ڈرائیور نے ویگن ہلکی سی آگے بڑھائی، سامنے میں کھڑا تھا میں نے زور اور غصے سے ڈرائیور کی بائیں طرف سکرین پہ زور سے ہاتھ مارا
" رُک "
سب کچھ رک گیا تھا اس لمحے میں، وہ لمحہ ہی رک گیا تھا
آتے جاڑے کے دن تھے جن دنوں دھوپ مدہوش جوانی سی اترتی ہے، ہم سب ہر روز کی طرح صبح صبح گورنمنٹ ڈگری کالج کے وسیع گراؤنڈ میں دھوپ سینک رہے تھے جب سالک منہ لٹکائے ہمارے پاس آن کھڑا ہوا
"کیوں سالے، اتنی صبح تیرے بارہ کس نے بجا دئیے؟"
عارف کی بات پہ سب ہنس دئیے مگر سالک کے منہ پہ بارہ بج کے ایک منٹ ہو گئے
"وہ اے جے کے تینتیس تیرہ نے مجھ سے کرایہ لیا ہے، وہ بھی پورا.."
اس بات پہ سب سنجیدہ ہو گئے،
"تو نے بتایا نہیں کہ تو سٹوڈنٹ ہے؟ “
بارہ بج کے دو منٹ ہو گئے
" بتایا تھا، آگے سے کنڈیکٹر کہتا ہے یہ بدمعاشی میرے ساتھ نہیں چلے گی، کرایہ دے ورنہ یہیں راستے میں اتار دوں گا ٹھڈے مار کے، میں نے دے دیا"
میں نے گود پہ دھری چادر کمر کے پیچھے سے لا کے سامنے سے دونوں کندھوں ڈالی اور قمیض جھٹک کے کھڑا ہو گیا
"تینتیس تیرہ ابھی گیا ہے یہاں سے، دس منٹ میں واپسی ہے اس کی. چلو آ جاؤ سڑک پہ.."
سب اٹھ کھڑے ہوئے
" کنڈیکٹر کی طبیعت ایسے صاف کرنی ہے جیسے ایریل کپڑوں کی صفائی کرتا ہے، طبیعت سے"
ہم سب سڑک کے دونوں طرف کھڑے ہوگئے… تبھی سالک چیخا
"وہ… وہ تینتیس تیرہ ہے، یہی ہے"
سب الرٹ ہو گئے…. میں نے شمشیر کو ساتھ لیا اور بیچ سڑک میں گاڑی رکوا تھی… لڑکے کنڈیکٹر والا مسافر دروازہ کھول کے کنڈیکٹر پہ پل پڑے
ڈرائیور نے ویگن ہلکی سی آگے بڑھائی، سامنے میں کھڑا تھا… میں نے زور اور غصے سے ڈرائیور کی بائیں طرف سکرین پہ زور سے ہاتھ مارا
" رُک "
سب کچھ رک گیا تھا اس لمحے میں، وہ لمحہ ہی رک گیا تھا..زمان و مکاں ساکت، سارا جہاں ساکت ہو گیا تھا… جب میں نے سکرین پہ زور سے ہاتھ مارا تو "پیسنجر سیٹ" پہ اپنی ماں کے ساتھ بیٹھی وہ دبک گئی تھی… سفید برق لباس میں اس خوفزدہ ہرنی کی آنکھوں والی کے چہرے کو جیسے نور کے ہالے نے لپیٹ رکھا تھا.. سفید دوپٹے سے کالی سیاہ رات جیسے بالوں کی ایک لٹ، الجھی الجھی سی دائیں آنکھ کے پاس انگور کی بیل کی طرح لٹک رہی تھی… میرا ہاتھ سکرین پہ دھرا تھا اور گاڑی روکتے روکتے میں انجانے میں وقت روک بیٹھا تھا… اس کی آنکھوں میں خوف دھیرے دھیرے دھندلانے لگا تھا، کیا تھا اس کی آنکھوں میں، کیا نہیں تھا ان آنکھوں میں… جیسے وہ آنکھیں مجھے کہہ رہی ہوں،
"چل چھوڑ دے وقت کی کلائی سُودے ، جانے دے ناں"
اور میں نے ہاتھ سکرین سے اٹھایا اور چیخا
"چھوڑ دو جانے دو…. بس…. بس بس… جانے دو"
جانے کیا تھا اس وقت میرے چہرے پہ، سب ٹھٹھک کے رک گئے..
شمشیر نے مجھے ہلا کے سڑک سے ہٹایا
"سُودے، تُو ٹھیک ہے ناں، تیرا تو چہرہ ہی بدل گیا ہے"
میں سڑک کنارے کھڑا ایک ہاتھ سے "جانے دو، جانے دو" کے اشارے کر رہا تھا اور ویگن ہلکی ہلکی آگے بڑھنے لگی، اس نے پاس سے گزرتے گردن بائیں طرف موڑی، میری طرف دیکھا، ویگن آگے بڑھ گئی..
اس کی آنکھیں، میرے لوحِ دل پہ نقش ہو گئیں، میں کوئی شاعر نہیں کہ ان آنکھوں کے کہے چند حروف کو قصیدوں میں پرو سکوں نہ ہی کوئی ادیب کہ لفظوں کے پیچ و خم سے بتا سکتا کہ وہ آنکھیں آخری بار جاتے جاتے کیا کہہ گئی تھیں.. وہ آنکھیں جیسے آسمانی صحیفہ تھیں جن پہ گِن کے چودہ الفاظ درج تھے ،
"مجھے جانے دیا تو نے سُودے، اب یہ وقت کہاں کہیں جا سکے گا"