وت کے بیج
یہ ایک ڈاکومینٹری (Seed Of Death (کا اردو میں ترجمہ ہے جو اپ کو ہرا آرگنک پاکستان مومنٹ کی جانب سے پیش کیا جا رہا ہے ۔
اب وقت آن پہنچا ہے کہ ہم
لوگوں کی بہت بڑی تعداد اب یہ دل سے چاہتی ہے کہ وہ ایسی فصل اگائیں یا اپنے مویشیوں کی اس طرح سے افزئش بالکل قدرتی طریقوں پر کریں کہ جس میں ماحولیات کی تباہی نہ ہو، لوگوں کی صحت داؤ پر نا ہو اور موسم پر اثرات مرتب نہ ہوں۔اس نقطہ پر پہنچنے کے لیے میں تو یہ کہوں گا کہ ہماری خوراک ہماری ذندگیاں بچانے کے لیے لڑنے پر آمادہ ہو جائیں۔
جی ۔ایم۔او ایک ایسا عمل ہے کہ جس کے تحت سائنسدان کسی ایک جنس کا ڈی۔این۔اے اٹھا کے کسی دوسری جنس میں گھسا دیتے ہیں۔ ہر وہ انفرادی تحقیق جو جی۔ایم۔او سے پیدا شدہ خوراک کے اثرات پر ہوئی ہے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس سے انسانی اعضاء کو خاطر خواہ نقصان پہنچ رہا ہے، مردوں اور عورتوں میں بانجھ پن بڑھ رہا ہے اور ہمارے قدرتی مدافعتی نظام کمزور پڑ رہا ہے۔ اس سے ہمارے معدے کی نالی میں سوراخ بن رہے ہیں اور مختلف اعضائی نظام میں بتدریج گراوہٹ آ رہی ہے۔
جی۔ایم۔او کا نقطہ نظر یہ کہ اس زمین پر ہر ذندہ شئے کو اپنے پنجوں میں دبوچ لیا جائے۔
ذرا سوچیں کہ اگر ہم ایک طے شدہ رقبے پر پہلے سے ذیادہ مقدار میں فصل اگائیں، بارش کا پانی ذیادہ سے ذیادہ نچوڑیں مگر قدرتی وسائل کا خیال نہ رکھیں تو کیا بنے گا؟
مون سینٹو وہ کمپنی ہے جس نے پہلے ہمیں یہ باور کروایا کہ پی۔سی۔بی محفوظ ہے، اسی نے پھر ہمیں یقین دلایا کہ ایجنٹ آرنج بھی محفوظ ہے پھر کہا کہ ڈی۔ڈی۔ٹی مضر صحت نہیں اور اب یہی کمپنی جو جی۔ایم۔او فوڈ کی انچارج ہے باور کروانے کی کوشش کر رہی ہے کہ ان کا بنایا ہوا جی۔ایم ۔او فوڈ بھی محفوظ ہے۔
امریکہ میں اگر 170 ملین ایکٹر رقبہ پر جی۔ایم۔او کنولا، کپاس، سویا بین کی پیداوار کی جارہی ہے تو اس کی وجہ صرف یہ کہ اس پر کسی قسم کے لیبل کی ضرورت نہیں ہوتی اور وہ بغیر کسی لیبل کے ہوتا ہے۔
جی۔ایم۔او (پیوندکار) کی گئی مچھلی بہت جلد ہی انسانوں کی خوراک کے لیے دستیاب ہو گی۔ دیکھیے یہ دونوں مچھلیاں 18ماہ عمروں کی ہیں مگر ان میں سے ایک جی ۔ایم ۔او یعنی توالدی انجینیرڈ ایکوا ایڈوانٹج سولمن فش دوسرے کے مقابلے میں دوگنا بڑی ہے۔ طرہ یہ ہے کہ ان جی۔ایم۔او یا پیوندکار مچھلیوں کے اثرات کی تحقیق کسی انسانی، حیوانی یا پھر آبی حیات پر سرے سے کی ہی نہیں گئی۔
دراصل انھوں نے زراعت کو اٹھا کے صنعتی ماڈل کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی ہے جو کسی بھی صورت میں قدرت سے ہم آہنگ نہیں۔ تو بجائے یہ کہ موجودہ زرعی نظام یا ماڈل کو بدل کر قدرت سے ہم آہنگ کیا جاتا یہ کمپنیاں قدرت کو زرعی نظام یا ماڈل سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
آپ اس امر سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر آپ ایک آرگنیک فصل کو کسی دوسری پیوندکار کی گئی فصل کے ساتھ بیک وقت اگائیں اور ایسا ہو کہ تیز ہوا سے ایک دوسرے کے ذرات اڑ کر مکس ہو جائیں تو آپ کی فصل زہر آلودہ ہو جائے گی۔
