جن سوڈو ہنری کیسنجرز کا خیال ہے کہ عمران خان کا ایچ بی او کو دیا گیا انٹرویو (ایبسولیوٹلی ناٹ) ایف اے ٹی ایف کے اجلاس کے بعد تک ملتوی کر دینا چاہیے تھا، انہیں شاید یہ معلوم نہیں کہ مذکورہ انٹرویو تو اس غزل کی شرح تھی جسے ماہ مئی اور جون کے ابتدائی ایام کہا جا چکا تھا۔ امریکی حکام کو افغانستان سے انخلاء شروع کرنے کے بعد اچانک سے خیال نہیں آیا تھا کہ انہیں پاکستان میں بیسز چاہئیں۔ یہ کام دوہا مذاکرات کے وقت سے ہی شروع ہو چکا تھا جسے پاکستان مسلسل ٹالتا چلا آ رہا تھا تاہم اس معاملے میں پاکستانی شرائط قبول کرنے سے انکار کے بعد ہمارے لیے بھی امریکی حکام کو نو کہنے میں آسانی ہو گئی اور یہ انکار امریکی اہلکاروں کے دوروں میں ان تک واضح طور پر پہنچا دیا گیا۔ اس کے بعد یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ امریکا ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلنے دے خواہ ایچ بی او کو انٹرویو دیا جاتا یا نہ دیا جاتا۔
اب یہ دیکھیے کہ ایچ بی او کو انٹرویو کیوں دیا گیا ۔۔۔۔۔۔ اس سوال کے جواب سے پہلے یہ بھی جان لیجیے کہ ایچ بی او نے انٹرویو کی کانٹ چھانٹ کر کے جو تاثر خراب کرنے کی کوشش کی، اسے نیو یارک ٹائمز کو دیے گئے انٹرویو کے ذریعے سدھارا گیا۔ لہٰذا اب سوال کو یوں موڈیفائی کر لیجیے کہ یہ دونوں انٹرویوز کیوں دیے گئے؟
جیسا کہ بتایا جا چکا ہے کہ بیسز فراہم کرنے کے سلسلے میں امریکی حکام تک واضح انکار انٹرویو سے کئی دن پہلے پہنچایا جا چکا تھا لیکن مغربی ذرائع ابلاغ اس معاملے میں اپنی حکومتوں اور اداروں کے ایماء پر متضاد اور مبہم خبریں شائع کر کے سچوایشن کو الجھا رہے تھے جس کا نقصان نہ صرف پاکستان کو اندرونی طور پر ہو سکتا تھا بلکہ اپنے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کو بھی زک پہنچ سکتی تھی۔ سفارتی دنیا میں یہ عام طریقہ ہے جب دو ممالک کسی معاملے پر مذاکرات کرتے ہیں تو اس کے نتائج کا اعلان میڈیا کے سامنے کیا جاتا ہے ۔۔۔۔ بھلے ہی مکمل بات نہ بتائی جائے۔ اگر ان کے درمیان اتفاق رائے ہو جائے تو یہ اعلان مشترکہ بھی ہو سکتا ہے اور اتفاق نہ ہونے کی صورت میں الگ الگ اپنی پوزیشن واضح کی جاتی ہے ۔۔۔۔۔ البتہ زیر بحث معاملے میں یہ ہوا کہ پاکستان کی جانب سے امریکی مطالبات رد کیے جانے کے بعد امریکی حکام آفیشلی تو یہ نہیں بتا سکتے تھے کہ اس بار انہیں پاکستان نے کورا جواب دے دیا ہے لہٰذا انہوں نے اپنے میٖڈیا کے ذریعے ڈس انفرمیشن پھیلانا شروع کی تاکہ سبکی نہ ہو ۔۔۔۔۔ لیکن اس طرح کی خبروں سے پاکستان کا امیج اپنے دوست ممالک کی نظروں میں خراب ہو سکتا تھا لہٰذا فیصلہ کیا گیا کہ حکومت پاکستان کا موقف واضح انداز میں پیش کیا جائے اور اس کام کے لیے میڈیم یہ انٹرویوز بنے۔
