وقت یا زمان میں سفر کا مفہوم یہ ہے کہ مکان کی طرح زمان میں بھی زمان کے مختلف نقاط میں آگے یا پیچھے منتقل ہوا جائے، وقت میں سفر کے بعض تصورات میں متوازی کائناتوں تک منتقلی کو بھی ممکن قرار دیا گیا ہے، انیسوی صدی کی سائنس فکشن کہانیوں میں بھی وقت میں سفر کو ممکن قرار دیا گیا، ماضی میں نظریہ اضافیت کے پیش نظر وقت میں سفر صرف مستقبل کی طرف ہی ممکن سمجھا گیا تاہم بعض جدید اور آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت پر تحقیق سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ وقت میں ماضی کی طرف سفر ممکن نہیں ہے.
وقت میں سفر کے خیال نے علماء کو مدتوں تک اپنی طرف متوجہ کئے رکھا جو خیال سے زیادہ پاگل پن معلوم ہوتا تھا تاہم نظریہ اضافیت کی آمد کے بعد یہ خیال سنجیدگی سے لیا جانے لگا اور ہر کس وناکس نے اس پر اپنے خیالات کا اظہار کیا تاہم اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی وقت میں سفر کر سکتے ہیں؟؟ نظریاتی وطبیعاتی طور پر یہ خیال بالکل درست ہے، یہ ثابت ہوچکا ہے کہ جو گھڑیاں تیزی سے حرکت میں ہوں ان میں وقت کا فرق گھڑی کی ترکیب کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتا، جیسے خلاء نورد جب زمین پر واپس آتے ہیں تو خلاء میں ان کے رہنے کے مدت اس زمانی مدت سے کم ہوتی ہے جو ہم زمین پر ریکارڈ کرتے ہیں مگر یہ فرق انتہائی کم ہوتا ہے.
عمومی نظریہ اضافیت جس نے زمان کو تین مکانی ابعاد کے ساتھ چوتھے بعد کے طور پر شامل کیا کہتی ہے کہ زمان اور مکان ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور ان میں سے کوئی بھی دوسرے سے الگ نہیں ہوسکتا، ہم سب جانتے ہیں کہ ہم ان تین مکانی ابعاد میں آزادی سے حرکت کر سکتے ہیں، ہم آگے پیچھے، دائیں بائیں، اور اوپر نیچے بھی حرکت کر سکتے ہیں اور آلات میں سوار ہوکر (جیسے ہوائی جہاز) تیسرے بعد یعنی اونچائی میں بھی جاسکتے ہیں ابعاد میں منتقلی کے اس آسان سے حقیقی تصور سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وقت میں بھی ہم اسی طرح سفر کر سکتے ہیں، ہمیں بس ایک ایسے آلے یا سواری کی ضرورت ہے جو ہمیں روشنی کی رفتار کے قریب رفتار سے سفر کرا سکے تاکہ ہم وقت کے سمٹاؤ کو محسوس کر سکیں.
یعنی ہم جتنا روشنی کی رفتار سے قریب ہوں گے وقت سست ہوتا جائے گا، اور اگر کوئی شخص روشنی کی رفتار سے زمین کے گرد چکر لگا کر واپس آئے تو وہ دیکھے گا کہ زمین پر جو وقت گزرا ہے وہ اس وقت سے زیادہ ہے جو اس پر سفر کے دوران گزرا ہے، یہ ایک بنیادی اور طبیعاتی تناظر (Symmetries in Physics) کے حساب سے بالکل درست تصور ہے، اور اگر ہم فرض کریں کہ کوئی خلاء نورد 25 سال کی عمر میں اپنے 22 سالہ چھوٹے بھائی کو زمین پر چھوڑ کر خلاء کے سفر پر روانہ ہوگیا ہے اور اپنے خلائی جہاز کے وقت کے حساب سے دس سال تک سفر پر رہا ہے تو زمین پر واپسی پر اس کی عمر 35 سال ہوگی مگر اس کا چھوٹا بھائی چالیس یا پچاس سال کی عمر کا ہوگا (خلاء نورد کے خلائی جہاز کی رفتار کے حساب سے) !! کیونکہ متحرک خلائی جہاز پر زمین کی نسبت وقت سمٹ گیا، اور یہی وقت میں سفر کا حقیقی تصور ہے!
