وزیراعظم عمران خان سے وابستہ خواب
چند روز بعد سابق کرکٹر اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان، پاکستان کے وزیراعظم کے عہدے پر براجمان ہوں گے۔ اُن کی سیاسی زندگی دو دہائیوں پر محیط ہے۔ بحیثیت سیاست دان یہ ان کے تجربے میں پہلا موقع ہوگا کہ وہ حکمرانی کے ایوان کو سیاسی بیانات سے کہیں مختلف انداز میں دیکھ پائیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو جن کو اُن کے مخالفین بھی پاکستان کا مقبول رہنما ماننے کے ساتھ ساتھ اُن کو ایک عوامی سربراہِ حکومت تسلیم کرتے ہیں، انہوں نے حکومتی ایوان سے علیحدہ ہوکر عوامی سیاست کا آغاز کیا۔ پھر اسی عوامی سیاست کے بل بوتے پر وہ پاکستان کے صدر اور وزیراعظم بنے۔ 1966ء میں استعفیٰ سے پہلے وہ پاکستان کے ’’اقتداری ڈھانچے‘‘ میں اہم کردار ادا کرچکے تھے۔ بحیثیت وزیر پٹرولیم سے لے کر اور وزیرخارجہ تک اور حکومتی پارٹی کے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے تحصیل، ضلع اور صوبوں کے معاملات تک، تھانہ ، کچہری، پٹواری، ڈپٹی کمشنر، سول وملٹری بیوروکریسی کے اقتدار کے اندر تانوں بانوں کے رموز سے آگاہی اُن کی اس حکمرانی کی سیاست کا اہم تجربہ تھا۔ وہ ایک ایسے پاکستان کے حکمران بنے تھے، جب پاکستان ایک عظیم المیے (مشرقی پاکستان کی علیحدگی) سے گزرا تھا، فوج کا مورال بری طرح گرا ہوا تھا اور وہ عام لوگوں کی امیدوں کا واحدسہارا تھے۔ پاکستان میں مقبولیت کے حوالے سے اُن کے بعد کوئی منتخب حکمران اس قدر مقبول لیڈر کے طور پر سامنے نہیں آیا۔ عمران خان تک۔ اقتدار میں آنے کے بعد اس مقبول حکمران کو ’’اقتداری ڈھانچے‘‘ کی جن تلخیوں کا سامنا کرنا پڑا، اس کا شاید اُن کو پہلے سے اندازہ ہی نہیں تھا۔ حالاںکہ وہ ایک دہائی تک اس ’’اقتداری ڈھانچے‘‘ میں اہم کردار ادا کرچکے تھے۔ وہ پاکستان کو بدلنا چاہتے تھے۔ اُن کا نعرہ بھی ’’نیا پاکستان‘‘ تھا۔ محنت کشوں، مزدوروں، درمیانے طبقات اور پیداوار کرنے والوں کا پاکستان۔ ایک سوشل ڈیموکریٹک پاکستان، یعنی فلاحی ریاست۔ اس کے لیے انہوں نے جتنے بھی اہم اقدامات اٹھائے، اُن میں سے زیادہ پہلے چار پانچ ماہ میں اٹھا لیے اور پھر اُن پر عمل درآمد کرتے چلے گئے۔ انہوں نے جس پاکستان کی باگ دوڑ سنبھالی، اس وقت پاکستان دیوالیہ ہوچکا تھا۔ خالی خزانے کے ساتھ، آئین کے بغیر ریاست کا اقتدار۔ مگر ایک شان دار سیاسی جماعت کے ساتھ۔ اور ایک نوجوان قیادت کے ساتھ، اُن کے سمیت کوئی بھی اپنی عمر کی چوتھی دہائی سے اوپر نہیں تھا، سوائے بابائے سوشلزم شیخ رشید اور جے اے رحیم کے، وہ بھی پچاس کی عمر کے قریب تھے۔ پنجاب کے گورنر مصطفی کھر سے لے کر صوبہ سرحد کے حیات محمد شیرپائو شہید، آئین پاکستان کے خالق عبدالحفیظ پیرزادہ تک۔ نوجوانوں کی قیادت نہ اس سے پہلے کبھی ایسے حکمران بنی نہ ہی بعد میں۔ ایک ایسی پارٹی کے ساتھ وہ اقتدار کے ایوان میں داخل ہوئے جس کے پاس ایک طاقتور سیاسی کیڈر موجود تھا۔ اسی لیے جب پنجاب میں پولیس نے ہڑتال کی تو اس ہڑتال کی ناکامی اسی ٹرینڈ سیاسی کارکنوں کے مرہون منت ہوئی۔ تب اس سیاسی کیڈر نے پنجاب کی پولیس اور تھانوں کا چارج اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب کی تاریخ میں امن وامان ، چوری، ڈکیتی، قتل اور دیگر جرائم کے حوالے سے پنجاب پولیس کی تاریخ میں یہ بہترین ایام قرار دئیے گئے۔
اقتدار میں آنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو جس صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا، اس کا پہلا مظاہرہ جنرل گُل حسن کا وہ ٹیلی فون تھا جس پر ذوالفقار علی بھٹو کو انہیں فلمی انداز میں ہٹانا پڑا۔ اُن کی ریٹائرمنٹ اور جنرل ٹکا خان کی بطور آرمی چیف نامزدگی اس ’’اقتداری ڈھانچے‘‘ کی سنسنی خیز کہانی ہے۔ اس ’’اقتداری ڈھانچے‘‘ کے عروج کے دنوں میںاُن کے ایک قریبی ساتھی وزیرخزانہ ڈاکٹر مبشر حسن نے اُن سے تفصیلی ملاقات کی اور انہوں نے باور کروایا کہ ہم نے عوام سے جو وعدے کیے تھے، وہ ہم صحیح طرح سے پورے نہیں کرپا رہے۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ڈاکٹر مبشر حسن کی یہ تاریخی ملاقات نوگھنٹوں پر محیط تھی۔ اس دوران وزیراعظم بھٹو نے اپنے دست راست ڈاکٹر مبشر حسن کو کہا کہ ’’میں جس کشتی کا ملاح ہوں، اس کا کوئی سوار اگر ایک کہنی سے مجھے دھکا دے تو میں پانی میں ڈوب جائوں۔‘‘ اس ’’اقتداری ڈھانچے‘‘ میں مقبول وزیراعظم کی طاقت کے حوالے سے اس سے بڑی اور مثال شاید کوئی نہیں ہوسکتی۔ اس میٹنگ کے دوران ڈاکٹر مبشر حسن نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا ٹیلی فون کھولنا شروع کردیا اور کھول کر ایک پرزہ سامنے رکھ دیا۔ وزیراعظم بھٹو چونک گئے اور کہا کہ ’’اوہ تو میرا ٹیلی فون بھی ٹیپ ہوتا ہے۔‘‘ اسی دوران خاتونِ اوّل نصرت بھٹو دفتر کے اندر داخل ہوئیں اور انہوں نے کہا کہ شاہنواز بھٹو کھیلتے کھیلتے اکثر چیزیں کھولتا ہے۔ یہ تو اس نے ہمارے بیڈروم کا فون کھولا تو اس میں بھی یہ ’’پرزہ‘‘ تھا۔ اور وہ اس سے کھیلتا رہا۔
بھٹو کے ایک دست راست وزیراعلیٰ صوبہ سرحد (خیبرپختونخوا) حیات محمد شیرپائو ایک بم دھماکے میں قتل کردئیے گئے۔ اس قتل کا الزام مرنے کے بعد تک ذوالفقارعلی بھٹو کے سر لگتا رہا۔ یہ راز تو دو سال قبل نیپ کے سابق جلاوطن رہنما جمعہ خان صوفی نے اپنی کتاب ’’فریب ناتمام‘‘ میں کھولا کہ قتل کس نے، کیسے اور کتنی رقم لے کر کیا۔ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں نیپ پر پابندی لگی اور ساری قیادت بشمول حبیب جالب پابند سلاسل ہوگئے۔ بلوچستان میں فوجی آپریشن ہوا۔ سارے حکومتی دور میں اُن کے خلاف فوجی آپریشن پر تنقید کی جاتی رہی۔ 