ایچ بی او نے صحافتی اصولوں کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ریکارڈڈ انٹرویو کے بڑے حصے نشر نہیں کیے تو وہی سب کچھ نیویارک ٹائمز کو دیے گئے انٹرویو میں دوبارہ کہا گیا تاکہ دنیا پر ہمارا موقف واضح ہو سکے۔ اس انٹرویو میں وزیر اعظم نے کھل کر یہ کہا کہ امریکی اتحادی بننے سے پاکستان کو شدید نقصان پہنچا ہے لیکن امریکا یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کو امداد دے کر وہ جو چاہے کرا سکتا ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ امریکی خواہشات کی تکمیل کے نتیجے میں ہمیں جانی اور مالی دونوں طرح شدید نقصان ہوا ہے۔ اس لیے یہ غیر متوازن تعلقات اب ختم ہونے چاہئیں، ہمیں امریکا سے امداد نہیں، تجارت چاہیے۔ ہمارے تعلقات اسی طرح "مہذب" ہونے چاہئیں جیسے امریکا اور برطانیہ یا امریکا اور بھارت کے درمیان ہیں۔ ان تعلقات کی بنیاد اعتماد اور مشترکہ مقاصد پر ہونی چاہیے۔ (یعنی پاکستان اب عزت کے ساتھ تعلقات رکھنا چاہتا ہے۔ یہ بات امریکا کو تو کیا ہضم ہونی ہے، ہمارے دانشوروں کو بھی ہضم نہیں ہو رہی کیونکہ آئی این جی اوز کی نوکریاں کر کر کے ان کا ایمان کی حد تک یقین بن چکا ہے کہ رازق امریکا ہے)۔
جب نیویارک ٹائمز کی نمائندہ جیوتی نے وزیر اعظم سے یہ پوچھا کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پاک امریکا تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی کیونکہ اس کے بعد تو امریکا کو پاکستان کی ضرورت نہیں رہے گی تو عمران خان نے سفارتی زبان میں پاکستان کی مستقبل کی پالیسی بیان کر دی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ سٹریٹجک تعلقات ہوں گے یا نہیں ہوں گے، میں نے اس بارے میں سوچا ہی نہیں۔ میں تو یہ سوچتا ہوں کہ باہمی تعلقات مشترکہ مفادات اور مقاصد کی بنیاد پر ہونے چاہئیں۔ (یعنی اب پاکستان امریکی خواہشات پوری نہیں کرے گا) انہوں نے کہا کہ پاکستان 22 کروڑ آبادی ملک ہے جو جغرافیائی طور پر ایک اہم لوکیشن پر موجود ہے۔ اس کے دو اطراف دنیا کی دو بڑی مارکیٹس (بھارت اور چین) موجود ہیں ۔۔۔ ایران اور وسطی ایشیا تک پاکستان کی حیثیت ایک انرجی کاریڈور کی ہے جو مستقبل کی معیشت کے لیے اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ (غور فرمائیے، یہ نرم سے نرم سے الفاظ میں پیار سے دی گئی دھمکی ہے کہ اگر امن کی بات کی جائے تو ہم دنیا کی معاشی ترقی میں کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن اگر امن کا راستہ اختیار نہ کیا جائے تو بڑی مارکیٹس تک رسائی اور انرجی کاریڈور بند بھی ہو سکتے ہیں۔ جن بزرجمہروں کو لگتا ہے کہ یہ دھمکی نہیں تھی، انہیں اگلے سوال پر غور کرنا چاہیے کہ کیسے نیو یارک ٹائمز کی نمائندہ نے ان الفاظ میں چھپے ہوئے پیغام کو سمجھ کر براہ راست وہی بات کہہ دی جو امریکا پاکستان سے کہہ رہا ہے)
اس نے سوال کیا کہ امریکا اور بھارت کے درمیان تعلقات بہت قریبی نوعیت کے ہیں جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے امریکا چینی اثر رسوخ کا راستہ روکنے کے لیے بھارت کو اہمیت دے رہا ہے۔ دوسری جانب آپ چین کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے لیے بہت آگے جا چکے ہیں۔ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ ایسا کرنے سے آپ امریکا اور بھارت کے مقابل کھڑے ہو رہے ہیں؟ (دھمکی)
