درویش صفت، محب وطن، اسلامی ثقافت کے علمبردار، پنجاب دھرتی کے بطل جلیل، نکتہ سنج دانشور ، پنجابی زبان کے حقوق کی جنگ لڑنے والے مجاہد ، سماجی رہنما اور مجسمہ شرافت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر محمد ادریس رانا __ وطن عزیز کے ایک نابغہ روزگار دانشور اور ملک گیر شہرت کے حامل موٹیویشنل سپیکر ہیں ۔۔۔ان کی خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے ۔۔۔آپ نے پاکستان کے بہت سے معتبر اداروں کے اعلی افسران جنہوں نے وطن عزیز کی بھاگ دوڑ سنبھالنی ہوتی ہے۔ان افسران اور ان کے ماتحت عملہ کو ٹریننگ دے کر قابل فخر منتظمین میں شامل کیا ہے ۔۔۔۔۔ڈاکٹر ادریس رانا کا ابتدائی تعلق پنجاب کے ضلع نارووال سے ہے۔ آپ ضلع نارووال تحصیل ظفروال کے ایک چھوٹے سے گاؤں جاگل میں نمبردار رانا محمّد بابو خاں کے گھر 6/ جون 1964ء کو پیدا ہوۓ۔اپنے گاؤں سے ایک کلو میٹر کی مسافت پر گورنمنٹ ہائی سکول جبال سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔بعد ازاں انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن کے امتحانات مختلف کالجوں سے پاس کیے۔ایم ایس سی کیمسٹری کا امتحان پنجاب یونیورسٹی لاہور سے پاس کیا۔۔بعد ازاں یو کے (UK) کے سکالرشپ پر کیمسٹری میں پی ایچ-ڈی کی ڈگری حاصل کی۔۔ پی ایچ ڈی میں آپ کی تحقیق کا موضوع ” Water Pollution and water born diseases”( پانی کی آلودگی اور اس سے پیدا ہونے والی بیماریاں) تھا۔۔پچھلے 33 سال سے آپ اسی شعبہ میں بطور ٹیکنیکل کنسلٹنٹ موٹیویشنل سپیکر کے طور پر یو- این-او فنڈڈ پروگرام کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔۔
رانا صاحب کا بنیادی تعلق ایک چھوٹے سے کاشت کار گھرانے سے ہے ۔ان کے والد کاشتکاری کرتے تھے اور رانا محمد ادریس اپنی ابتدائی کلاسوں سے میٹرک تک پڑھائی اور کاشتکاری کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے مویشی بھی چرایا کرتے تھے ۔۔اور وہ یہ بات اپنے اکثر لیکچرز میں بڑے فخر سے کہا کرتے ہیں کہ میں دسویں تک اپنے گاؤں میں اپنے مویشی چرایا کرتا تھا۔ان کے گاؤں میں تعلیم کا کوئی رواج اور انتظام نہیں تھا ۔ آپ سارے بھائی ایک ہی وقت میں اکٹھے لاہور کے مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھا کرتے تھے۔وہ گاؤں جس میں آج بھی پڑھا لکھا شخص ملنا محال ہے۔ اس گاؤں میں ان سب بھائیوں نے سولہ سولہ جماعت تک تعلیم حاصل کی بلکہ دو بھائیوں نے تو پی ایچ ڈی تک تعلیم حاصل کی۔ آپ کا ایک بھائی ڈاکٹر محمد یونس رانا نارووال یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہے جبکہ بڑے بھائی رانا محمد ایوب خاں سینیئر ایڈووکیٹ ہیں۔ ان کے ایک بھائی رانا مقصود احمد بطور ڈائریکٹر سپورٹس نارووال یونیورسٹی میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔ان کا کوئی بھائی بھی ماسٹرز ڈگری سے نیچے نہیں ہے۔
پنجابی زبان و ادب سے محبت آپ کی منفرد پہچان ہے۔۔پنجابی زبان کے حقوق کے لیے آپ کا کردار قابل ستائش ہے ۔۔۔۔۔وطن عزیز کو اپنے اس ہونہار فرزند پر بہت فخر ہے
بطور موٹیویشنل اسپیکر اپنے لیکچرز کے دوران ڈاکٹر محمّد ادریس رانا نے نئے خیالات، نئے موضوعات ، نئے زاویے اور نئی تکنیک کی حوصلہ افزائی کو نصب العین بنایا۔وہ ایسے حساس، زیرک ، فعال اور مستعد موٹیویشنل اسپیکر ہیں جن کی فہم و فراست اور فکر و تدبرجہاں قومی تشخص اور حب الوطنی کا مظہر ہے وہاں اس کے معجز نما اثرات سے سامعین کے دلوں میں تعمیر وطن کا ایک ولولۂ تازہ پیدا ہوتا ہے۔ ان کی گُل افشانیٔ گفتار اس دل کش انداز میں جلوہ گر ہوتی ہے کہ ان کی حق گوئی اور بے باکی سامع کو مسحور کر دیتی ہے۔۔آپ نے محکمہ پولیس کے افسران کے ایڈوانس کورسز میں ٹریننگ دینے کے علاوہ مختلف محکموں میں ماحول کے حوالے سے “ماحول کی انسانی رویوں پر اثرات”
Environment on human behaviour”.