خصوصی نظریہ اضافیت یہ فرق اس مساوات سے واضح کرتا ہے:
مشاہدہ کار کی گھڑی کے مطابق دو واقعات کے درمیان وقت.
انہی دو واقعات کے درمیان کا وقت جو خلائی جہاز میں سفر کرنے والا خلاء نورد نوٹ کرتا ہے جو v کی رفتار سے سفر کر رہا ہے.
v مشاہدہ کار اور خلائی جہاز پر سوار خلاء نورد کے درمیان اضافیتی رفتار.
c روشنی کی رفتار.
اس مساوات سے واضح ہوتا ہے کہ خلائی جہاز کی گھڑی سست روی سے چل رہی ہے.
زمین پر ہماری رفتاریں یہ فرق واضح کرنے کے لئے انتہائی کم ہیں، یہ ہم تبھی نوٹ کر سکتے ہیں جب ہم روشنی کی 1/10 رفتار سے سفر کریں.
عمومی اضافیت کے تاریخی تجربات
1971ء میں علماء نے زمان کی اضافیت پر ایک تجربہ کیا، انہوں نے سیزیم (Caesium) کی چار گھڑیاں ایسے جیٹ جہازوں پر رکھ دیں جو دنیا کے گرد مسلسل سفر پر رہتے تھے، اور جب ان گھڑیوں کے ریکارڈ کردہ وقت کا موازنہ امریکی بحریہ کی رصدگاہ کی گھڑی سے کیا گیا تو معلوم ہوا کہ جہازوں پر وقت معمولی سے فرق کے ساتھ زمین کے وقت کی نسبت سست تھا جو خصوصی اضافیت کے قوانین کے بالکل مطابق تھا.
1976ء میں ایک ہائیڈروجن گھڑی ایک راکٹ میں رکھ کر اسے زمین کی سطح سے 10000 کلو میٹر کی اونچائی تک بھیجا گیا جہاں زمین کی سطح کی نسبت کشش کم ہوتی ہے، پھر راکٹ کی ہائیڈروجن گھڑی کے اشاروں (سگنل) کا موازنہ زمینی گھڑیوں سے کیا گیا جس سے پتہ چلا کہ زمینی گھڑی راکٹ پر موجود گھڑی کی نسبت سیکنڈ کے دس ہزار ملین کے ایک حصہ کے 4.5 حصہ تیز ہے جو عمومی اضافیت کے پیش گوئیوں کے عین مطابق تھا، یاد رہے کہ جدید ہائیڈروجن گھڑیوں میں غلطی کا تناسب تین ملین سالوں میں ایک سیکنڈ ہے، یہ قیاسات بلا شبہ زمان کے پھیلاؤ کا ثبوت ہیں جو اضافیت کی اہم پیشگوئیاں ہیں.
زمان کا پھیلاؤ
اس سیاق میں زمان کا پھیلاؤ کوئی دقیق (چھوٹے) غیر ایٹمی اجسام کے لئے مخصوص طبیعاتی نظریاتی مفہوم نہیں ہے، بلکہ یہ اس حقیقی وقت کا پھیلاؤ ہے جس میں انسان رہتا ہے، اوپر کی مساوات سے واضح ہوتا ہے کہ زمان زمین پر مشاہدہ کرنے والے کے لئے پھیل جاتا ہے (اس کی گھڑی کے مطابق) جبکہ خلائی جہاز میں سفر کرنے والے خلاء نورد کے لئے سمٹ جاتا ہے (اس کی گھڑی کے مطابق)، تو اگر کسی انسان کی رفتار روشنی کی 87% رفتار تک بڑھ جائے (کسی خلائی جہاز میں بیٹھ کر) تو اس کے ہاں وقت 50% تک سست پڑ جائے گا، اور اگر وہ اسی رفتار میں دس سال تک سفر کرتا رہے تو زمین پر واپسی پر اس کا نو مولود بیٹا بیس سال کی عمر تک پہنچ سکتا ہے اور اس کا جڑواں بھائی اس سے دس سال بڑا ہوسکتا ہے، چنانچہ زمان کا پھیلاؤ اور زمان میں سفر ان معنوں میں بالکل اسی طرح حقیقت ہے جس طرح زمین گول ہے اور مادہ ذروں (ایٹم) پر مشتمل ہے اور ذرے کا دل چیرنے سے خورشید کا لہو ٹپک سکتا ہے.. !!
