(نوبل انعام یافتہ ادیبہ ایلس منرو کے بارے میں ایک نوٹ )
” ۔ ۔ ۔ میں افسانے کیوں لکھتی ہوں ؟ تو بھئی قصہ یہ ہے کہ میں ایسا نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ میں ایک ناول لکھنا چاہتی تھی ۔ ابھی بھی! مجھے ناولوں کے خیالات آتے ہیں اور میں ناول لکھنا شروع بھی کر دیتی ہوں لیکن انہیں کچھ ہو جاتا ہے ۔ وہ ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں ۔ میں مواد کو دیکھتی ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ یہ تو افسانے کی شکل میں ہی مکمل ہے اور یہ کبھی ناول نہیں بن پاتا ۔ جب میں جوان تھی اس وقت یہ حکمت عملی کا ایک مسئلہ تھا ۔ میرے بچے چھوٹے تھے اور میرا کوئی مدد گار نہ تھا ۔ اُس وقت کا کچھ زمانہ وہ تھا جب ابھی دھلائی کی آٹو میٹک مشینیں نہیں آئی تھیں ۔ آپ یقین مانیں ، میرے پاس زیادہ وقت ہی نہیں ہوتا تھا کہ میں کہہ سکوں کہ دیکھیں اسے مکمل کرنے میں مجھے ایک سال لگے گا ۔ مجھے ہمیشہ لگتا تھا جیسے کچھ ایسا ہو جائے گا کہ مجھ سے سارا وقت چھن جائے گا ۔ چنانچہ میں، وقت کو کم جان کر، ٹکڑوں میں لکھتی رہی ۔ اس سے ، شاید مجھے عادت ہو گئی کہ میں اپنے مواد کو اسی طرح دیکھتی رہوں اور جب مجھے کچھ زیادہ وقت ملا تو میں طویل افسانے لکھنے لگی جن میں بہت سی شاخیں سر نکال لیتی ہیں ۔ ۔ ۔ “
ایلس منرو نے یہ اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا ۔ اس ا نٹرویو کو پڑھ کر مجھے ورجینیا وولف کا خیال آیا تھا ۔ ۔ ۔ ورجینیا وولف ۔ ۔ ۔ جس نے اپنا اوور کوٹ پہنا اور گھر سے باہر نکل پڑی تھی ۔ راستے میں وہ چن چن کر بھاری پتھر اپنے اوور کوٹ کی جیبوں میں بھرتی رہی تھی، یہاں تک کہ گھر کے نزدیک بہتے دریا ئے ’ اُووز‘ کا کنارہ آ گیا ، اس نے اپنے قدم نہیں روکے اور اُووز کے پانیوں میں اترتی چلی گئی اور خود کو غرق ہونے دیا تھا ۔ جیبوں میں پڑے پتھروں نے اس کی لاش کو اوپرہی نہ آنے دیا تھا ۔ بیس روز کی تلاش کے بعدغوطہ خور اسے تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ورجینیا وولف جس نے 1929ء میں( ایلس منروکے پیدا ہونے سے دو سال قبل ) اپنے ایک طویل مضمون ’ A Room of One's Own‘ لکھا تھا ؛
”۔۔ ۔ ایک عورت کے پاس پیسہ ہونا چاہئے اور اپنا ذاتی ایک کمرہ ، جس میں بیٹھ کر وہ سکون سے ادب تخلیق کر سکے۔ ۔ ۔ “
ایلس منرو بھی کچھ ایسے ہی المیے کا شکا ررہی ہے ، اس کے پاس وقت کم رہا ، ماں باپ ’ عظیم بحران ‘ کے زمانے میں آبی نیولے اور لومڑیاں پالنے اور ان کی کھالیں بیچ کر گزارا کرتے تھے ، ایلس نے کم عمری ( اپنے سماج کے مطابق ) میں شادی کی ، بچے سنبھالے ، طلاق سہی ، ماں پچاس کی بھی نہ ہوئی تھی تو پارکنِسن کا شکار ہو گئی ، اس کا بوجھ کندھے پر لادے ۔ ۔ ۔ چنانچہ ایلس کے لئے کمرہ تو شاید مسئلہ نہ رہا ہو لیکن ’ وقت ‘ کی کمی اسے ناول نگار نہ بنا سکی اور اسے افسانے لکھنے پر ہی اکتفا کرنا پڑا ۔ یہ الگ بات ہے کہ کئی نقاد یہ کہتے ہیں ؛
” ۔ ۔ ۔ اس کی کون پرواہ کرتا ہے؟ منرو کی کئی کہانیوں میں ناولوں سے بھی زیادہ تنوع موجود ہے ۔ ۔ ۔ “
