آج – 22/اکتوبر 1914
ضلع بہرائچ کے ایک مشہور استاد شاعر” وصفیؔ بہراچی صاحب “ کا یومِ ولادت…
عبد الرحمن خاں وصفیؔ بہرائچی ضلع بہرائچ کے ایک مشہور استاد تھے۔ جناب کی پیدائش 22 اکتوبر، 1914ء کو شہر کے محلہ میراخیل پورہ بہرائچ میں ہوئی۔ آپ کے والد کا نام حافظ عبد القادر اور والدہ کا نام محترمہ مقبول بیگم تھا۔
آپ کے دادا ضامن علی خا ں انیقؔ بہرائچی میر انیس کے ہم عصر شاعر تھے اور صاحب دیوان شاعر تھے۔ وصفی صاحب کے بھائی ڈاکڑ نعیم اللہ خاں خیالی بھی ضلع بہرائچ کے مشہور ماہر لسانیات ہونے کے ساتھ ساتھ تین درجن سے زیادہ کتابوں کے مصنف تھے۔ وصفی صاحب کا ضلع بہرائچ کے تمام ادیبوں اور شاعروں سے گہرا تعلق تھا۔
وصفی صاحب کے شاگروں میں حاجی لطیف بہرائچی ،اطہر رحمانی اور فیض بہرائچی کا نام قابلِ ذکر ہے۔
وصفی بہرائچی کا صرف ایک مجموعہ کلام افکار وصفی نام سے اگست 1986ء میں فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی لکھنؤ اتر پردیش کے مالی تعاون سے شائع ہوا تھا۔ جو آپ کی غزلوں کا مجموعہ تھا ۔
وصفی بہرائچی کا انتقال 13اپریل1999ء میں شہر بہرائچ کے محلہ قاضی پورہ میں واقع مکان میں ہوا تھا اور تدفین شہر کے مشہور قبرستان عیدگاہ میں ہوئی۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
استاد شاعر وصفیؔ بہراچی کے یوم پیدائش پر منتخب کلام بطور خراجِ تحسین…
دل ان کی محبت کا جو دیوانہ لگے ہے
یہ ایسی حقیقت ہے جو افسانہ لگے ہے
عالم نہ کوئی پوچھے مری وحشتِ دل کا
گھر اپنے اگر جاؤں تو ویرانہ لگے ہے
بڑھتے نہیں کیوں میرے قدم آگے کی جانب
نزدیک ہی شاید در جانانہ لگے ہے
ویسے تو کسی نے مجھے ایسا نہیں جانا
دیوانہ کہا تم نے تو دیوانہ لگے ہے
رودادِ الم ان سے جو قاصد نے بیاں کی
فرمانے لگے ہنس کے یہ افسانہ لگے ہے
میں نے تو بنائی تھی فقط آپ کی تصویر
دل میرا مگر آج صنم خانہ لگے ہے
اب اپنا بھی بیگانہ نظر آتا ہے وصفیؔ
بیگانہ تو بیگانہ ہے بیگانہ لگے ہے
─━━━═•✵⊰••••••••••••⊱✵•─━━━═
کرتے نہیں جفا بھی وہ ترکِ وفا کے ساتھ
یہ کون سا ستم ہے دلِ مبتلا کے ساتھ
اب وہ جبینِ شوق کہیں اور کیوں جھکے
وابستہ ہو گئی جو ترے نقشِ پا کے ساتھ
وارفتہِ جمال کا عالم نہ پوچھئے
دیوانہ وار اٹھتی ہیں نظریں صدا کے ساتھ
سرخی تمہارے ہاتھ کی کہتی ہے صاف صاف
شامل ہے میرے دل کا لہو بھی حنا کے ساتھ
تکمیلِ آرزو کی خوشی اور غمِ حیات
دونوں ہی ابتدا سے رہے انتہا کے ساتھ
شامل مری حیات میں یوں ہے غمِ حیات
جیسے خبر ہو اپنے کسی مبتدا کے ساتھ
وصفیؔ مری حیات نے منزل کو پا لیا
کچھ دن گزار آیا جو اک پارسا کے ساتھ
◉➻══════════════➻◉
ادب میں مدعیٔ فن تو بے شمار ملے
مگر نہ میرؔ کے غالبؔ کے ورثہ دار ملے
جنونِ عشق کو دامن تو تار تار ملا
مزا تو جب ہے گریباں بھی تار تار ملے
بڑے مزے سے گزاری ہے زندگی میں نے
خدا کے فضل سے حالات سازگار ملے
کسی کے دل پہ بھلا اختیار کیا ہوگا
بہت ہے اپنے ہی دل پر جو اختیار ملے
یہ کیا ستم ہے کہ اعدا تو پائیں حور و قصور
جو ان کے چاہنے والے ہیں ان کو دار ملے
مرے مزاج کو بخشا ہے انکسار اگر
بقدرِ ظرفِ طبیعت کو انکسار ملے
ہر اک عمل پہ مکلف بنا کے فرمایا
کہیں سے دیکھنا دامن نہ داغدار ملے
مرا مذاق ہے اکرام دوستاں وصفیؔ
وہ دل ہی پاس نہیں جس میں کچھ غبار ملے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
وصفیؔ بہراچی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