علیؑ ابنِ عمراںؑ کی ہے یہ وصیت
بہ نامِ حسن مجتبیٰؑ نیک سیرت
مرے سامنے اس جہاں کی حقیقت
فسانے سے بڑھ کے نہیں کوئی صورت
ہے گم اپنی ہستی میں اس کی بصیرت
نہ فردا کی فکریں، نہ فہم و فراست
میں دنیا میں ہوں اے پسر چند لمحے
سو تیرے لیے لکھ رہا ہوں وصیت
فقط ڈرتے رہنا خدا سے جہاں میں
یہی تم کو ہے میری جاں اک نصیحت
فقط اپنے مولا کے احکام مانو
کرو ترک دنیا اسی میں ہے حکمت
جسے تم نہیں جانتے اس کو چھوڑو
اسی میں ہے عزت یہی ہے شرافت
الگ خود کو کر لو برائی سے بیٹا
کہ شر میں سراسر ہے بے شک ملامت
خدا کی زمیں پر بنو حق کے خوگر
ہے صبر و رضا و شکیبائی فرحت
کرو خود کو رب کے حوالے حسن تم
کہ ہے سب سے بہتر محافظ وہ قوت
اے فرزند! اب ضعف بڑھنے لگا ہے
کہیں موت لے جائے مجھ پر نہ سبقت
سنو یہ ہجومِ تمنا ہے وہ شے
کہ حاصل نہیں جس کا جز زخمِ کلفت
ہے انسان کا قلب، خالی زمیں سا
جو بوئے گا، کاٹے گا فصلِ مشیت
جو مانو وصیت کو آسودگی ہے
اٹھانی پڑے گی مشقت نہ زحمت
اگرچہ نہیں جانتے اے حسن تم
مگر جو بھی لکھا وہ سب ہے حقیقت
زمانے کی سب خوبیاں کی ہیں یکجا
شرافت، نجابت، صداقت ہے دولت
کتابِ خدا پر عمل کرنا لازم
ہے پنہاں اسی میں زمانوں کی راحت
دکھائوں تمہیں راہِ قیم، ہدایت
بچائوں تمہیں اس سے جو ہے ہلاکت
یہ سود و زیاں کا پس و پیش کیا ہے
بتاتا ہوں تم کو میں اس کی حقیقت
جو فکر و نظر اس میں رہ پا سکیں تو
مدلل، موثر بنے پھر عبارت
ہو بحث و نزع میں کبھی جو الجھنا
خدا کی مدد مانگو، نصرت، نصیحت
ہو یکجائی فکر و نظر کی برابر
وگرنہ نہ جانا کبھی سوئے حکمت
مری بات سمجھو یقیں اس پہ کر لو
وہی لا علاجوں کو دیتا ہے صحت
وہی آزمانے کو نعمت اٹھا لے
ہے نعمت کی کثرت اسی کی مشیت
نہیں جانتے جان لو گے یقیناً
نہ کرنا کبھی علم محمولِ علت
سلیقہ نہ تھا گفتگو کا کسی کو
خدا ہی نے بخشی تمہیں پھر فصاحت
محمدؐ نے کی جس طرح سے کسی نے
خدا کی بیاں کی نہیں حاکمیت
محمدؐ کو بس پیشوا اپنا رکھنا
نہیں اس سے بڑھ کر کوئی بھی سعادت
اے فرزند! قائم رہو اس یقیں پر
خدا ایک ہے ایک ہی ہے رسالتؐ
ہمیشہ سے ہے وہ اکیلا ہی حاکم
ہمیشہ رہے گی اسی کی حکومت
یہ دنیا نہیں دل لگانے کا ساماں
دل و جاں کا مقصد خدا کی اطاعت
جو ہوتے ہیں دنیا میں وقفِ غم ِدل
وہ جنت میں پائیں گے سامانِ عشرت
نظر میں ہماری ہے سب دین و دنیا
ہے راحت اگر دیں تو دنیا ہے عبرت
شناور ہیں جو راہِ دینِ خدا کے
ہے دنیا انہی کی نظر میں مصیبت
جو دنیا کو سب کچھ سمجھنے لگے ہیں
ملے گی انھیں کیسے محشر میں راحت
اے فرزند! خود کو ترازو بناؤ
سراسر بنو تم خدا کی عدالت
ہو سب کے لیے ایک معیارِ اخلاق
سراپا محبت، سراپا سخاوت
فصاحت ہو جس میں وہی لفظ لکھنا
وہی بات کرنا ہو جس میں بلاغت
مرض خود پسندی سے بڑھ کر نہیں کچھ
نہیں اس ہلاکت سے بڑھ کر ہلاکت
ہے محنت میں عظمت سو ہر دکھ کو سہہ لو
ہلاکت ہے دولت کا پانا بے محنت
امیری میں گر کوئی لے قرض تم سے
اور عسرت میں واپس کرے تو غنیمت
