وقت قیمتی سرمایہ ہے۔آپ کا ایک ایک سیکنڈ اہم ہے۔اور اگر اس سیکنڈ کو اہمیت دے کر کام کرنا شروع کر دیں تو آپ جتنا کامیاب کوئی نہیں ہو سکتا۔
اگر آج کے دور کی بات کی جاۓ تو آج کل ہم میں سے بیشتر لوگ اپنا زیادہ تر وقت سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں جس کا فائدہ تو خاص نہیں البتہ نقصان کی فہرست لمبی ہو سکتی ہے۔
دنیا کی ہر چیز خریدی جا سکتی ہے لیکن وقت ایسا سرمایہ ہے۔ جو خرید نہیں سکتے بلکہ جیسے جیسے گزرتا جاتا ہے وہ ہمارے ہاتھوں سے نکلتا جاتا ہے اور دوبارہ کبھی ہاتھ نہیں آتا ۔ آج ہر طرف بے روزگاری ہے نوجوان سولہ سالہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی بے روزگار ہیں ۔
نوکریاں نہیں ہیں اگر ملتی ہیں تو وہ کولیفائیڈ نہیں کر پاتے کیونکہ تعلیم بھی صرف براۓ نام جو حاصل کی جاتی ہے۔ پڑھائی کے وقت پڑھتے نہیں ہیں تو ملازمت کی ریکوائرمنٹ پوری ہی نہیں کر پاتے۔
کہتے ہیں وقت کامیابی کی کنجی ہے بلکہ وقت پر کام کامیابی کی ضمانت ہے۔
روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ بھی محنت ،توجہ اور ایمانداری سے کام کریں تو بہت حد تک کامیاب ہو سکتے ہیں۔
وہ کام ہماری پڑھائی بھی ہو سکتی ہے۔ ایک وکیل کے لیے اپنے پیشے سے مکمل آگاہی ہو سکتی ہے۔ کسی سوشل ورکر کے لیے بہتری کے کام بھی ہو سکتے ہیں ۔
ہمیں زندگی میں کچھ کرنا ہے آگے بڑھنا ہے تو اس کا بہترین حل یہی ہے کہ اپنے وقت کا اچھا استعمال کریں ۔اس کی قدر کریں ہمارے پاس اوسط عمر کوئی 60،70 سال ہے جس میں سے 30 ہم بغیر سوچے گزار دیتے ہیں اور باقی کی عمر مختلف بیماریوں کی لپیٹ میں گزار کر دنیا سے بغیر سیکھے گزر جاتے ہیں ۔ ان ہی وجوہات کی بنا پر ہم باقی دنیا سے پیچھے ہیں ۔
ہمیں وقت کو پلین کرکے کام کو تقسیم کرنا چاہیئے ۔کام کو بوجھ نہیں بلکہ خوشی سے اپنی عادت کا حصہ بنا لینا چاہیئے اور جو چیز عادت بن جاتی ہے وہ پھر بوجھ نہیں ہوتی بلکہ روٹین کا حصہ بننے کی وجہ سے ہم آسانی سے اس پر عمل کر سکتے ہیں ۔
آ پ نے دیکھا ہوگا ایک ہی عمر کے لوگ فیکٹریوں کے مالک ہوتے ہیں اور اسی عمر کے لوگ سبزی فروش بھی ہوتے ہیں۔
اس میں فرق صرف وقت کے استعمال کا ہے جس نے قدر کرکے فائدہ اُٹھایا وہ آ گے بڑھ گیا اور جو وقت کی اہمیت نہ سمجھ سکا وہ زمانے کا دھول بن گیا۔
آپ اپنے لیے غریبی کی زندگی یا آرائش سے بھر پور خوبصورت زندگی ۔اگر تو اچھی زندگی گزارنے کا خواب ہے تو دیر کیے بغیر اپنے وقت سے حساب لینا شروع کردیں یقین جانئیے پتا بھی نہیں چلے گا اور ایک خوشگوار زندگی سنور کر مل جاۓ گی۔اور دنیا آپ کے پیچھے ۔
