ایک کیس میں 4 بہن بھائی تھے۔والد کی وفات ہوگئی تھی۔جائیداد ماں کے نام تھی۔بھائی اس جائیداد سے بہنوں کا حصہ بھی ہڑپ کرکے ساری اپنے نام کروانا چاہتے تھے۔لیکن ماں اس کیلئے تیار نہ تھی۔70سالہ بوڑھی ماں اکثر بیمار رہتی تھی۔بھائیوں کو یہ فکر لاحق تھی کہ ماں کی زندگی میں جائیداد ان کے نام نہ ہوئی تو مرنے کے بعد تو وہ اس سے بالکل محروم ہوجائیں گے۔کہ تب سب بہن بھائیوں کو وراثت کے قانون کے مطابق ملے گا۔دونوں بھائیوں نے ایک بوڑھی عورت کی خدمات حاصل کیں۔علاقہ پٹواری کو ساتھ ملایا اور اس بوڑھی خاتون کو برقعہ پہنا کر ریونیو افسر کے سامنے لے گئے۔ اس عورت کو اپنی ماں بنا کر پیش کیا اور بتایا کہ وہ اپنی ساری جائیداد اپنے ان دو بیٹوں کے نام ہبہ (گفٹ) کرنا چاہتی ہے۔افسر صاحب کو بھی ’’چمک‘‘ لگی ہوئی تھی۔انہوں نے تصدیق کیے بغیر کہ کیا یہ واقعی ان کی ماں ہے۔جائیداد ان کے نام کردی۔
کارروائی ڈالنے کے فوری بعد ہونہار بیٹوں نے ماں کو حج پر بھجوا دیا۔اللہ کی کرنی ایسی ہوئی کہ بوڑھی ماں کی دوران حج ہی وفات ہوگئی۔بیٹوں کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ایک تو خدا کے گھر میں موت ہوئی۔دوسرا اب یہ خدشہ نہیں ہوگا کہ ماں کو ان کی کارروائی کا پتہ چلا تو وہ کام خراب ہی نہ کردے۔
کچھ عرصے بعد بیٹیوں کو اپنے بھائیوں کے "کارنامے" کا پتہ چلا تو انہوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ سول جج نے فیصلہ بھائیوں کے حق میں سنایا۔بہنوں نے فیصلے کیخلاف ڈسٹرکٹ جج کی عدالت میں اپیل دائر کی۔تاہم یہاں سے بھی فیصلہ ان کے خلاف آٰیا۔بہنیں ہائیکورٹ پہنچ گئیں۔ یہاں سے انہیں کامیابی ملی اور ہائیکورٹ کے جج صاحب نے نچلی عدالتوں کے فیصلے کالعدم قرار دیتے ہوئے جائیداد وراثت کے قانون کے مطابق سب میں تقسیم کرنے کا حکم دیا۔ فیصلے نے بھائیوں کو ناراض کیا۔وہ اسے ختم کرانے کیلئے سپریم کورٹ پہنچے۔سپریم کورٹ میں معزز جج صاحب نے اس کیس میں نچلی عدالتوں کی بڑی غلطیاں پکڑ لیں۔ہائیکورٹ کے جج صاحب کی تعریف کی اور ان کا فیصلہ برقرار رکھا۔جج صاحب نے کن بنیادوں پر بہنوں کے حق میں فیصلہ دیا:
1۔لینڈ ریوینیو ایکٹ کی دفعہ 7،ذیلی دفعہ 42 کہتی ہے کہ جب کوئی اپنی جائیداد کسی دوسرے کے نام لگوانے کیلئے آئے تو پٹواری اور ریونیو آفیسر کی ذمہ داری ہے کہ تصدیق کریں کہ اصلی شناختی کارڈ کے مطابق کیا یہ وہی شخص ہے جس کی جائیداد ہے۔جبکہ اس موقع پردو معتبر گواہوں کا ہونا بھی ضروری ہے جو تصدیق کریں کہ یہ وہی شخص ہے جس کی جائیداد ہے۔اور یہ کہ یہ بلا جبر نام کی جارہی ہے۔جبکہ اس موقع پر ایسا کچھ نہیں ہوا۔خاتون کا شناختی کارڈ موجود نہیں تھا،جبکہ اس نے برقعہ بھی نہیں اتارا کہ دیکھ کر شناخت کی جاسکے۔کہا گیا کہ یہ بڑی پردہ دار خاتون ہیں،برقعہ نہیں اتارتی۔ایک بھائی کے داماد نے یہ گواہی دی کہ یہ واقعی وہی خاتون ہیں۔کہا گیا کہ شناختی کارڈ گم ہوگیا ہے۔اسلئے نہیں لایا جاسکا۔اگر شناختی کارڈ نہیں تھا تو اس جائیداد منتقلی کے فوری بعد ماں حج پر کیسے چلی گئی۔جبکہ اس سفر کیلئے شناختی کارڈ کا ہونا ضروری ہے۔
2۔اس بیان کے موقع پر بہنوں میں سے کوئی بھی نہیں تھا۔یہ چیز پہلے پوائنٹ میں بیان کیے گئے شک کو تقویت دیتی ہے۔
3۔وہ کاغذ جس پر خاتون کا انگوٹھا لگوایا گیا وہ عدالت میں اصلی میں پیش نہیں کیا گیا۔اس کی کاپی پیش کی گئی۔یہ کاپی پرائمری ایویڈینس کی شرط پر پورا اترتی ہے نہ ہی سیکنڈری ایویڈنس کی۔ اصل کاغذ پر لگے انگوٹھے کا فارنزک ٹیسٹ کروایا جاسکتا تھا،شناختی کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ پر لگے انگوٹھے کے نشان سے موازنہ کیا جاتا کہ کیا یہ واقعی اسی خاتون کا نشان انگوٹھا ہے؟ لیکن ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔
4۔قانون شہادت آرڈر کے آرٹیکلز 118،117 کے مطابق بار ثبوت مدعیان پر تھا کہ ان کی ماں نے جائیداد ان کے نام کر دی تھی۔انہوں نے غلام محمد نامی ایک شخص کے بارے میں دعویٰ کیا تھا کہ جس وقت خاتون نے جائیداد ان کے نام کرائی،وہ بطور گواہ وہاں موجود تھا۔تاہم مقدمے میں اس گواہ کو پیش نہیں کیا گیا۔جس ایک گواہ کو پیش کیا گیا وہ ان بھائیوں میں سے ایک کا داماد ہے۔یہ انٹرسٹڈ وٹنس ہے۔بھائیوں نے اس کاغذ کا فارنزک معائنہ بھی نہیں کروانے دیا۔
5۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ وراثت کے قانون کے مطابق بہنوں کو پہلے ہی بھائیوں سے آدھی جائیداد دی جاتی ہے۔اس آدھی جائیداد پر بھی بھائی نظریں جمائے ہوتے ہیں۔ ہبہ کا طریقہ آجکل زیادہ اسی لئے استعمال کیا جاتا ہے کہ بہنوں کو ان کے حق سے محروم رکھا جائے۔بھائیوں کی اپیل مسترد کی جاتی ہے،بہنوں کو وراثت کے قانون کے مطابق ان کا حصہ دینے کو یقینی بنایا جائے۔