1977ء میں اُن کے خلاف بننے والے نوسیاسی جماعتوں کے اتحاد، جس میں کالعدم جماعت نیپ کی نئی شکل میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی بھی شامل تھی۔ پاکستان قومی اتحاد کی تمام جماعتیں، نیپ کی پابندی کے خلاف تھیں، حیدرآباد ٹربیونل کے خاتمے اور ان تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کررہی تھیں جو نیپ کے خلاف مقدمے میں پابندسلاسل تھے اور بلوچستان میں ملٹری آپریشن بند کرنے کا مطالبہ کرتی تھیں۔ یہ دونوں مطالبے اس وقت کی صحافت کا سب سے بڑا موضوع تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1977ء میں الیکشن کروائے اور پاکستان قومی اتحاد نے ان کے نتائج ماننے سے انکار کردیا۔ تحریک چلی ، گولی چلی، سڑکوں پر بے گناہ لوگ مارے گئے، اور یوں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مزید نفرت بڑھانے میں یہ واقعات مددگار ثابت ہوئے۔ حیدرآباد ٹربیونل کے خاتمے اور بلوچستان میں فوجی آپریشن پر پاکستان قومی اتحاد کی تنقید اپنے عروج پر تھی۔ پھر بھٹو حکومت اور پاکستان قومی اتحاد کے مذاکرات ہوئے۔ سیاسی بحران کا حل نکالنے کے لیے ان مذاکرات میں حیدرآباد ٹربیونل کا خاتمہ اور ان سیاسی قیدیوں کی رہائی اور بلوچستان میں فوجی آپریشن سرفہرست مطالبوں میں شامل تھے۔ جب مذاکرات کامیاب ہونے لگے تو ایک دن ان مذاکرات سے قبل چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیاالحق ’’اپنے رفقائے کار‘‘ کے ہمراہ بلوچستان کے نقشوں اور ملٹری آپریشن کی تفصیل کے ساتھ وزیراعظم بھٹو کو بریف کرنے چلا آیا۔ وزیراعظم کو جنرل ضیا نے پُرزور انداز میں راضی کرنا چاہا کہ بلوچستان میں ملٹری آپریشن کس قدر ناگزیر اور حیدرآباد ٹربیونل کے تحت ’’نیپ کے غداروں‘‘ کو پابندسلاسل رکھنا کس قدر استحکامِ پاکستان کے لیے لازمی ہے۔ چند ہفتے بعد اسی جنرل ضیا نے وزیراعظم بھٹو کا تختہ الٹ دیا۔ بلوچستان میں فوجی آپریشن کو اپنی تقریر میں ظلم اور حیدرآباد ٹربیونل اور نیپ کے سیاسی رہنمائوں کی قید کو بربریت قرار دیتے ہوئے سب کو رِہا اور بلوچستان میں فوجی آپریشن کے خاتمے کا اعلان کردیا۔
یہ ہے وہ ’’اقتداری ڈھانچا‘‘ جس میں جناب عمران خان ’’نئے پاکستان‘‘ کے اعلانات کے ساتھ وزیراعظم بننے جا رہے ہیں۔ عمران خان جو کسی بھی سطح پر حکومت میں کبھی شامل ہونے کا تجربہ نہیں رکھتے اور اس حکومتی ڈھانچے کے سب سے بڑے منصب پر وہ بیٹھیں گے۔ اسی تخت پر جس پر کبھی ذوالفقار علی بھٹو فائز تھے اور پھر سولی پر جھول گئے اور ایک سال قبل نوازشریف جو اب پابندسلاسل ہیں۔
