وہ ایٹم جو ہمارے جسم میں ہیں، وہ ایٹم جن سے زمین پر زندگی کا وجود ہے۔ وہ زندگی جو اربوں سالوں کے ارتقاء کے بعد انسان ہر منتج ہوئی۔ وہ ایٹم آج سے اربوں سال پہلے ستاروں کی وسیع بھٹیوں میں بنے وقت کے ہنر سے بنے۔ وہ ستارے جن میں فیوژن کے عمل سے گزر کر ہائیڈروجن کے سادہ ایٹم مخلتف عناصر کے ایٹم بنے۔ کاربن، آکسیجن ، نائیٹروجن ، فاسفورس جو آج ہمارے ڈی این اے کی بنیاد ہیں۔
وہ ایٹم جو ہم خوراک کی صورت میں کھاتے ہیں، ہوا کی صورت ہر لمحہ سانس میں لیتے ہیں، پانی کی صورت پیتے ہیں، وہی ایٹم اربوں سال پہلے کئی ستاروں کے انجام پر انکے پھٹنے سے خلاؤں کی وسعتوں میں گرد راہ ہوئے، جس سے نئے ستاروں نے جنم لیا جنکے گرد سیارے بنے، انہی انجام کو پہنچے ستاروں کے ایٹموں سے، جو نبیولا کی صورت خلاؤں میں موجود تھے ۔
یہ بات کا قدر دلچسپ ہے کہ ممکنا طور پر ماضی میں ہمارے دائیں ہاتھ کے ایٹم کسی اور ستارے میں بنے ہوں اور بائیں ہاتھ کے کسی اور
ستارے میں جبکہ ان ستاروں کے بیچ ہزاروں نوری سالوں کا فاصلہ ہو، وہ فاصلہ جسے ہم عمرِ خضر میں بھی ۔ہ طے کر پائیں مگر اب وقت نے ان ستاروں کے ایٹموں کا
فاصلہ محض ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کا کر دیا ہے۔
ہم کائنات میں کس قدر چھوٹے ہیں مگر دراصل ہم میں پوری کائنات بستی ہے۔ ہمارے اور کائنات کے درمیان یہ رشتہ ایٹموں کا ہے۔ ایٹموں کے سفر کا۔ مگر اس سے بڑھ کر اس ادراک کا جو ہمیں سائنس نے بخشا ہے۔یہ رابطہ کتنا مضبوط ہے۔ یہ رابطہ کس قدر مشترک ہے۔
سیک لمحے کو تصور کیجئے کہ کائنات دراصل ہم میں ہے اور ہم کائنات میں۔
تو پھر ہم بے وقعت کیسے؟ جب ہم ہی کُل کائنات ہیں اور پھر ہم بے وقعت کیسے کہ کائنات ہی ہم میں بسی ہے۔ ایٹموں کی صورت۔ کائنات کے سادہ اُصولوں کی صورت۔ کائنات اگر ایک درخت ہے تو ہم اسکا پھل۔ تو کیا پھل اور درخت
ایک دوسرے کے بغیر مکمل ہیں؟
ہم انسان اس کائنات کا حصہ ہیں۔ ہم اس سے الگ نہیں ۔ اس رشتے کا کوئی نام نہیں مگر یہ رشتہ ہمیں خلا کی ویرانیوں میں اکیلے پن کے احساس کو زائل کرنے میں مدد گار ہے۔
ایک روز ہم نے خاک ہو جانا ہے ۔ ہمارے ایٹموں نے بکھر جانا ہے۔ اور جب تک کائنات ہے تب تک ہمارے ایٹم اس میں موجود ہیں۔
آج سے اربوں سال بعد جب نہ زمین ہو گی اور نہ سورج تو وہ ایٹم جن سے آج ہم بنے ہیں خلاؤں میں بکھر چکے ہونگے، طویل فاصلے طے کر چکے ہونگے اور ممکن ہے ان سے کوئی اور نظامِ شمسی بن چکے ہوں، کئی اور زمینیں بنیں، جن پر ہم جیسی کوئی مخلوق ہو۔ جو خواہشات اور جذبات رکھتے ہوں ویسے ہی جیسے ہم رکھتے ہیں۔
کسی کو محبوب کا انتظار ہو، تو کسی کو اچھی نوکری کا، کوئی صحت چاہتا ہو، کوئی بہتر تعلیم ۔۔کیا معلوم !!
کائنات کا یہ نظام ایٹموں کی ری سائکلنگ سے ایک پیچیدہ صورت سے دوسری پیچدہ صورت میں بدلتا ہو۔
وقت جو اس زندگی کا قاتل ہے، یہی وقت کائنات کا سب سے بڑا مصور بھی ہے جو اسکے کینوس میں کئی رنگ بھرتا ہے۔اسکے ایک برش سٹروک سے کیا کیا رنگ، کیا کیا صورتیں پردۂ تخیل سے حقیقت کا سفر طے کرتی ہیں۔
وقت پکاسو ، وان گوخ اور صادقین سے بڑا مصور ہے جس میں جدیدیت بھی ہے اور قدامت بھی۔ رنگ بھی ہیں اور سفیدی بھی۔
وقت میگنس کارلسن سے بھی بڑا شطرنج کا کھلاڑی ہے اور کائنات شطرنج کی ایسی بساط جس میں دونوں طرف وقت ہی کھیلتا ہے۔ اور ہم اس شطرنج کے پیادے کبھی ایٹموں کی صورت ایک کہکشاں کے خانے میں تو کبھی دوسری۔ کبھی ایک سیارے کی آغوش میں تو کبھی دوسرے۔
کائنات اور ہمارا کھیل ابدی ہے۔ تب سے جب سے وقت ہے، تب تک جب تک وقت ہے!!
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...