اس GMO کے انقلاب پر صرف اور صرف ایک ہی کمپنی کی اجارہ داری ہے۔ اس کا نام مون سینٹو ہے۔
GMOایک جان لیوا رسک ہے جسے اپنانے میں تباہی ہی تباہی ہے۔
کسی بھی دل رکھنے ولاے سائینسدان سے اگر پوچھیں گے تو وہ یہ کہے گا GMOفوڈ کسی بھی لحاظ سے بھی محفوظ نہیں اور اسے مارکیٹ میں لانے سے پہلے کم ازکم ایک دہائی ان پر پہلے ریسرچ پر لگانی پڑے گی۔
مون سینٹو با آوازِ دہل کہتا آیا کہ پی۔سی۔بی محفوظ ہے مگر پی۔سی۔بی بنانے والی فیکٹری کی ملحقہ آبادی اس سے زہر آلود ہو گئی تھی۔ مون سینٹو اس کی مجرم ہے اور اس ضمن میں ان کو اب تک 700ملین ڈالر جرمانہ ادا کرنا پڑا ہے۔
مون سینٹو وہ کمپنی ہے جس نے پہلے ہمیں یہ باور کروایا کہ پی۔سی۔بی محفوظ ہے، اسی نے پھر ہمیں یقین دلایا کہ ایجنٹ آرنج بھی محفوظ ہے پھر کہا کہ ڈی۔ڈی۔ٹی مضر صحت نہیں اور اب یہی کمپنی جو جی۔ایم۔او فوڈ کی انچارج ہے باور کروانے کی کوشش کر رہی ہے کہ ان کا بنایا ہوا جی۔ایم ۔او فوڈ بھی محفوظ ہے۔اس دلیری کی وجہ محض یہ کہ ایف۔ ڈی۔اے کو کسی بھی حفاظتی پالیسی کی ضرورت نہیں۔ انھوں نے سب کچھ از خود مون سینٹو پر چھوڑ رکھا ہے۔
مون سینٹو اور بہت سی ایسی اور خوراک بنانے والی کمپنیاں صرف پیسہ بنا رہی ہیں، ان کے ذمہ داران نمائندے یہ کہتے ہیں ان کا کام صرف سرمایہ دار کے لیے پیسہ بنانا ہے۔ لوگوں کی صحت بہتر بنانا یا ان کا خیال رکھنا ان کی فہرست میں نہیں۔ وہ صرف پیسہ بٹور رہی ہیں۔جب وہ پیسہ کمانے میں اندھا دھند لگی ہیں تو ایسے میں وہ صحت کے عنصر کو نظر انداز کر کے پراڈکٹ بناتی جا رہی ہیں۔ ان کا یہ بھونڈا نظریہ انسانوں کی جان کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔
ایف۔ ڈی ۔اے کیوں انسانی صحتوں کے درپئے ہیں اور حفاظتی تدابیر کو خاطر میں نہیں لا رہی؟ اس کی ایک وجہ یہ کہ وائٹ ہاوس نے صدر بش کے دور میں ایف ڈی اے کو پابند کر رکھا ہے کہ وہ جی ایم او ٹیکنالوجی کو تقویت دیں۔اسی ضمن میں مون سینٹو کے سابقہ اٹارنی مسٹر مائیکل ٹیلر کو ایف ۔ڈی۔اے میں اس وقت انچارج تھے جب GMOکی پالیسی مرتب کی جارہی تھی۔اور بعد میں وہ مون سینٹو کے وائس چیرمین تعینات ہو گئے اور پھر صدر اوباما کے دور میں ان کو پھر سے FDAمیں فوڈ اور سیفٹی زون کا انچارج لگا دیا گیا۔
یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ کو ایف ڈی اے میں بہت سے سائنسدانوں کی تعدار یہ خیال رکھتی ہے کہ GMOبیج سے وہ کئی اقسام کی بیماریوں کو جن میں الرجی، دمہ، غذائی کمی جیسی اور بیماریاں لوگوں کے جسموں میں اتار رہے ہیں تو ان کے اعتراضات پر مون سینٹو سیخ پا دکھائی دی اور ان اعتراضات کو زبردستی دور کروانے کے لیے مون سینٹو نے ایف ڈی اے میں اپنے سیاسی بھرتی کیے گئے لوگوں کی مدد سے یہ کام انجام دیا اور مائیکل ٹیلر اور دیگر سیاسی بھرتی والوں نے ان سائنسدانوں کی کسی بات پر بھی کان نہ دھرا بلکہ ایسی کسی بھی مضر اثر ات کے وجود سے انکار کرتے ہوئے جی ایم او فوڈ کو مارکیٹ میں پہنچانے کے لیے پالیسی مرتب کی۔
ایف ڈی اے میں بہت قابل لوگ ہیں مگر ان کی قابلیت صرف ایسے عوامل کو ہی ظاہر کرتی ہے جن سے ان کے معاشی فوائد ظاہر ہوتے ہوں یا ان کو کسی قسم کا نصابی فائدہ ہو نا کہ اس میں کسی سائنسی حقیقت کو مدِ نظر رکھا مقصود ہو۔