مزید یہ کہ روشنی سے قریب رفتار میں سفر کرنا طبیعاتی اور تکنیکی اعتبار سے اب ممکن سمجھا جانے لگا ہے، مشہور عالم کارل ساگان (Carl Sagan) کا خیال ہے کہ ایسا کچھ سو سالوں میں ممکن ہوجائے گا، چنانچہ اب ایک روسی – امریکی کونسورٹئم (consortium) وجود میں آگیا ہے جس کی قیادت امریکی عالم کیپ تھورن (Kip S. Thorne) اور روسی عالم ایگور نوویکوو (Igor Dmitriyevich Novikov) کر رہے ہیں جس کا مقصد وقت میں سفر کے آلہ پر تحقیق کرنا ہے اور وقت میں سفر کو ممکن بنانا ہے!
خلاء کا خم اور عمومی اضافیت
اقلیدسی ہندسہ (Euclidean geometry) میں ٹیڑھے خطوط کے بیان کے لئے چپٹی سطح کا استعمال کیا جاتا تھا جسے plane geometry کہا جاتا ہے جو اب بھی ثانوی مدارس (secondary school) میں پڑھائی جاتی ہے، اس ہندسہ کے مطابق فضاء ایک ابعادی ہے، مگر صرف یہی ایک ممکنہ ہندسہ نہیں تھا، 1828ء میں لوباچویسکی (Nikolaï Ivanovitch Lobatchevski) نے غیر اقلیدسی ہندسہ متعارف کرایا پھر ولیم کلیفرڈ (William Kingdon Clifford) نے 1870ء میں اسے ترقی دی اور خیال کیا کہ ہوسکتا ہے کہ کائناتی فضاء چار ابعادی ہو مگر اس کے تصور کو صرف ایک درست طبیعاتی مساوات کی ضرورت تھی جو 45 سال بعد عمومی نظریہ اضافیت کے طور پر سامنی آئی، فضاء میں چوتھا بعد سوائے زمان کے اور کچھ نہیں تھا جبکہ فضاء کا خم اجسام کی کشش کی وجہ سے ہوتا ہے.
اضافیت نے کائنات کو دیکھنے میں ہمارے نظریہ میں بنیادی تبدیلی پیدا کی، زمان ومکان واقعات کا مستقل پس منظر نہیں ہے بلکہ یہ دونوں کائنات کی حرکیات (Dynamics) میں اہم حصہ دار ہیں، اضافیت کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ اس نے تین مکانی ابعاد میں زمانی بعد کو شامل کر کے زمان-مکان تشکیل دیا، اس نظریہ نے بتایا کہ کس طرح زمان-مکان تجاذب کے اثر سے خم کھا جاتے ہیں اور چپٹے نہیں رہتے، اور چونکہ زمان-مکان خم دار ہے چنانچہ اجسام کے راستے بھی خم دار ہیں اور اس طرح حرکت کرتے ہیں گویا کسی کشش سے متاثر ہوں، زمان-مکان کا خم صرف اجسام کے راستوں کو ہی خم نہیں دیتا بلکہ یہ روشنی کو بھی خم دے دیتا ہے.