کے ساتھ ساتھ پبلک ہیلتھ اور behavior chain and communication impact
جیسے موضوعات پر پر مغز لیکچرز دیتے ہیں۔۔۔۔
ڈاکٹر ادریس رانا بہت سادہ طبعیت ،باوقار لباس، درویش صفت، محب وطن، اسلامی ثقافت کے علمبردار، پنجاب دھرتی کے بطل جلیل، نکتہ سنج دانشور ، پنجابی زبان کے حقوق کی جنگ لڑنے والے مجاہد، مشفق و ہمدرد سماجی رہنما ، مجسمہ شرافت، غرض رانا صاحب کی زندگی کے بے شمار حسین پہلو اہل نظرسے داد وصول کرتے رہتے ہیں ۔ان کا دھیما مزاج ان کی شیریں گفتاری سے ہم آہنگ ہوتا ہے ۔۔۔ بات کرتے ہیں تو لفظوں سے پھول جھڑتے ہیں ۔۔۔
ہنس مکھ چہرہ، سادہ مزاج، تواضع و انکساری کے پیکر جس کی گواہی ہر وہ انسان بلا جھجک دے گا، جن کی ان سے ایک دفعہ بھی ملاقات ہوئی ہے، آپ کے اخلاق حسنہ دیکھ کر ہمیں اپنے اخلاق پر شرمندگی کا احساس ہوتا ہے، جس مجلس میں ہوتے ہیں اس میں بوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ملنے والے کو اپنا بنانے کا فن کوئی رانا صاحب سے سیکھے؟۔اپنی خوبصورت عادات و ملنساری کی وجہ سے دوستوں اور سماجی حلقوں میں ہردلعزیز ہیں ۔۔۔جو ان سے ایک بار مل لیتا ہے’ وہ پھر بار بار ان سے ملنے کا متمنی رہتا ہے ۔پنجابی زبان کے عالمی سفیر الیاس گھمن اور پنجابی نیوز پیپرز یونین کے صدر اور روزنامہ ” بھلیکها” لاہور کے بانی مدثر اقبال بٹ ، ماہرین تعلیم بشیر احمد گورایہ اور رانا عطاء اللّه خاں ان کے حلقہ دوستاں میں شامل ہیں ۔
ڈاکٹر ادریس رانا کو اس بات کا قلق رہتا ہے کہ ہمارا معاشرہ احساسِ زیاں سےان کے حلقہ دوستاں میں شامل ہیں محروم ہوتا چلا جا رہا ہے ۔مسلسل شکستِ دِل کے باعث افراد بے حسی کا شکار ہو گئے ہیں۔ جس معاشرے میں جاہل اپنی جہالت کا انعام حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں وہاں وقت کے ایسے سانحات کو کس نام سے تعبیرکیا جائے۔ موجودہ دور میں مادی دور کی لعنتوں نے زندگی کی اقدارِ عالیہ اور درخشاں روایات کو شدید ضعف پہنچایا ہے ۔ ڈاکٹر ادریس رانا جیسے درد دل دانشور کو ان باتوں کا شدید احساس رہتا ہے اور یہی پیغام ہے جو وہ مختلف محکموں میں دی جانے والی ٹریننگ میں دیتے رہتے ہیں۔ پنجابی زبان و ادب کے اس زیرک ،فعال ،مستعد اور بے لوث خدمت گار نے بڑے زوروں سے اپنے آپ کو منوایا ہے ۔وہ ایک وسیع المطالعہ دانشور ہیں ۔پاکستان کی بہت سی زبانوں پر انھیں خلاقانہ دسترس حاصل ہے ۔ دنیا کے کلاسیکی ادب کا انھوں نے عمیق مطالعہ کیا ہے۔عالمی کلاسیک میں انھوں نے ہمیشہ گہری دلچسپی لی ہے۔ وطن کی محبت ان کے ریشے ریشے میں سما چکی ہے ۔وطن کی محبت سے ان کے مشام جاں معطر رہتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ حب وطن
