اکتوبر 1967 میں پیرس میں کچھ لوگ اکٹھے ہوئے۔ وزن اور پیمائش کی جنرل کانفرنس میں ۱۳ اکتوبر کو ان لوگوں نے وقت کی تعریف بدل دی۔ تمام انسانی تاریخ میں وقت کی پیمائش فلکیاتی اجسام کے حوالے سے کی جاتی رہی تھی۔ ہمارے لئے وقت کا ادراک زمین، چاند، سورج کے چکروں سے تھا۔ دن، ماہ، سال ان گردشوں کے ردھم کا نتیجہ تھے۔ انسانی تاریخ کے بڑے حصے میں تو ہم اس ردھم کے پیٹرن کی وجہ سے بھی واقف نہ تھے۔ پھر ہم نے آلات بنانا شروع کئے جو وقت کو ناپ لیں۔ سورج گھڑیاں جو دن کا وقت بتا سکیں، سٹون ہنج کی طرح کے مشاہداتی سٹرکچر جو موسموں کے سنگ میل بتا سکیں۔ وقت کو ٹکڑوں میں تقسیم کیا۔ گھنٹے، منٹ اور سیکنڈ۔ مصری اور سمیریہ تہذیبوں کی بارہ کی بیس کی گنتی کی بنیاد پر۔ بنیادی یونٹ دن رہا۔ دن جو ایسے لمحوں کے درمیان کا وقفہ جب سورج دن میں سب سے اونچے مقام پر ہو۔
جب وقت کی پیمائش کے آلات بہتر ہونا شروع ہوئے تو ہمیں اس فلکیاتی ردھم کی حد کا پتہ لگا۔ یہ کچھ اوپر نیچے ہوا کرتا تھا۔ اگر ہمیں وقت کی ٹھیک پیمائش کرنا تھی تو بنیادی تعریف بدلنا تھی۔ پیرس میں وقت کی تعریف کے لئے نظام شمسی کی سب سے بڑی شے کو سب سے چھوٹی شے یعنی سورج کو سیزیم کے ایٹم سے بدل دیا گیا۔
وقت کی پیمائش کا بنیادی اصول بس ایک ہی ہے۔ کوئی چیز جو اپنا ردھم خاص وقفے میں دہراتی ہو۔ سورج اور چاند بھی یہ کام کرتے ہیں اور روزمرہ کے معمولات کے بڑے حصے کے لئے یہ کافی ہے لیکن جدید آلات کے لئے بالکل نہیں۔
1583 میں پیسہ یونیورسٹی میں چرچ میں ہونے والے لیکچر کے دوران اپنی سوچوں میں کھوئے انیس سالہ طالبعلم کی توجہ چھت پر لٹکے جھولتے لیمپ کی طرف گئی تھی جو ایک خاص ردھم سے جھول رہا تھا۔ یہ طالب علم گلیلیو تھا۔ یہ پنڈولم کے تصور کا نقطہ آغاز تھا۔ اس سے لے کر کوارٹز کرسٹل کے ارتعاش اور پھر سیزیم کے ایٹم تک کی جانے والی تعریف کا سفر لمبا ہے لیکن وقت کی تعریف کا بہت زیادہ فرق اس کا انسانی معاشرت پر ہے۔ ایک وقت میں سٹینڈرڈ وقت کا تصور نہیں تھا۔ ہر آبادی کا اپنا وقت ہوتا تھا۔ سفر کی رفتار اتنی سست تھی کہ اس سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا تھا۔ سٹیم انجن کی آمد نے یہ بدل دیا۔
یہ سٹینڈرڈائزیشن خود بڑے بحث مباحثے کے بعد ہوئی اور اس کی کہانی پھر کبھی لیکن اس وقت اگر آپ کے موبائل کی گھڑی آپ کو وقت بتا رہی ہے اور اپنا وقت ایک ٹائم سرور سے مسلسل مطابقت میں رکھتی ہے تو اس پورے سسٹم کی اپنی حیرت انگیز ٹیکنالوجی اپنی جگہ لیکن اب سے کچھ عرصہ پہلے تک نہ ہی اس معیاری وقت کی کوئی تعریف تھی، نہ اس کی کسی کو ایسا کرنے کی کوئی ضرورت۔
اگر آپ نے خبروں کی ہیڈ لائن سننے کے لئے ہاتھ میں بندھی گھڑی کو دیکھ کر ٹی وی آن کیا ہے اور عین اسی کے مطابق خبریں شروع ہو گئیں ہیں، عین وقت پر ٹرین یا جہاز پکڑ لیتے ہیں، یہ جان لیتے ہیں کہ دنیا کی کونسی جگہ پر گھڑیوں میں کیا بجا ہو گا، تو یہ اب حیران تو نہ کرتا ہو کہ اس کی عادت ہو گئی ہے لیکن انسانی عادات کا گھڑیوں سے ہم آہنگ ہونا کئی طرح کی ٹیکنالوجیز کی وجہ سے انسانی تاریخ کے بڑے مختصر حصے میں ہوا۔ نو سے پانچ کام کرنے کا تصور بھی وقت کی پیمائش، آجر اور اجیر کی رسہ کشی کا نتیجہ ہے۔ اس پر بھی تفصیل پھر کبھی۔
سائنسی اور معاشرتی تبدیلیاں تنہا نہیں، ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہوتی ہیں۔