کامیاب ہونے کے لیے تھوڑی دیر کے فائدے کو نہ دیکھیں بڑا فائدہ اگرچہ بعد میں پر اعتماد سے بس وقت پر کام کرتے جائیں۔
مناسب وقت پر مناسب فیصلے کرنا بھی ایک بہترین عمل ہے۔اپنے دماغ کو وقت کے مطابق چلانا سکھائیں ۔
ہم اپنا وقت حال کی بجاۓ ماضی اور مستقبل میں گزارنے کے عادی ہیں۔
یہ بات جانتے ہوۓ بھی کہ ہر نظام وقت کے
تابع ہے ۔دن رات ،سردی گرمی،بادل بارش اکثر ایسا ہوتا ہے بارش کے آثار نہ ہونے کے باوجود بارش کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں۔ مطلب انسان چاہتا ہے جو وہ خواہش کرے فوراً پوری ہو قدرت کے نظام کو نظرانداز کر دیتا ہیں۔
اسی طرح فرض کریں اکثر طالب علم اچھی نوکری کے خواب دیکھتے رہتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ اچھی نوکری اچھے سے پڑھائی کرنے سے ملے گی نہ کہ صرف خواب دیکھنے سے۔وقت پر کام سے خواب اور سوچ سے زیادہ بہتر جاب مل سکتی ہے۔
جوانی میں وقت ہوتا ہے،انرجی ہوتی ہے خواب ہوتے ہیں اگر ان سب سے فائدہ اُٹھایا جاۓ تو ایک انسان کی بلکہ کئی نسلوں کی زندگی سنور سکتی ہیں۔
بڑھاپے میں طاقت نہیں ہوتی پر وقت بہت کٹھن ہوتا ہے ۔ کیونکہ وقت پر وقت کو سمجھا نہیں گیا۔
اسی طرح ہمارے پاس جو رشتے ہیں ان کی قدر بھی ضروری ہے کیونکہ جیسے جیسے زندگی میں آگے بڑھتے ہیں وہ رشتے پیچھے چھوڑتے جاتے ہیں۔کسی ضرورت مند کی وقت پر ضرورت پوری کرنے پر وہ آپ کا احسان کبھی نہیں بھولے گا۔ بالکل اسی طرح کسی کی ضرورت تب پوری کریں جب اُسے تو ضرورت نہ ہو پر آپ تب ضرورت پوری کریں جب آپ مناسب سمجھیں تو آپ کی اس امداد کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔
ٹھیک وقت پر لیا گیا فیصلہ زندگی بدل سکتا ہے اور غلط وقت پر لیا گیا فیصلہ نقصان کا باعث بنتا ہے۔
اسی طرح وقت کی بارشیں فصلوں پر رحمت بن جاتی ہیں اور بے وقت ہونے سے زحمت اس سے وقت کی قدر کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے۔
اسی طرح ملازمت کے لیے بھی عمر کی حد مقرر کی جاتی ہے۔
اگر آ پ کے پاس علم ہو مگر ڈگری بہت دیر سے کی ہو اور ملازمت کے لیے عمر کے معیار پر پورا نہ اتر سکے تو کیا ملازمت کے اہل ہونگیں ۔
انسان پیدائش سے بڑھاپے تک اس کی زندگی کی بھی وقت کے ساتھ تقسیم ہوتی ہے جیسے بچپن ،جوانی،بُڑھاپا،گویا زندگی کا لمحہ لمحہ وقت کے تابع ہے۔نہ کوئی وقت سے پہلے جوان ہو سکتا ہے اسی طرح نہ کوئی وقت سے پہلے بوڑھا ہو سکتا ہے۔ایک طریقہ کار ہے زندگی اور وقت کا تو ہمیں سمجھ کر اس کے تابع چلنا ہوگا اور یہی زندگی ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...