اس کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ سب سے پہلے مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ امریکا اور چین مدمقابل کیوں ہیں؟ یہ دو بڑے معاشی جن اگر تجارت کریں تو دنیا کو زیادہ فائدہ ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں چین اور امریکا میں سے کسی ایک فریق کا انتخاب کرنے پر مجبور کیوں کیا جا رہا ہے؟ ہم تو سب کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں (یعنی اگر تعلقات خراب ہوتے ہیں تو یہ ہماری جانب سے نہیں ہوں گے، ذمہ داری امریکا کی ہے)۔ چین ہمیشہ سے ہمارا ساتھ دیتا چلا آ رہا ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران بھی اور اس کے بعد بھی جس میں ہمیں بہت نقصان ہوا (یعنی جنگ امریکا کی تھی لیکن ہمارا ساتھ دیا چین نے) ۔۔۔۔۔ اس جنگ میں ہمارے قرضے بڑھ گئے، کاروباری سرگرمیاں منجمد ہو گئیں، قبائلی علاقے اور صوبے شدید متاثر ہوئے۔ ان حالات میں چین ہی وہ ملک تھا جو ہماری مدد کے لیے آیا (یعنی امریکا نہیں آیا) ظاہر ہے کہ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات دیرینہ بھی ہیں اور پائیدار بھی (آگے امریکا والے خود سمجھدار ہیں)۔ دوسری بات، میں نہیں سمجھتا کہ امریکا کو یہ سوچنا چاہیے کہ بھارت چین کے خلاف ان کی ڈھال بنے گا لیکن اگر بھارت اپنے لیے یہ کردار منتخب کر لیتا ہے تو یہ خود اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا کیونکہ باہمی تجارت چین اور بھارت دونوں کے مفاد میں ہے (ہم نیک و بد بھارت کو سمجھائے دیتے ہیں)۔ مستقبل میں کیا واقعات رونما ہوتے ہیں، میں انہیں کسی حد تک تشویش کی نظر سے دیکھ رہا ہوں (یعنی بھارت چین سے پنگا لے گا اور نقصان اٹھائے گا)۔
اسی انٹرویو میں عمران خان نے یہ بھی کہا کہ امریکا افغابستان میں ٹریلینز اَو ڈالرز جھونکنے کے بعد اسے خانہ جنگی کا شکار کر کے چلا جائے گا تو پاکستان مزید افغان مہاجرین قبول نہیں کرے گا۔ ہم سرحد پر باڑ لگا چکے ہیں، اس لیے ممکن ہوا تو مہاجرین کو سرحد پر ہی کچھ خوراک وغیرہ فراہم کی جا سکتی ہے لیکن انہیں پاکستان آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ان دونوں انٹرویوز کے ذریعے پاکستان نے اپنے دوستوں خصوصاً چین (اور روس) کو واضح طور پر یہ پیغام دے دیا ہے کہ اب امریکی خواہشات کے سامنے سر نہیں جھکایا جائے گا ۔۔۔۔۔ البتہ ہمارے ہاں پایا جانے والا این جی اوز کا راتب خور طبقہ اس بات پر مصر ہے کہ بہت جلد پاکستان اسی طرح واشنگٹن کے سامنے سجدہ ریز ہوگا جیسے وہ خود سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ہوئے تھے۔ بہرحال ان کی توقعات ماضی کے تجربات سے اخذ شدہ ہیں کہ کیسے مشرف نے امریکا کا ساتھ دیا تھا، کیسے کیانی نے کونڈولیزا رائس اور ڈیوڈ باؤچر کے حکم پر مشرف کو رگیدتے ہوئے ایک باری پیپلز پارٹی اور ایک باری ن لیگ کو دلوائی تھی۔ کیسے زرداری حکومت نے حسین حقانی کے ذریعے ہزاروں امریکی ایجنٹس کو پاکستان میں داخل کرایا تھا اور کیسے نواز حکومت امریکی اور بھارتی خواہشات کی تکمیل کے لیے اپنے ہی اداروں پر الزامات لگاتی تھی ۔۔۔۔۔ لیکن اب یہی نظر آرہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور سول قیادت دونوں امریکی کیمپ سے نکلنے کا فیصلہ کر چکے ہیں ۔۔۔۔۔ آگے کیا ہوتا ہے، ہم بھی دیکھیں گے۔