فوری خود کو محمد علی صاحب کا فیملی ممبر ظاہر کرتے ہوئے کہا ،، اچھا اچھا مجھے یاد آیا اُنھوں نے مجھے بتایا تھا ،، بھابی زیبا جی تو گھر پر ہی ہوں گئی نہ ،، اُس شخص نے پہلےمیری طرف اور پھر کتے کی طرف دیکھا میں نے محسوس کیا کتا حکم کا منتظر ہے اُس نے پھر میری طرف دیکھا ، کون بھابی زیبا ،، میں نے کہا میاں جی محمد علی صاحب کی بیگم صاسحبہ وہی بھابی زیبا جو فلموں میں کام کرتی ہیں ۔۔ زیبا بھابی نے ہی مجھے بلایا ہے ،، اُس نے اس دفعہ صرف کتے کی طرف ہی دیکھتے کہا ، او بھائی یہاں کو ئی زیبا ویبا اور کوئی اداکار نہیں رہتا یہ سابق وزیر اعظم محمد علی کی کوٹھی ہے ،، میں گرنے ہی والا تھا کہ مجھے چار پائی اور کتے کے درمیاں ایک پانی کا گھڑا دیکھائی دیا ، میں کہا میاں جی کیا میں پانی پی سکتا ہوں ،، میں جب گھڑے کی طرف بڑھا تو میں نے دیکھا کتا اپنی آنکھیں بند کر چُکا تھا شاید وہ اس عالمی قوانین کو سمجھتا تھا کہ جب دشمن ہتھیار پھینک دے تو اس پہ حملہ نہیں کرنا چاہیے ، اس دن میں دو تین اور ادا کاروں کی کوٹھیوں پہ بھی گیا ، اس دفعہ کوٹھیاں تو اُنھی کی تھیں جن ادا کاروں کے نام باہر لکھے ہوئے تھے مگر وہ میرا انتظار کیے بغیر ہی شاہ نور ، باری ۔ اور شباب سٹوڈیو روانہ ہو چُکے تھے اور میں ندیم کی طرح کوٹ کو کندھے پہ ڈالے داتا دربار کی طرف واپس چل پڑا ، اگلے دن میں نے سیدھا شاہ نور جانے کا سوچھا ، راستے میں مجھے ایک سڑک بنتی نظر آئی اور جہاں بنجارے اور اُن کی عورتیں کام کر رہی تھیں مین نے سوچھا ہیرو کو سخت محنت کرتے دیکھانا چاہیے میں اُس آدمی کے پا س چلا گیا جو کام دیتا تھا اور اس دفعہ میں نے محمد علی نہیں ( اُس نے مجھے دھوکہ دیا ہے ) بلکہ علاوالدین کے جذبات چہرے پہ لے کر گیا اور اُ س آدمی سے کام مانگا جو اُس نے فوری دے دیا ، اور میں نے سر پہ پتھروں کی ٹوکری رکھ کر کام کرنا شروع کر دیا ، مجھے محسوس ہوا میری فلم یہیں مکمل ہو جائے گئی ابھی کوئی بنجارن مجھے سخت کام کرتادیکھ کر اپنی سہلیوں سے کُسر پُھسر کرے گئی ، کہ اچانک ٹیھیکدار کی آواز گونجی اوے ادھر اُدھر کیا دیکھتا ہے جلدی جلدی کام کر ، میں نے تیسری ٹوکری کے بعد پھر بنجارن کی طرف دیکھنا شروع کر دیا میں نے محسوس کیا مجھے کو ئی بازو سے پکڑ کر لے جا رہا ہے کام کرانے والے جتنے گھنٹے میں نے کام کیا تھا اُس کے پیسے دیے اور کہا چُھٹی ،،
میں نے جی بھر کے کھانا کھایا اور بس کا ٹکٹ لیا اور سیدھا والد صاحب کے قدموں پہ والد صاحب نے روتے پوئے مجھے اُٹھا کر گلے لگایا ، اُس دن کے بعد سے میرا دل فلموں سے اُچاٹ ہو گیا اب کبھی کبھار ہی کوئی فلم دیکھتا ہوں ،، ہاں یاد آیا جب میں اخبارات میں کام کرنے لگ گیا تو اخبارات میں کام کرنے کی وجہ سے ایک دفعہ محمد علی اور زیبا صاحبہ سے مُلاقات ہوئی تو میں نے اُن کو ساری روداد سُنائی وہ بہت دیر تک ہنستے رہے اور پھر بعد میں ایک دو دفعہ محمد علی صاحب سے جب ملاقات ہوئی تو وہ چیھڑتے ہوئے کہتے ،، سُناو بھی وزیر اعظم مححد علی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“