جی ایم او فوڈ کو اس نظریہ سے بنایا جاتا ہے کہ اس سے کمپنی کو ذیادہ سے ذیادہ فائدہ ہو۔اس لحاظ سے کمپنی ہر اس اقدام کی نفی کرتی ہے جو ان بیجوں کے مضر اثرات کو اجاگر کرے۔ یہاں تک کہ مون سینٹو حکومتی اقدار میں اپنے بٹھائے ہوئے لوگوں کی مد د سے ان پالسیوں کو اپنے حق میں کروانے میں کامیاب رہی ہیں۔، یہ سلسہ کلنٹن سے لے کر اوباما تک جاری ہے۔ بہت سے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ مون سینٹو کو بنے ایک صدی سے اوپر کا عرصہ ہو گیا ہے اور ان کا اثر و رسوخ بہت ذیادہ ہے۔ یہ چالاک لوگ ہیں۔ ان اپنے دوستوں ، دشمنوں کا خوب پتہ ہے۔ ان کو علم ہے کہ لابی بنا کر کس طرح کام کرنا ہے، رشوت ستانی کیسے کرنی ہے اسی لیے کوئی بھی قانوں یا آرڈر ان کے خلاف آج تک نہیں بن سکا۔ ان کے ریگولیٹری اتھارٹی میں تانے بانے ہیں، لہذا کچھ بھی ان کے خلاف نہیں ہوتا اور ا س کی ایک وجہ یہ کہ یہ لابی کرنے والے لوگ ان کے اپنے ہیں یا ان کے پے رول پر ہیںیا پہلے مون سینٹو سے فارغ التحصیل ہیں۔
آج کی حکومتیں، چاہیں وہ کہیں بھی ہوں ، کارپوریٹ اداروں پر انحصار کرتی ہیں۔یہ کمپنیاں ہم سب کو ترغیب دیتی ہیں کہ ہمیں کیا کھانا ہے، ہمارے بچوں کو کیسی خوراک ملنی چاہیے، ہمیں کپڑے کیسے پہننے ہیں ۔ ہم بھی خدا کی مخلوق ہیں، ہمارے حقوق ہیں۔ یہ حقوق ہمارا آئین ہمیں فراہم کرتا ہے کہ ہم خود اور اپنے بچوں کو جو چاہیں کھلائیں جو بھی قدرت پیدا کرتی ہے۔ ان کمپنیوں کا کہنا ہے کہ نہیں ہمیں اس کا کوئی حق نہیں بلکہ وہ اپنی مرضی ہم پر ٹھوکیں گے۔
ایف ڈی اے ، یو ایس ڈی اے جن کے پاس خوراک کی حفاظتی ذمہ داریوں کا اختیار ہے اور وہ بل پاس کرتی ہیں ان کے پاس عوام کی صحت کو محفوظ رکھنے کو کچھ نہیں بلکہ ان کا کام تو صرف GMOبنانے والی کمپنیوں کو محفوظ بنا نا ہے۔ اور مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اگر ہم نے اس امر کو نہ روکا تو آرگینک طریقوں سے فصل اگانے والے کاشت کار ختم ہو جائیں گے۔ یہ بل اتنے سخت ہیں اور ان کے تحت حفاظتی تدابیر کا اختیار کرنا اس قدر مشکل ہے کہ چھوٹا آرگنیک کسان ان کو پورا نہیں کر سکتا اور مارکیٹ سے آوٹ ہو جائے گا۔
ماجرہ یہ ہے کہ اس وقت ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ بس وہ سپر مارکیٹ پہنچ کر GMOفوڈ خرید لے۔ جانتے ہو ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ پچھلے تیس سالوں سے اربوں، کھربوں روپے لگا کر بھی ان کمپنیوں نے ایک بھی ایسی خوراک پیدا نہیں کی جو غذائیت سے بھر پور ہو۔ نا ان پراڈکٹس میں کوئی ذائقہ ہے، نا ان میں کوئی غذائیت ہے اور نہ ہی ان کے نرخ ہی کم ہیں۔ 85%سے ذیادہ امریکہ میں اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں GMOسے پیدا ہونے والی فصلیں ایسی ہیں جن کو جڑی بوٹیاں تلف کرنے والی ادویات میں ڈبو دیا گیا ہے۔ اور کون سی کمپنیاں ہیں جو اس کی مجرم ہیں۔ جی ہاں، ان میں مون سینٹو، بائیر، سنجینٹا ، دوپانڈاور دیگر ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ سب کمپنیاں اصل میں کیمیکل بناتی ہیں۔
