وزیراعظم عمران خان کا پہلا خطاب اور اُمید کا سُورج
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نئے وزیراعظم کی تقریر سن کر جس قسم کی کیفیت ِ احساس نے دِل پرغلبہ کرلیاہے، اُسے کوئی نام دینا اِس لیے بہت مشکل ہے کیونکہ ایسی کیفیت سے یہ دِل پہلے کبھی واقف ہی نہیں رہا۔ آزادی کا احساس کہاجائے یااُمید ، احساسِ تحفظ کہاجائے یاجہدِللبقا کی کسی انجانی سی جبلت کی تسکین، کوئی بھی کیفیتِ احساس یا قلبی حالت جس کا تجربہ ہمارے داخلی وجود کو ہوتا رہاہے اِس نئی کیفیت کی ترجمانی نہیں کرسکتی ۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم گزشتہ چالیس سال سے جو ڈراؤنا خواب دیکھ رہے تھے وہ اچانک ٹوٹتاہوا محسوس ہونے لگاہے۔ہم جیسے کسی گہرے تاریک کنویں سے سرنکالے حیرت سے باہرکی دنیا کو دیکھ رہے ہیں جسے ہم چارعشرے قبل بھلاچکےتھے۔
عمران خان جب نئے نئے سیاست میں آئے تو کرکٹ کھیلنے والے چھوٹے چھوٹے بچے اُن کے جلسوں میں بہت بڑی تعداد میں آیا کرتے تھے۔ تب مخالفین ہنستے اور کہتے اتنے بڑے بڑے جلسوں کا کیا فائدہ جب حاضرین میں سے کسی کا ووٹ ہی نہیں بناہوا۔اس وقت مخالفین کو یہ اندازہ نہ ہوسکا کہ اگر عمران خان مستقل مزاجی سے اپنے مِشن پر چلتے رہے تو انہی بچوں کا ایک دن ووٹ بن جائےگا اور یہی بڑے بڑے جلسےبیلٹ باکسز کی گنتیوں میں تبدیل ہوجائیں گے۔ مُلک میں اور کوئی اس حقیقت سے باخبرہویانہ ہو، عمران خود اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ انہیں ووٹ دینے والوں میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ایک انقلاب کو ووٹ دیا ہے۔انقلاب، جو حکومت سے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو بے دخل کردینے کا انقلاب تھا۔
عمران خان کے پہلے خطاب نے پوری قوم کو ایک مضبوط اُمید کے ساتھ منسلک کردیاہے۔اُن کا انداز، بچے بچے کو احساسِ تحفظ دیتاہوا انداز، جیسے ڈراؤنی تاریک اور طوفانی رات میں باپ کے گھر آجانے سے ڈرے، سہمے بچوں کا احساس ِ قلبی ہوتاہے۔ وہ جیسے سینے پر ہاتھ مارکرکوئی کہے، آپ فکر نہ کریں، میں ہوں نا! کچھ ویسا ہی تسلی دیتاہوا احساس تھا وہ جو قائدِ قوم کی پہلی تقریر سے پیداہوا۔انہوں نے سوائے قران کے کسی مہابیانیے کو کوٹ نہیں کیا۔ مدینے کی ریاست کی مثال بار بار دی اور اُسے فلاحی ریاست کہہ کر پکارا۔ انہوں نے اقبال کو گزشتہ پانچ سوسالوں میں مسلمانوں میں پیدا ہونے والا سب سے بڑا دماغ کہا اوررسولِ اطہرصلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے بعدحضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے عہدکواسلامی، فلاحی ریاست کی عمدہ مثالیں قرار دیا۔
