جب کوئی اڑتا ہوا لمحہ تری خوشبو لایا
ہر گھڑی مجھ کو لگے رُت ہو گلابوں جیسی
دو ستمبر 2020ء کو فیصل آباد کے ادبی افق سے ایک اور روشنی بکھیرتا آفتاب جہاں تاب واصل ہاشمی (سید مشکور حسین ) ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا ۔۔۔
یہ دل سوز خبر سن کر میری پُرنم آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا۔ گُل چین ازل نے گلشن علم و ادب سے وہ پھول توڑ لیا جس کی عطر بیزی نے گزشتہ سات عشروں سے فضائے دِل کو معطر کر رکھا تھا۔ یہ سوچ کر میرا دِل بیٹھ گیا کہ ہماری بزم ِ وفا سے وہ عظیم انسان اُٹھ گیا ہے جس نے تخلیقِ ادب کو معیار اور وقار کی رفعت سے آ شنا کیا ۔ تاریخ ،ادب، فلسفہ ،نفسیات، ادیانِ عالم ،علم ِبشریات اور روحانی علوم میں واصل ہاشمی نے اپنی علمی فضیلت اور وسیع مطالعہ کے اعجاز سے اس قدر جامع اور وقیع تحریریں پیش کیں جو انھیں میدان شعر و سخن میں ممتاز اور منفرد مقام عطا کرتی ہیں۔اپنی تخلیقی فعالیت سے اُرد وادب کی ثروت میں ںبے پناہ اضافہ کرنے والے اس یگانۂ روزگار فاضل نے اپنی فقید المثال کامرانیوں کی دھاک بٹھا دی۔ واصل ہاشمی ہمہ صفت موصوف تھے ، ان کو ہر صنفِ ادب میں تخلیقی کام کرنے کا قرینہ آتا تھا۔۔انھوں نے تخلیق ادب کے لیے پنجابی اور اُردو زبان کا انتخاب کیا۔اصنافِ ادب میں انھوں نےحمد، نعت ، نظم، غزل اور رباعی میں اپنی خداداد صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔اُردو زبان کا ہنستا بولتا چمن جان لیوا سکوت اور مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اسلامی تاریخ، مشرقی تہذیب وثقافت ،تمدن و معاشرت اور مذہبی ا قدار و روایات کا عظیم علم بردارچپکے سے ہماری محفل سے اُٹھ کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا۔ واصل ہاشمی کی وفات پر شہر کا شہر سوگوار ہے اور ہرآنکھ اشک بار ہے ۔۔۔۔۔
واصل ہاشمی کا نام فیصل آباد کی ادبی تاریخ میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے ۔۔ انہوں نے اردو نظم اور غزل کو منفرد رعنائی خیال کے لحاظ سے ایک اعتبار بخشا ہے ،ان کی لفظیات ایک الہام کا درجہ رکھتی ہیں۔ غزل کا میدان اتنا وسیع ہے کہ شاعر ہر بات خواہ طریقت کی ہو یا معرفت کی ،محبوب سے باتیں کرتے کرتے ہر رنگ میں نیا مقصد بیان کر جاتا ہے ۔۔واصل ہاشمی کی شاعری روحانی اور اخلاقیات کے طور و طریقہ کی صحیح رہنمائی کرتی چلی جاتی ہے ۔۔ان کے ہر شعر میں ایک نیا اسلوب گامزن ہے ۔۔واصل ہاشمی ایجنسی غزل تخلیق کرتے ہیں مفہوم اتنی نوریز ہوتے ہیں کہ ان کا قاری بہت ہی آسانی کے ساتھ انھیں اپنے عہد کے نازک مسائل سے وابستہ کرنے میں کامیاب ہوتا ہے ،شاعر کسی مرحلہ پر بھی الفاظ کے دروبست کو گرد آلود نہیں ہونے دیتا اور یہی وصف لکھنے والے کو امتیاز بخشتا ہے ،اظہار محبت کا یہ خلوص کسی بھی پسندییدگی کے ربط کو ٹوٹنے نہیں دیتا،ان کی ہر غزل میں آپ اس بازگشت کو ہم آسانی سے سن سکتے ہیں ۔۔اپنے ایک شعر میں کہتے ہیں ۔
ان کا مفہوم بھی سمجھ لینا
اشک بھی بے صدا نہیں ہوتے