وقت میں سفر اور سیاہ شگاف
1916ء میں جب عمومی اضافیت پیش کی گئی اور زمان-مکان کے خم کا تصور سامنے آیا، اسی سال جرمن فلکیات دان کارل شوارزچائلڈ (Karl Schwarzschild) نے ثابت کیا کہ اگر (ک) کی کمیت کو اس کے نصف قطر تک دبا دیا جائے تو زمان-مکان کا خم اتنا بڑھ جائے گا کہ کسی قسم کا کوئی بھی اشارہ چھوٹ نہیں پائے گا جس میں روشنی بھی شامل ہے اور ایک ایسا علاقہ تشکیل پائے گا جو نظر نہیں آسکے گا جسے بعد میں سیاہ شگاف کا نام دیا گیا، یہ تب ہوتا ہے جب سورج سے دگنی کمیت رکھنے والا کوئی ستارہ ڈھیر ہوکر اپنی کشش کے تحت بھنچ کر اس قدر دب جائے کہ ستارے کا سارہ مادہ ایک لامتناہی کثافت کے نقطہ پر جمع ہوجائے، چنانچہ روشنی کی کوئی بھی لہر یا کوئی جسم جو اس کے واقعاتی افق کی طرف بھیجا جائے تو وہ سیاہ شگاف کے مرکز تک کھینچ لیا جائے گا، نظریاتی طور پر لگتا ہے کہ سیاہ شگاف کے نزدیک جانے پر زمان-مکان کا خم اتنا بڑھ جاتا ہے کہ وہ اس کے واقعاتی افق تک پہنچا دیتا ہے جس کے ماوراء کچھ نہیں دیکھا جاسکتا، اگرچہ اس قسم کی صفات کے حامل ستارے کا خیال جون مچل (John Michell) کو جاتا ہے جس نے اسے 1783ء میں پیش کیا تھا تاہم شوارزچائلڈ نے ڈھیر ہوکر سیاہ شگاف بننے والے ستاروں کے نظریہ اضافیت کی بنیاد پر ریاضیاتی حل پیش کئے، بعد میں پتہ چلا کہ شوارزچائلڈ نے سیاہ شگاف کا ایک ہی حل دریافت نہیں کیا تھا بلکہ دو حل دریافت کئے تھے، جو مساواتیں یہ بتاتی ہیں کہ سیاہ شگاف میں داخل ہونے والا جسم کس طرح ڈھیر ہوگا وہی مساواتیں متبادل کے طور پر یہ بھی بتاتی ہیں کہ سیاہ شگاف سے نکلنے والے جسم کے ساتھ کیا ہوگا (اس صورت میں اسے سفید شگاف کہا جاتا ہے)، اس طرح لگتا ہے کہ اگر ہم سیاہ شگاف کے اندر زمان-مکان کے خم کا پیچھا کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک بار پھر کسی دوسرے زمان-مکان میں کھل رہا ہے، گویا سیاہ شگاف ہماری کائنات کے زمان-مکان کو کسی دوسرے زمان-مکان سے باندھ رہا ہو، شاید کسی دوسری کائنات کا زمان-مکان.
مسئلہ یہ تھا کہ سیاہ شگاف میں گرنے والا کوئی بھی مادہ اس کی اکائی میں گر کر اس طرح تباہ ہوگا کہ ہم اسے سمجھ ہی نہیں پائیں گے، مگر تحقیق کے آگے بڑھنے سے اس مسئلہ کا حل بھی دریافت کر لیا گیا، یہ ثابت ہوچکا ہے کہ کائنات کے تمام اجسام گھومتے ہیں چاہے وہ کہکشائیں ہوں، ستارے ہوں یا سیارے، چنانچہ ہم امید کر سکتے ہیں کہ سیاہ شگاف بھی اسی طرح گھومتے ہوں گے، چنانچہ سیاہ شگاف کے گھومنے کے اثر سے اس میں داخل ہونے والا کوئی بھی جسم اس کی اکائی سے ٹکرا کر تباہ ہوئے بغیر دوسری طرف نکل سکتا ہے، 1963ء میں روئے کِر (Roy Kerr) نے آئن سٹائن کے گھومتے سیاہ شگافوں کی مساواتوں کے کچھ حل پیش کئے جن میں واضح کیا گیا کہ اصولی طور پر ایک گھومتے سیاہ شگاف میں داخل ہوکر ایک راستے کے ذریعہ اس کی تباہ کن اکائی سے ٹکرائے بغیر دوسری طرف نکلنا ممکن ہونا چاہئے جو بظاہر کسی دوسری کائنات یا ہماری ہی کائنات کے کسی دوسرے زمان-مکان میں جا نکلے گا، سیاہ شگاف ایک راستہ تشکیل دیتے ہیں جسے ورم ہول کہا جاتا ہے چنانچہ سیاہ شگاف کو استعمال کرتے ہوئے کائنات اور زمان کے مختلف حصوں میں ماضی کی طرف سفر کرنے کے کافی امکانات ہیں.
