آج – ٧؍ ستمبر ٢٠١٠
پاکستان کے ممتاز ترین نقادوں میں معروف اور ممتاز شاعر” ڈاکٹر وزیر آغاؔ صاحب “ کا یومِ وفات…
نام وزیر آغا ،ڈاکٹر۔ ۱۸؍ مئی ۱۹۲۲ء کو وزیر کوٹ، ضلع سرگودھا میں پید اہوئے۔۱۹۴۳ء میں ایم اے (اقتصادیات) کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۵۶ء میں ’’اردو ادب میں طنزومزاح ‘‘ کے موضوع پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔۱۹۶۶ء میں اپنا ادبی مجلہ ’’اوراق‘‘ کے نام سے نکالا جو اب تک شائع ہورہا ہے۔ وزیر آغا نے شاعری، تنقید اور انشائیہ بہت کچھ لکھا ہے۔ نظم ونثر کی اب تک بیس سے زیادہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ چند نام یہ ہیں: ’’مسرت کی تلاش‘‘، ’’نظم جدید کی کروٹیں‘‘، ’’شام اور سائے‘‘، ’’دن کا زرد پہاڑ‘‘، ’’اردو شاعری کا مزاج‘‘، ’’عبدالرحمن چغتائی کی شخصیت اور فن‘‘، ’’چمک اٹھی لفظوں کی چھاگل‘‘، ’’غزلیں‘(شعری مجموعہ)۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:134
ڈاکٹر وزیر آغا، ٧ ستمبر ٢٠١٠ء کو انتقال کر گئے ۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✧◉➻══════════════➻◉✧
معروف شاعر ڈاکٹر وزیر آغا کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
عجب طرح سے گزاری ہے زندگی ہم نے
جہاں میں رہ کے نہ کار جہاں کو پہچانا
—
وہ خوش کلام ہے ایسا کہ اس کے پاس ہمیں
طویل رہنا بھی لگتا ہے مختصر رہنا
—
چلو اپنی بھی جانب اب چلیں ہم
یہ رستہ دیر سے سونا پڑا ہے
—
کھلی کتاب تھی پھولوں بھری زمیں میری
کتاب میری تھی رنگِ کتاب اس کا تھا
—
دھوپ کے ساتھ گیا ساتھ نبھانے والا
اب کہاں آئے گا وہ لوٹ کے آنے والا
—
اتنا نہ پاس آ کہ تجھے ڈھونڈتے پھریں
اتنا نہ دور جا کے ہمہ وقت پاس ہو
—
آہستہ بات کر کہ ہوا تیز ہے بہت
ایسا نہ ہو کہ سارا نگر بولنے لگے
—
ریت پر چھوڑ گیا نقش ہزاروں اپنے
کسی پاگل کی طرح نقش مٹانے والا
—
کہنے کو چند گام تھا یہ عرصۂ حیات
لیکن تمام عمر ہی چلنا پڑا تجھے
—
منظر تھا راکھ اور طبیعت اداس تھی
ہر چند تیری یاد مرے آس پاس تھی
—
یہ کس حساب سے کی تو نے روشنی تقسیم
ستارے مجھ کو ملے ماہتاب اس کا تھا
—
اس کی آواز میں تھے سارے خد و خال اس کے
وہ چہکتا تھا تو ہنستے تھے پر و بال اس کے
—
سفر طویل سہی حاصل سفر یہ ہے
وہاں کو بھول گئے اور یہاں کو پہچانا
—
کرنا پڑے گا اپنے ہی سائے میں اب قیام
چاروں طرف ہے دھوپ کا صحرا بچھا ہوا
—
جبینِ سنگ پہ لکھا مرا فسانہ گیا
میں رہ گزر تھا مجھے روند کر زمانہ گیا
—
یہ کیسی آنکھ تھی جو رو پڑی ہے
یہ کیسا خواب تھا جو بجھ گیا ہے
—
یا ابر کرم بن کے برس خشک زمیں پر
یا پیاس کے صحرا میں مجھے جینا سکھا دے
—
لازم کہاں کہ سارا جہاں خوش لباس ہو
میلا بدن پہن کے نہ اتنا اداس ہو
—
کیسے کہوں کہ میں نے کہاں کا سفر کیا
آکاش بے چراغ زمیں بے لباس تھی
—
وہ اپنی عمر کو پہلے پرو لیتا ہے ڈوری میں
پھر اس کے بعد گنتی عمر کی دن رات کرتا ہے
—
تھی نیند میری مگر اس میں خواب اس کا تھا
بدن مرا تھا بدن میں عذاب اس کا تھا
—
ایسے بڑھے کہ منزلیں رستے میں بچھ گئیں
ایسے گئے کہ پھر نہ کبھی لوٹنا ہوا
—
خود اپنے غم ہی سے کی پہلے دوستی ہم نے
اور اس کے بعد غم دوستاں کو پہچانا
—
یا رب تری رحمت کا طلب گار ہے یہ بھی
تھوڑی سی مرے شہر کو بھی آب و ہوا دے
—
پہنا دے چاندنی کو قبا اپنے جسم کی
اس کا بدن بھی تیری طرح بے لباس ہو
—
اب تو آرام کریں سوچتی آنکھیں میری
رات کا آخری تارا بھی ہے جانے والا
—
کس کی خوشبو نے بھر دیا تھا اسے
اس کے اندر کوئی خلا نہ رہا
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
ڈاکٹر وزیر آغاؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