عمران خان نئے پاکستان کے اعلانات کے ساتھ پاکستان کی نوجوان نسل کی امیدوں کا بڑا ستارا بن کر سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے پچھلے سات سال اِس نئے پاکستان کے عظیم الشان خواب پھیلائے ہیں۔ کروڑوں چہرے ان خوابوں کے تحت کروڑوںامیدیں لیے اب اُن کی مسیحائی کے معجزوں کے منتظر ہیں۔ جہاں 40فیصد عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ صحت اور تعلیم کا نظام، درمیانے طبقے سے محنت کش طبقات تک نہ ہونے کے برابر ہے۔ جہاں انہوں نے اپنے اقتدار کے پانچ سالوں میں ایک کروڑ نئی ملازمتیں یا روزگار دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے تحت وفاقی حکومت کے پاس بجٹ کا کُل 48فیصد ہے۔ اس 48فیصد میں سے 20فیصد دفاعِ پاکستان پر صرف ہوتا ہے اور تقریباً 12فیصد وفاقی اداروں پر۔ جس ملک کی بنیاد زاعت ہے اور بنیاد کو قائم ودائم رکھنے والے کسان، کاشت کارا ور دیہی لوگ سب سے زیادہ محروم طبقات ہیں۔ جس ملک کو بیرونی دشمنوں سے زیادہ اندرونی دشمنوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دہشت گردی، لاقانونیت اور سر اٹھاتی علیحدگی پسند تحریکیں۔ وفاق سے نالاں صوبائی اکائیاں۔ موسمی آفات، خشک سالی اور سیلاب جس کے خطرات دنیا کے ماہرین کی نظر میں اس ریاست کے لیے بڑا چیلنج ہیں۔ اور یہ خطرات ایک ناکام منصوبہ بندی کے سوا کچھ نہیں۔ آبادی کا سیلاب ان آفات میں مزید اضافے کا سبب ہے۔ تعلیم سے محروم ہوتا سماج۔ اعلیٰ تعلیم کے نام پر کھلی دکانیں جو نام نہاد پڑھے لکھے لوگوں کا انبار لگا رہی ہیں اور اسی طرح بنیادی تعلیم سے محروم بچے۔
کسی بھی فلاحی ریاست میں تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ اور روزگار کا ذمہ سرفہرست ہوتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو اس نئے پاکستان کے لیے سب کچھ کرنا ہے۔ ہمارے ہاں ایک بات میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ جب کوئی نئی حکومت برسراقتدار آتی ہے تو وہ کہتی ہے کہ ہمیں یہ سب مسائل ورثے میں ملے ہیں۔ لیڈرشپ یا کامیاب لیڈرشپ کا تو کام ہی یہ ہے کہ ورثے میں ملے مسائل کو حل کرے نہ کہ پانچ سالوں بعد اپنی بے بسی کا اظہار کرے۔ ایک نیا پاکستان دیکھنے کے لیے میرے سمیت بیس کروڑ لوگ منتظر ہیں۔ وزیراعظم ہائوس میں نہ رہنا، گورنر ہائوس کو ہوٹل بنا دینا، یہ ثانوی باتیں ہیں، اہم یہ ہے کہ آپ کروڑوں بے گھروں کی رہائش کا اعلان اور منصوبہ بندی کریں۔ کسانوں کو 1973ء کے آئین کے تحت زرعی اصلاحات کرکرے مالکانہ حقوق سے نوازیں، مزدوروں کو سونے کے برابر اجرت اور ان کے دیگر حقوق کی دستیابی فراہم کریں۔ نوجوانوں کو روزگار اور تعلیم کے لیے ریاستی چھتری تلے لے آئیں۔ ملکی پیداوار، صنعت کو فروغ دیں۔ جہالت کے شکار ملک کو خواندہ سماج میں بدل دیں۔ پاکستان کے محروم طبقات کے تمام خواب آئندہ وزیراعظم عمران خان سے وابستہ ہیں۔ ایک نئے پاکستان کا خواب، جو آپ نے رات دن دکھلایا، اب کوئی عذر نہیں چلے گا۔ عمران خان نے نوجوانوں کو جن خوابوں سے آشنا کرایا، اب اُن کی تکمیل کے لیے آغاز کے وہ منتظر ہیں۔ اگر یہ خواب اب بکھر گئے تو۔۔۔
“