علماء کا اختلاف
وقت میں ممکنہ سفر کے تصوراتی نظریات نے اس کے تضادات پر بھی ایک لا ینحل بحث چھیڑدی، جیسے کوئی ماضی میں جاکر اپنی ماں کے پیدا ہونے سے پہلے اپنی نانی کو مار دے!! یا تاریخ پر اثر انداز ہوکر جنگوں کو روک دے وغیرہ.. بعض علماء کا خیال ہے کہ متوازی تاریخ کے مفہوم سے ان تضادات کا حل نکالا جاسکتا ہے، جیسے ہر امکان کے مستقل واقعات چنانچہ ماضی میں دنیا کے واقعات تبدیل کرنے پر وہ ایک مستقل اور متوازی دنیا بن جائے گی، تاہم یہ بحث ابھی تک علمی سے زیادہ فلسفیانہ رخ اختیار کئے ہوئے ہے کیونکہ ابھی تک کسی نے بھی ماضی کا سفر نہیں کیا ہے، سیاہ شگافوں اور کائنات کی تخلیق پر تحقیق کے حوالے سے مشہور عالم سٹیفن ہاکنگ کا خیال ہے کہ ماضی کا سفر دقیق تر درجہ پر ممکن ہے تاہم کسی کائناتی خم سے استفادہ کرتے ہوئے کسی ٹائم مشین کے ذریعہ ماضی کے سفر پر جانے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے، وہ اسے زمانی تسلسل کی حفاظت کانام دیتے ہیں جس کے مطابق طبیعاتی قوانین وقت میں سفر کے خلاف سازش کرتے ہیں، درحقیقت وقت میں سفر کے امکان پر علماء میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے اور زیادہ تر کا خیال ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے، سٹیفن ہاکنگ کہتے کہ کیپ تھورن (Kip Thorne) پہلے سنجیدہ عالم ہیں جو وقت میں سفر کے علمی امکانات پر تحقیق کر رہے ہیں، ان کا خیال ہے کہ بہر صورت اس کا فائدہ ہی ہے، کم سے کم ہم یہ تو جان سکیں گے کہ وقت میں سفر کیوں ممکن نہیں ہے؟.
وقت کا سفر سائنس فکشن میں
وقت میں سفر ایک کلاسیکی خیال تھا جو سائنس فکشن کہانیوں میں پیش کیا گیا تھا، اس سلسلہ میں انگریز ادیب ایچ جے ویلز کی 1895ء میں شائع ہونے والی کہانی ”ٹائم مشین” کافی شہرت رکھتی ہے، اس حوالہ سے سب سے اچھی کہانی جو میں نے پڑھی تھی وہ مستقبل کی ایک ٹریول ایجنسی کے گرد گھومتی ہے جو ماضی کے سیاحتی سفر منظم کرتی ہے تاکہ سیاح ماضی میں زمین پر پیش آنے والے تاریخی واقعات اور حادثات کا براہ راست مشاہدہ کر سکیں، چنانچہ سیاح کو ماضی میں لے جاکر براہ راست امریکا کی سول جنگ (American Civil War) دکھائی جاتی ہے، پھر تھوڑا سا آگے لے جاکر ہیروشیما پر ایٹم بم گرانے کا واقعہ دکھایا جاتا ہے، پھر سیاح ساٹھ کی دہائی میں منتقل ہوتے ہیں تاکہ صدر کینیڈی کو قتل ہوتا دیکھ سکیں!!
ٹائم مشین سمیت ایسی بہت ساری کہانیوں پر فلمیں بھی بنیں.
اسبابِ مخالفت
– اگر کوئی ماضی میں پہنچ جائے تو یہ کیونکر ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ ایسے وقت میں جا موجود ہو جس میں اس کا باپ نہیں تھا جو منطقی اور فلسفی دونوں طور پر نا ممکن امر ہے کیونکہ معلول علت سے پہلے نہیں آسکتا بالکل جس طرح بیٹا باپ سے پہلے نہیں آسکتا؟
– اگر وقت میں سفر ممکن ہے تو آج تک کوئی مستقبل سے کیوں نہیں آیا؟ جبکہ وہ ہم سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہوچکے ہوں گے..؟
– کیا کوئی اپنے پوتوں پڑپوتوں کے وقت میں زندہ رہ سکتا ہے جبکہ وہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے؟ یا اپنے باپ داداؤں کے زمانے میں جاسکتا ہے جبکہ وہ خود ابھی پیدا ہی نہیں ہوا؟
– کیا کوئی مادی جسم ایک ہی وقت میں دو مقامات پر موجود ہوسکتا ہے؟
– کیا ہو اگر کوئی شخص اپنے بچپن میں جاکر اپنے آپ سے ہی ملاقات کر لے؟
“