ذرا ملاحظہ کریں، بیج جو کبھی انڈیا میں مفت ملا کرتا تھا کیونکہ بیج تو کسان کا اپنا ہوتا تھا، اور پھر یہ کہ پبلک سیکٹر یا یونیورسٹیوں سے ان کی آسان دستیابی تھی مگر پیوند کار بیجوں کے آنے سے سب کچھ ناپید ہو گیا ہے کیونکہ اس پر صرف ایک ہی کمپنی کا قبضہ ہے ، اور ان کی ہی ملکیت ہے اور وہ کمپنی ہے مون سینٹو۔
جی ۔ایم۔او ایک ایسا عمل ہے کہ جس کے تحت سائنسدان کسی ایک جنس کا ڈی۔این۔اے اور آر۔ این ۔اے اٹھا کے کسی دوسری جنس میں گھسا دیتے ہیں اور اس سے پیوند شدہ جنس کو پیدا کیا جاتا ہے جو قدرتی طور پر دوبارہ پیدا ہونے کی خود سے صلاحیت نہیں رکھتے۔کیونکہ ان کے تولیدی اعضاء آپس میں میل نہیں رکھتے۔اور زرِ گل کے انتقال سے دوسری بنیادی فصلیں بری طرح آلودہ ہو جانے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
کینڈا کے ایک کسان نے ان کمپنیوں کو بھگتا ہے۔ اس کی فصل مون سینٹو کے جی ایم او بیج سے آ لودہ ہو گئی تھیں۔اس کو اس کی خبر تب ہوئی جب اس نے کیڑے مار ادیات کا استعمال کیا مگر کچھ بیج اس سے خراب نہ ہوئے۔وہ سمجھ گیا کہ وہ دھوکے میں گی ایم او بیج لے آیا ہے۔ اس نے سوچا کہ ان بیجوں کو زمین سے صاف کرنے میں تو کم از کم تین سال لگ جائیں گے۔ اس نے سوچا کہ اس طعح تلف کرنے میں وقت کے ساتھ ساتھ بہت لاگت اٹھے گی لہذا اس نے اگلے سال کی فصل کے لیے بیج بچا لیا۔ مون سینٹو نے یہ موقف اپنایا کیونکہ کسان نے جی ایم او بیچ کو اگلے سال کی فصل کے لیے بچا رکھا تھا اور فصل بوئی تھی تو یہ سرا سر قانون کی خلاف ورزی ہے اور مون سینٹو نے اس کسان پر مقدمہ کر دیا اور وہ کسان یہ مقدمہ خلاف ورزی کرنے پر ہار گیا اور مون سینٹو پر کوئی بھی جرمانہ نہیں لگا۔
امریکہ اور کینڈا میں سینکڑوں کسان دیوالیہ ہو چکے ہیں، ان کی زمین مون سینتو کی وجہ سے بنجر ہو چکی ہے ۔ان میں ایک خوف سراعت کر گیا ہے یہ خوف دائمی ہے ، من سینٹو کے پیوند شدہ بیج جس جینز پیٹرن کے ہوں گے اگلی فصلیں بھی اسی جینز کے تحت ہی کاشت ہو سکیں گی، گویا ہر سال کسان کو ان بڑی کارپوریشنز کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑتے ہیں۔ وہ ان سے بیج بھی خرید رہے ہیں، نقصانات بھی اٹھا رہے ہیں اور ان کی لاگت بھی بڑھ چکی ہے۔حقیقت میں کسان کا کوئی قصور ہی نہیں۔ تقریباََ ہر دفعہ ملحقہ فصل سے زہر آلود زرِ گل ہوا کے دوش پر ان کی فصلوں پر آ کر انھیں بری طرح متاثر کرتا ہے۔اس سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ کی فصل کیسے آلودہ ہوئی۔ ایک دفعہ اگر ہوگئی تو اب یہ ہمیشہ اسی طرح آلودہ ہوتی رہے گی۔اور اس کا سد باب مشکل ہے۔
یہ امر یقینی ہے کہ ہر کوئی کسان مون سینٹو یا دوسری ایسی کمپنیوں کے بیج استعمال نہیں کرنا چاہتا ، اس کی فصل کسی نا کسی طریقے سے آ لودہ ہو کے ہی رہتی ہے۔حتیٰ کہ یونائٹڈ سٹیٹس نیشل آ رگینک پروگرام سٹینڈرڈبھی یہ ترغیب دیتا ہے کہ ایک حد تک اگر آرگینک فصل آلودہ ہو بھی جائے تو ان کی سرٹفیکیشن ثابت رہتی ہے۔مون سینٹو کا کہنا یہ کہ آرگینگ فارمر اپنی زمین پر بفر زون بنائیں تاکہ وہ زرِ گل کی منتقلی سے آلودہ نہ وہ سکیں ۔