واصل ہاشمی کے دو مجموعہ کلام " آئینہ خاموش تھا " اور "درد جب گوہر بنا " منصہ شہود پر آ کر اپنی کامیابی اور پزیرائی کی سند حاصل کر چکے ہیں ۔۔۔۔واصل ہاشمی کا شعری مجموعہ "آئینہ خاموش تھا" ان کے کم و بیش پچاس سالہ تخلیقی سفر کا ماحصل ہے ، گویا یہ نصف صدی کا قصہ ہے ،دو چار برس کی بات نہیں ، اپنی تہذیبی اقدار اور ملی روایات سے گہری وابستگی کا دو ٹوک اظہار ان کے مجموعی شعری مزاج کا اہم ترین پہلو ہے ،ذیل کا شعر اسی حقیقت کا آئینہ دار ہے ۔
دل سی دولت ہے مرے سینے میں
ہاتھ کیوں مانگنے والے رکھوں
واصل ہاشمی کی شاعری طاق فکر و نظر کا وہ چراغ ہے جو تیرہ شمی میں قوت ممیزہ پیدا کرتا ہے ، وہ مذہب اور سیاست ،معاشرت اور فلسفے کا گہرا شعور رکھتے ہیں ، وہ تلاش ذات میں سر گرداں دکھائی دیتے ہیں ، اس حوالے سے وہ غالب اور اقبال سے زیادہ متاثر ہیں ،وہ بھی ذات کی بات ابو کے حوالے سے کرتے ہیں وہ اصل ہاشمی بھی سماجی کلفتوں کا اظہار کرتے ہیں اور ایک گنا قرینے کے ساتھ۔۔۔۔۔۔ واصل ہاشمی ملی درد بھی رکھتے ہیں۔۔وہ زندگی کی اساسی قدروں کے امین ہیں اور حقیقی ادب زندگی کی سچی اور آفاقی قدروں کا احاطہ کرتا ہے ۔۔۔
واصل ہاشمی لفظوں کے رویوں سے خوب آگاہ ہے ان کا اشہب قلم سر پٹ نہیں دوڑتا بلکہ آہستہ خرام ہے ۔۔یہ مجموعہ روشنائی سے نہیں روشنی کی لکیروں سے وجود میں آیا ہے، ان کی شاعری کی باریکیوں اور لطافتوں کو سمجھنے کے لئے تھوڑی دیر رکنا پڑتا ہے اس لیے کہ ان کا شاہد معنی جملہ الفاظ میں چھپا بیٹھا ہے،شاعری منطق کے دائرے سے باہر ہے مگر منطق کو شاعری میں بیان کرنا اور وہ بھی دلپزیر پیراے میں کار دار ہے ، واصل ہاشمی یہی کرتے ہیں ، ان کا شعری اسلوب دوسروں سے ہٹا ہوا اور کٹا ہوا ہے ، اسی لئے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اسے اپنے مطالعہ اور مشاہدہ کے ہم آہنگ کر کے پیش کرتے ہیں اسی پس منظر میں نظم بعنوان "آزاد نظم" کی تین سطریں ملاحظہ کریں ۔
میں شاعر ہوں غزل کہہ لوں
مصور ہوں تری تصویر بنا بھی لوں
تو تیرے قرب کے سارے حوالے کیسے پاؤں گا
علی گڑھ کی فضاؤں میں ،مسلم یونیورسٹی کی آغوش میں پروان چڑھنے والے واصل ہاشمی کی گوناگوں صلاحیتوں اور خوبیوں کو گنوانا کارے دارد ہے انہوں نے مصوری یا صورت گری سے لے کر ادب اور صحافت میں خوب نام کمایا اور اپنا لوہا منوایا کالم نگاری، افسانہ نویسی کے علاوہ نظم کی تمام ہیتوں اور جہتوں میں خوب خامہ فرسائی کی ہے ۔۔جس کی مثال خال خال ہی ملے گی ،ان کی نثر اور نظمیہ شہہ پارے زبان و بیان کے شہکار ہیں ،غزل اور نظم میں سلاست اور شادی کا طراہ امتیاز ہے۔۔۔۔ ہمہ جہت اور نستعلیق ہیں کہ آدمی گرویدہ ہو کر رہ جائے ۔۔۔۔۔واصل ہاشمی کی شخصیت اور شاعری سادگی اور جاذبیت کا ایک دلاویز امتزاج ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے ظاہر و باطن میں تقدس، پاکیزگی او شعور ذات کا سراغ ملتا ہے،وہ بنیادی طور پر ایک حساس اور فنکار تھا ۔۔اس کی تصویر ہو یا الفاظ کی نقش گری ، دونوں لطافت، بلاغت اور متانت کا دلکش مرقع ہے۔۔۔۔
ممتاز ادیب اور ماہر قانون اقبال عظیمی' واصل ہاشمی کی وفات پر اظہار تعزیت کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔۔
