معاشرہ کتنا بھی منکر ہو مگر صنف نازک کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا نہ راۓ نہ فیصلہ نہ آگے بڑھنے کا راستہ جب تک مرد کا ساتھ نہ ہو چاہے وہ باپ، شوہر یا بیٹا ہو، صنف نازک کا ٹھکانہ بھی کوٸی نہیں ہوا کرتا سب مکان مردوں کے ہوتے ہیں، پیدا باپ کے مکان میں ہوتی ہے اور جنازہ شوہر کے مکان سے اٹھتا ہے یا بیٹے اور بہو کے ہاتھوں آخری منزل کو روانہ ہوتی ہے اور اگر زندگی میں کبھی ازداوجی زندگی مشکلات کا شکار ہوجاۓ تو بھائی کا مکان سر کی چھت بنتا ہے مگر وہاں بھی بھابیاں جینے نہیں دیا کرتیں عموماً اسی وجہ سے خواتین کوشش کرتی ہیں کہ بھاٸیوں تک بات نہ پہنچے اور خاموشی سے وقت گزار لے اور اگر کبھی خدانخواستہ بیوگی یا علیحدگی کی صورت بھی بنے تو پاٶں کےنیچے نہ زمین ہوتی ہے نہ سر پر آسمان، فیصلہ سازی کے لیۓ نہ کسی کا کان ساتھ ہوتا ہے اور نہ سر پر کوٸی ہاتھ، مجھے نہیں اندازہ کہ دنیا کے دوسرے معاشروں میں کیا ہوتا ہے مگرہمارے معاشرہ میں مرد اسی بات پر عورت کو ہمیشہ جھکا کر رکھتا ہے کہ جاۓ گی کہاں آخر اور اسی وجہ سے زیادہ تر لوگ عورتوں کو جاٸداد میں حصہ نہیں دیتے کہ عورت کے پاس کھڑے ہونے کو زمین مل گٸ تو دولتیاں مارنا شروع ہوجاۓ گی،جہیز کی صورت میں گھر چلانے کے لیۓ چیزوں کی بھرمار کر دی جاتی ہے مگر مکان بہت کم لوگ بیٹیوں کو دیتے ہیں، کیونکہ والدین یہ تصور ہی نہیں کر سکتے کہ ہماری بیٹی کی زندگی میں کوٸ وقت ایسا بھی ہو گا کہ وہ بے گھر ہو، گھر بسنے کے لیۓ بنتے ہیں مگر زندگی کے سب پہلو مدنظر رکھنے چاہیں، عورت جب معاشی طور پر خود مختار ہو گی تو وہ اپنی ذات کی حفاظت بہتر طور پر کر سکتی ہے ،اپنی بیٹیوں کو پاٶں رکھنے کے لیۓ تھوڑی سی زمین کسی دکان یا مکان کی صورت میں ضرور دیں جس کا علم سسرال والوں کو نہ ہو۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...