ہو دنیا کی رہ گرچہ دشوار کر صبر
وگرنہ قیامت کے دن ہے مشقت
وہ محرم ہے گرچہ سبھی نیک و بد کا
ہے لیکن گنہ گار پر فضل و رحمت
وہ فضل و کرم کرنے والا بہت ہے
کہ اُس کی عنایت ہے اُس کی عنایت
پکڑ سخت گیری پہ کرتا نہیں ہے
عطا کر رہا ہے وہ، حسب ِمشیت
عنایات اُس کی ہی رہتی ہیں تم پر
کہ رحمت سراپا ہے اُس کی حقیقت
جو بروقت پوری دعائیں نہ ہوں تو
سمجھ لو کہ اچھی نہیں تیری نیت
اجل سے تو بچ کے کوئی بھی نہ بھاگا
جو آیا ہے جائے گا وہ عینِ فطرت
حفاظت کرو اپنے ایماں کی ہر دم
کہ دونوں جہاں میں ہے اِس کی ضرورت
ہے دنیا کا خواہاں جو مثل ِسگاں ہے
کہ لڑنا جھگڑنا ہے، بس جس کی فطرت
نظر آ رہی ہے وہ دیکھو رہِ حشر
چلیں گے مگر طے نہ ہوگی مسافت
کبھی بھی نہ ہوں گی تمنائیں پوری؟؟
ہے بے کار لمبی حیاتی کی چاہت
خدا نے بنایا ہے آزاد تم کو
غلامی کی ذلت سے بچنا فضیلت
طمع حرص ہے ایک ایسی سواری
کہ اک پل کی راحت نہیں جس کی قسمت
ملے گا تمہیں رب سے جو تم نے مانگا
ہے لعنت، ملامت، کسی کی بھی منت
بچو گے اگر لقمہ ِبد سے مومن
تو پاؤ گے تم حوضِ کوثر سے راحت
کبھی دشمنی بھی ہو عزت کا باعث
کبھی دوستی بھی ہو وجہِ ملامت
سہارے امیدوں کے ہرگز نہ رہنا
کہ احمق ہی سمجھے گا اسی کو غنیمت
ملے گا جو لکھا ہوا ہے مقدر
وہ تھوڑے میں بھی ڈال دیتا ہے برکت
صلہ رحمی کو سمجھنا عبادت
کہ انساں کی ہے یہ طریقت، فضیلت
رقیبوں کا ساتھی نہیں دوست تیرا
اگر تُو نے سمجھا تو کھوئے گا الفت
ہمیشہ بنو دوست کے نیک ناصح
اگرچہ ہو تلخی مگر رکھنا چاہت
کبھی بھی کسی کا کوئی حق نہ کھانا
کہ حق تلفی سب سے بڑی ہے مصیبت
رکھو یہ یقیں رزق ہیں دو طرح کے
جو ڈھونڈے تمہیں، جو ہو تیری ضرورت
ہے کج خلقی جگ میں برائی کا ساماں
اٹھاؤ گے تم اس برائی سے زحمت
نہ واویلا کرنا، نہ شر شور کوئی
خدا ٹال دے گا یہ رنج و مصیبت
محبت کا خوگر ہی ہے دوست تیرا
رکھے حسنِ ظن اور لب پر حلاوت
تباہی ہے بس واسطے اس شقی کے
جو حق سے تجاوز کی پائے طبیعت
کبھی آنکھ والا بھی کھا جائے دھوکہ
کبھی پائے اندھا بھی یہ راہِ حکمت
پسِ پشت رکھنا برائی ہمیشہ
نہ دنیا کے دھوکے میں آنا ہے عظمت
حکومت جو بدلے تو بدلے زمانہ
حکومت کی بھی جان لینا حقیقت
شریکِ سفر دیکھ کر ساتھ رکھنا
کہ ہے جان پہچان بھی اک ضرورت
تکلم میں اپنے نہ لاؤ ہنسی کو
اگرچہ وہ رنگِ بیاں ہو حقیقت
جو مستور ہیں ان کو مستور رکھنا
کہ پردہ ہی خاتوں کی ہے زیب و زینت
کبھی بے بھروسہ کو گھر میں نہ رکھنا
کہ چھینے گا وہ تیرے گھر کی حکومت
نہیں حکمراں، کار فرما تمہارے
محبت کرو، وہ کریں تیری خدمت
کبھی شک نہ کرنا شرافت پہ اُس کی
کہ دیکھو نہ تم راہِ بد کی ذلالت
کرو اپنے خویش و قبیلے کی عزت
کہ یہ بال و پر ہیں اڑانوں کی ہمت
تمہیں سونپا رب کو کہ دنیا کی رہ میں
بھلائی ہے تیری ہی میری مشیت
سلامت رہو اے حسنؑ مجتبیٰ تم
مرے جانشیں یاد رکھنا وصیت
****
شاعرہ : صائمہ قمر
انتخاب کلام: ظفر معین بلے جعفری