شروع دن سے عمران خان میں جس شئے کی مجھے کمی نظر آتی تھی، وہ تھی نظریاتی تربیت۔میں سوچتاتھا کہ عمران اگر بڑا لیڈربن بھی جائے تو اس کے پاس عوام کو دینے کے لیے کیا ہوگا؟ میں جو مختلف نعروں کی گونج میں بڑا ہوا اور ’’جونظریاتی نہیں وہ سیاستدان نہیں‘‘ کے عقیدے کے ساتھ تمام عمر وابستہ رہا، عمران کے علم، حکمت اوربصیرت کو قائدِ قوم کے طورپر ناکافی سمجھتاتھا۔آج میں عمران خان کے پہلے خطاب کے بعد اپنے آپ میں بہت کچھ بدلا ہوا دیکھتاہوں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ عمران کے پاس کوئی مستقل نظریہ تھا جس کی مجھے خبر نہ تھی یا کوئی نظریہ اب اُن کے پاس آگیا ہے جس سے میں خود کو متفق پاتاہوں۔ نہیں بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ کوئی معروف نعرہ، کوئی معروف نظریہ، کوئی معروف فکراتنی ضروری ہی نہ تھی جتنی میں سمجھ رہا تھا۔ضروری تھا تو فقط ایک عدد ایسا لیڈر جس کے پاس لوگوں کو دینے کے لیے سچی اور سُتھری اُمید ہو۔عمران نے جتنی بار سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ ’’آپ گھبرائیں نہیں، ہم ان مسائل کا حل کریں گے‘‘ یا ’’ میری تربیت مقابلہ کرنے والے انسان کے طورپر ہوئی ہے میں مقابلہ کرونگا‘‘، اُتنی ہی بار میں نےمحسوس کیا اُن کے ایسا کہنے سے میرے اندرکے کچھ خوف کم ہورہے ہیں، میرے اندرکوئی طاقت سی پیدا ہورہی ہے۔ تب میں نے سوچا کہ ابھی تو عملی طور پر عمران نے کچھ کیا ہی نہیں، پھر ایسا کیوں ہے کہ میں خود میں طاقت پیدا ہوتی ہوئی محسوس کررہاہوں؟ یقیناً وہ ’’اُمید‘‘ جو عمران خان اپنے خطاب کے دوران ہمیں تھما رہےتھے وہی میرا سیروں خون بڑھاتی جارہی تھی۔
عمران خان کے وزیراعظم بننے پر پوری قوم بے پناہ خوش ہے۔عمران کے خان ابتدائی اقدامات نے پوری قوم کو جذباتی کردیاہے۔اگرعمران خان اپنی اِسی کھلاڑیوں والی سپرٹ کے ساتھ بغیر کسی سرخ ، سبزیاسفیدنظریے کا جھنڈا اُٹھائے، یونہی تندہی سے لگے رہے تو مجھے یقین ہے کہ ہم پاکستانی دنیا میں پھرایک بار عزت دار اورغیرت مند قوم کے طورپر پہچانے جائیں گے۔ نوازشریف کے گزشتہ ادوار میں ایک بار، کسی امریکی سینیٹر نے کہاتھا، ’’پاکستانی تو وہ قوم ہیں جو پانچ ڈالر کے عوض اپنی ماں بھی بیچ دیں‘‘۔ تب سے دل مُردہ اورماتھا داغدارسا ہوگیاتھا۔ عمران نے اپنے خطاب میں جس کھوئی ہوئی عزت اور غیرت کی یاد دلائی وہ اِس قوم کو ایک بہادر اور پُریقین کپتان ہی واپس دلا سکتا تھا۔آج سوچتاہوں امریکی سینیٹر نے ماں بیچ دینے کی بات کی تو ان دنوں ہمارا حکمران ایک تاجراورکاروباری آدمی تھا۔ غالباً حضرت عمرؓ کا قول ہے کہ ’’اگرتم نے کسی تاجر کو اپنا حکمران بنالیا تو وہ ایک دن تمہیں بھی بیچ دےگا‘‘(وللہ اعلم)
اللہ تعالیٰ عمران خان کو اِسی طرح مستقل مزاج اورپرعزم رکھے اور ہم سب کو ان کے شانہ بشانہ اس ملک کاکھویا ہوا وقار واپس لانے اور اس کی حالت سِدھارنے کی توفیق دے۔ آمین
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