""واصل ہاشمی حقیقی معنوں میں ہشت پہلو شخصیت تھے ،لائلپور میں اگر یہ بات ہو کہ اس دور میں ایسے لوگ کہاں ملتے ہیں جو باہر سے بھی خوبصورت ہوں اور اندر سے بھی تو بلامبالغہ واصل ہاشمی کا نام لیا جا سکتا ہے۔۔واصل ہاشمی بہت اچھے شاعر، زیرک نثر نگار،بہترین فوٹو گرافر اور عمدہ صداکار تھے ،اگرچہ مجھے یہ سعادت حاصل ہوئی ہے کہ میں نے ماہنامہ " سوک رپورٹ " کے لیے ان کا انٹرویو کیا تھا جو کہ قارئین نے بہت سراہا تھا ۔۔واصل ہاشمی خوش لباس، خوش مزاج ،خوش گفتار، خوش الحان اور زود رنج بھی تھے۔آج شیخ منظور حسین صاحب کی پوسٹ پر ان کے بیٹے کی خبر پڑھ کر جو کچھ دل پر گزرا ، بیان سے باہر ہے ۔۔واصل ہاشمی کی تحریر و تقریر کے دیوانے بھی پروانوں کی مانند علم و آگہیو ادب کی شمع فروزاں کی جانب سے کھچے چلے آتے تھے،اسی طرح ہیں ان کی فوٹو گرافی کے مداح بھی دور دور سے ان کے پاس آتے تھے ۔۔۔میرا ایک عرصہ تک معمول رہا ہے کہ اتوار کو دوپہر سے شام تک واصل ہاشمی صاحب کے پاس بیٹھ کر مسائل تصوف تک مباحث اور بصیرت افروز نکات سے مستفید ہوتا ۔۔""
ان کی ایک غزل جو نصرت فتح علی خان کی موسیقی میں اعجاز قیصر کی خوبصورت آواز میں ریکارڈ ہوئی تھی اس کے چند اشعار ۔۔۔
سانول وہ مستانہ ہے
باقی سب افسانہ ہے
چین آیا ہے جب دل تڑپا
بے کل ہو کر جانا ہے
ممتاز ماہر تعلیم اور نعت گو شاعر پروفیسر ریاض احمد قادری والا ہاشمی کے بارے میں لکھتے ہیں ۔
""واصل ہاشمی سمندری روڈ فیصل آباد پر واقع چک میانی میں بابا جی حضرت عبدالمجید کے دربار کے گدی نشین تھے ۔آپ کائناتی اکیڈمی کے صدر تھے ۔آپ کی دو کتابیں "آئینہ خاموش تھا " اور " درد جب گوہر بنا "منصہ شہود پر آچکی ہیں ۔لیکن "درد جب گوہر بنا" کو بہت شہرت ملی۔۔آپ فوٹو گرافی میں ایک اتھارٹی کا درجہ رکھتے تھے اسی سلسلہ میں آپ فوٹوگرافر وفد کے ساتھ آپ جرمنی بھی گئے ۔۔آپ کو حج اور کئی بار عمرے کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ واصل ہاشمی کے مریدین پاکستان کے علاوہ بیرون ممالک میں بھی موجود ہیں ۔۔۔ واصل ہاشمی کی وفات سے شہر فیصل آباد ایک پختہ فکر شاعر سے محروم ہوگیا ہے۔""
تجھ سے ملنے کی تمنا میں زمانے گزرے
زیست کے لمحے اسی ایک بہانے گزرے
واصل ہاشمی کا بنیادی طور پر لاہور سے تعلق تھا لیکن انھوں نے اپنی ساری زندگی فیصل آباد کی مٹی اور اہل فیصل آباد سے پیار اور محبّت کرنے میں گزار دی ۔۔ فیصل آباد سے محبّت کرنے والے مایہ ناز ادیب کو شہر خموشاں لاہور کی زمین نے اُردو ادب کے اس آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چُھپا لیا۔ ُاردو زبان و ادب کا وہ آفتاب عدم کی بے کراں وادیوں میں غروب ہو گیا جس کی ضیا پاشیوں سے کُل عالم بُقعہ ء نُور ہوا ۔وہ زیرک ،فعال اور مستعد تخلیق کار جس نے اپنی تخلیقی فعالیت سے اُردو زبان وادب کو عالمی ادبیات میں معیار اور وقار کی رفعت سے آشنا کیا اور اُردو ادب کو افلاک کی وسعت عطا کرنے والا فاضل ادیب اب لاہور میں پیوند خاک ہو چکا ہے ۔۔۔۔اللہ پاک ان کی مغفرت کرے اور درجات کی بلندی سے نوازے ۔۔۔آمین ۔
** خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
“