بلاشبہ ملک سلیمان ؑسے کہیں زیادہ سکون بخش اور وطن کے کانٹے تو سنبل و ریحان سے بھی زیادہ پرکیف ہوتے ہیں ۔ان کی حب الوطنی ،علم دوستی ،ادب پروری ،خلوص ،دردمندی ، انسانی ہمدردی اور انسانیت نوازی ان کا سب سے بڑا اعزاز وامتیاز ہے ۔ انھوں نے وطن اور اہل وطن کے ساتھ اپنی والہانہ محبت اور قلبی وابستگی کو برقرار رکھا ہے ۔ وہ حریت فکر کے ایسے مجاہد ہیں جنھوں نے ارضی اور ثقافتی حوالے سے وطن اور اہل وطن کی خدمت کو اپنا شعار بنا رکھا ہے ۔اپنے وطن اور اہل وطن کے سا تھ انھوں نےجو عہد وفا استوار کر رکھا ہے اسے وہ علاج گردش لیل ونہار قرار دیتے ہیں ۔وہ حریت فکر کے عظیم مجاہد ہیں ۔انھوں نے ہمیشہ جذبوں کی صداقت کا بھرم بر قرار رکھا ہے ۔انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے ان کی خدمات کو پوری دنیا میں سراہا گیا ہے ۔ڈاکٹر ادریس رانا صاحب ایک وسیع المطالعہ دانش ور ہیں ۔وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور دائرۃ المعارف کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جنہوں نے پاکستان کے بے شمار محکموں کے افسران کے ذوق سلیم کو نکھارا ۔ان کے تبحر علمی کا ایک عالم معترف ہے ۔
علوم کا کوئی گوشہ ایسا نہ ہے’ جو ان سے مخفی ہو ۔جو بھی موضوع ہوتا ہے وہ اس پر پورے اعتماد سے گفتگو کرتے ہیں۔ ان سے جو بھی سوال پوچھا جاتا ہے وہ اس کا فی الفور جواب دینے کی صلاحیت سے متمتع ہیں انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے انھوں نے زندگی بھر جدوجہد کی ہے ۔پاکستانی تہذیب و ثقافت کی بقا اور فروغ میں انھوں نے ہمیشہ گہری دلچسپی لی ہے۔ان کاخیال ہے کہ پاکستانی قوم کو اللہ کریم نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے ۔اگر ان کی طرز زندگی پر تحقیق کی جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انتہائی کٹھن حالات میں بھی اس قوم نے اپنی تہذیبی اور ثقافتی اقدار و روایات کی پاسداری کی ہے۔ان کے خیالات میں جو تونگری ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔۔ان کے احباب ان کی فکر پرور اور بصیرت افروز رائے کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور دبستان علم و ادب ہیں ۔ان کا حلقہء احباب بہت وسیع ہے ۔خاص طور پر ذرائع ابلاغ سے وابستہ مشاہیر کے ساتھ ان کے قریبی مراسم ان کے لیے راحت اور سکون قلب کا وسیلہ ہیں۔۔۔راقم اظہار احمد گلزار کے ساتھ چھوٹے بھائیوں کی طرح شفقت کرتے ہیں ۔۔ایسے سراپا اخلاص و مروت انسان کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہیں ۔۔اللّه پاک ان کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور ان کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر سلامت رکھے۔
وطن عزیز کے اس نابغہ روزگار فرزند کو جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے ۔۔۔ ڈاکٹر ادریس رانا صاحب ! اللہ پاک آپ کو درازی عمر سے نوازے اور ہر طرح کی آفات و بلیات سے محفوظ رکھے ۔۔آمین ثم آمین 💗💗
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...