پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر اور لازوال لوک داستان " ہیر رانجھا " کے خالق حضرت پیر وارث شاہ کو پنجابی زبان کا شکسپیئر کہا جاتا ہے ۔ پنجابی زبان کے 2 عظیم شاعر گزرے ہیں ایک تو حضرت پیر وارث شاہ صاحب ہیں جبکہ دوسری سکھ مذہب کی کی خاتون شاعرہ امرتا پریتم ہیں ۔ حضرت وارث شاہ پنجاب کی سرزمین کے ایک تاریخی قصبہ جنڈیالہ شیر خان ضلع شیخوپورہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد صاحب کا نام سید گل شیر شاہ تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم قصور سے حاصل کی ۔حضرت بابا بلہے شاہ اور حضرت وارث شاہ دونوں ہمعصر اور ایک ہی استاد حضرت مولانا غلام مرتضی کے شاگرد تھے ۔ وارث شاہ نے اپنی شاعری میں اپنے استاد محترم کا اس طرح ذکر کیا ہے
”وارث شاہ وسنیک جنڈیالڑے دا
تے شاگرد مخدوم قصور دا اے“
وارث شاہ نے بابا بُلھے شاہ کے ہمراہ اُن سے تعلیم حاصل کی۔ دنیاوی علم حاصل کرنے کے بعد بابا بلھے شاہ نے حضرت عنایت قادری کی بیعت کی جبکہ سید وارث شاہ نے حضرت خواجہ فریدالدین گنج شکر کے خاندان میں بیعت کی: اس بارے میں ان کا کہنا ہے کہ
مودود دا لاڈلا پیر چشتی گنج شکر مسعود بھرپور ہے جی
خاندان وچ چشت دے کاملیت شہر فقر دا پٹن معمورہے جی
پاکپتن میں کچھ عرصہ قیام کے بعد انہوں نے ایک گاﺅں کی ایک چھوٹی سی مسجد میں رہائش اختیار کر لی۔ وہیں پر مراتب فقر کی منازل طے کرنے کے بعد ان ہی دنوں میں آپ نے مشہور قصہ ”ہیر رانجھا“ کی تخلیق کا کام مکمل کیا۔ سید وارث شاہ درحقیقت ایک درویش صوفی شاعر ہیں۔ ایک جگہ پر اللہ تعالیٰ کی حمد اس طرح بیان کرتے ہیں۔
”اوّل حمد خدا دا ورد کیجئے
عشق کیتی سو جگ دا مول میاں
پہلاں آپ ای رب نے عشق کیتا
معشوق ہے نبی رسول میاں“
وارث شاہ نے وہ ساری خوبیاں اور خصوصیات اپنی ہیر میں سمو دی ہیں جو کسی داستان کا حصہ ہوتی ہیں۔ ”ہیر رانجھا“ کا قصہ سب سے پہلے دمودر نے پیش کیا پاکستان اور ہندوستان کے پنجاب میں آج بھی یہ قصہ دوسری تمام عشقیہ داستانوں سے زیادہ پڑھا اور سُنا جاتا ہے۔ وارث شاہ نے ”ہیر رانجھا“ کی داستان میں شروع سے لیکر آخر تک مکالمہ نگاری سے کام لیا ہے اور ان مکالموں کے ذریعے کہانی کے کرداروں کو بڑی رعنائی کے ساتھ بیان کیا ہے ہر کردار اپنے کام میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے۔
وارث شاہ کا دور محمد شاہ رنگیلا سے لے کر احمد شاہ ابدالی تک کا دور ہے۔ انہوں نے نے اس سارے منظر کو شاعری کی شکل میں اس طرح بیان کیا ۔
”حق سچ دی گل نہ کرے کوئی
جھوٹ بولنا رسم سنسار ہوئی
مجلس لا کے کرنا حرام ایکا
صوبیدار تے حاکم نہ شاہ کوئی
رعیت ملک تے سب اجاڑ ہوئی
پیا ملک دے وچ ہے بڑا رولا
ہر کسے دے ہتھ تلوار ہوئی“
وارث شاہ نے پنجابی زبان کو عروج بخشا ہے۔ پنجابی زبان کی تدوین و ترویج میں انہوں نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ان کا کلام پاکستان اور ہندوستان بالخصوص سکھوں میں بہت مقبول ہے۔ ”ہیر“ میں بہت سی کہاوتوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے جو لوگوں کیلئے ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہیں مثال کے طور پر۔
”وارث شاہ نہ عادتاں جاندیاں نیں
بھاویں کٹیئے پوریاں پوریاں اوئے“
”وارث رن، فقیر، تلوار، گھوڑا
چارے تھوک ایہہ کِسے دا یار نہیں“
”ڈنڈا پیر ہے وگڑیاں تگڑیاں دا
تے شیطان استاد داستیاں دا“
”وارث شاہ خلق تو لکالئیے
بھاویں اپنا ای گڑ کھالئیے“
حضرت پیر وارث شاہ کی ”ہیر“کے علاوہ دوسری تصانیف میں معراج نامہ، نصیحت نامہ، چوہریڑی نامہ اور دوہڑے شامل ہیں۔
وارث شاہ کا عرس مبارک ہر سال ساون کی 8، 9، 10 تاریخ کو جنڈیالہ شیر خان میں منایا جاتا ہے لیکن رمضان المبارک کی وجہ سے ساون میں عرس شروع نہ ہو سکا جو اب ستمبر کی 23، 24، 25 تاریخ کو منایا جا رہا ہے ۔
عرس کے موقع پر ہیر پڑھنے کے مقابلے ہوتے ہیں۔ جن میں ہیر پڑھنے والے پاکستان کے علاوہ دوسرے ملکوں سے آ کر حصہ لیتے ہیں۔ 1983ءمیں سید وارث شاہ میموریل کمیٹی نے 80 لاکھ روپے کی لاگت سے مزار کی عمارت کو تعمیر کروایا۔ وارث شاہ کمپلیکس آٹھ ایکڑ پر مشتمل ہے۔ کمپلیکس کے اندر 17 دکانیں، ایک گیسٹ ہاﺅس اور ایک لائبریری موجود ہے۔
حکیم ممتاز علی گہی راجپوت سید وارث شاہ اور پنجابی زبان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:
عرشوں اتری لاڈ لڈکری میں
پیدا ہوئی پنجاب وچ آن کے میں
پیتا دودھ میں ہندی تے فارسی دا
میرے پنج دریا نے نانکے وے
وارث شاہ دی گود وچ کھیڈدی رہی
اوہنے پالیا لاڈلی جان کے وے
بابا بلھے نے لوریاں دتیاں نے
مینوں پھلاں توں سہل پہچان کے وے
ممتاز شان پنجابی دی کی دساں
ایہدی شان اے سارے جہان تو و دھ کے
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وارث شاہ نے شادی کی تھی اور ان کی ایک بیٹی بھی تھی جبکہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وارث شاہ نے شادی نہیں کی تھی۔ آپکے سن پیدائش کے بارے میں حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی وفات کے متعلق۔ افضل حق نے اپنی کتاب معشوقہ پنجاب میں لکھا ہے کہ آپ نے 1233ھ میں وفات پائی۔جبکہ ان کی ولادت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی ولادت 1150 ہجری میں ہوئی ہے ۔
”وارث میاں انت خاک ہونا
لکھ آب حیات جے پیو نائیں“
پنجابی زبان کی عظیم شاعرہ امرتا پریتم نے حضرت وارث شاہ کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے
اج آکھاں وارث شاہ نوں کتھوں قبراں وچوں بول
تے اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقا پھول