ایلس منرو کینیڈا کی افسانہ نگار ہے ۔ وہ 1931 ء میں 10 جولائی کو ایلس این لیڈ لاء کے نام سے وِنگہم ، اونٹریو ، میں پیدا ہوئی ۔ آئرلینڈ اور سکاٹ لینڈ کی پچھوکڑ( اس کا باپ سکاٹش ادیب ’جیمز ہوگ ‘ کی براہ راست نسل سے تھا ) رکھنے والی ایلس نے یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں تعلیم توحاصل کی لیکن ویٹرس ، تمباکو کی پتیاں چُننے کے علاوہ لائبریری میں کلرکی کرتے کرتے کہانیاں بھی لکھنے شروع کیں ۔ اس کی پہلی کہانی 1950ء میں ’سائے کی ابعاد ‘ ( The Dimensions of a Shadow ) کے نام سے شائع ہوئی ۔ اس کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ ’ مسرور سایوں کا رقص‘ (Dance of the Happy Shades) 1968ء میں شائع ہوا ۔ 1971 ء میں اس کی کتاب ’ دوشیزاﺅں اور عورتوں کی زندگی ‘ سامنے آئی ۔ 1978 ء میں اس کی کتاب ’ آپ خود کو کیا سمجھتے ہو؟ ‘ چھپی ۔1980 ء کے بعد سے اس کی کہانیوں کے مجموعے تواتر سے آتے رہے اور اس کی کہانیاں کئی عالمی ادبی جریدوں میں بھی چھپتی رہیں ۔ 2013 ء میں اسے نوبل انعام برائے ادب دیا گیا اور اسے’ ہم عصر افسانے کا استاد ‘ ٹہرایا گیا ۔ وہ پہلی کینیڈین ادیبہ ہے جس نے یہ عالمی اعزاز حاصل کیا ۔ امریکی ادیبہ سنتھیا اوزک اور کچھ نقاد اسے ہم عصر زمانے کے امریکی و کینیڈین ادب کا ’ چیخوف ‘ کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ اور وہ کچھ غلط بھی نہیں ہیں ؛ وہ اس روسی ’ ماسٹر سٹوری ٹیلر‘ سے کئی طرح سے مماثلت رکھتی ہے ۔ وہ محبت اور زندگی کی تگ و دو میں ناکامی سے بہت زیادہ متاثر ہے اور اپنے کہانیوں کے زماں و مکاں کے بارے میں بہت محتاط ہے ۔ اس کے کرداروں میں وہی ، دل میں اتر جانے والی نفسیاتی گہرائی ہے ، جو چیخوف کے ہاں ملتی ہے ، جبکہ واقعات ثانوی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں ۔
چیخوف کے بارے میں وہ اپنے 2001 ء کے ایک انٹرویو میں خود بھی کہتی ہے؛
”۔ ۔ ۔ ۔کارسن میکولرز اور فلینری او‘ کونر کے علاوہ میں نے پچاس کی دہائی میں چیخوف کو بھی پڑھا ، جس کی کہانیوں کو میں نے ویسا ہی پایا جیسا کہ میں لکھنا چاہتی تھی ،جذبات اور جگہوں کے بارے میں ۔ ۔ ۔ “
اس نے اپنے ایک انٹرویو میں امریکی مصنفہ ’ ایوڈورا ویلٹی‘ ( Eudora Welty ) کو خراج پیش کرتے ہوئے کہا تھا ؛
” ۔ ۔ ۔ وہ مجھے بہت پسند تھی ۔ میں ابھی بھی اسے پسند کرتی ہوں ۔ میں اس کی نقل نہیں کر سکتی ۔ ۔ ۔ وہ بہت عمدہ لکھتی ہے اور میرے خیال میں اس کے افسانوں کا سب سے عمدہ مجموعہ ’ سنہری سیب ‘ ( The Golden Apples ) ہے ۔ ۔ ۔ “
اس میں یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے کہ وہ اپنے کرداروں کی سطحی زندگی میں غوطہ زن ہو کراندر چھپے تضادات کو ویسے ہی نکال کر باہر لے آئے جیسے ایک ماہر غوطہ غور یہ جان لیتا ہے کہ کونسی سیپی میں موتی ہے اور وہ کتنا نادر ہے ۔ وہ ویسے ہی اشیاء کو دیکھتی ہے ، جیسے ایک ماہر باورچی پیاز چھیلتے وقت یہ جانتا ہے کہ اس کے ہاتھ میں موجود پیاز کی کتنی پرتیں ہیں ، وہ اپنے قلم کے نشتر سے ان اشیاء کو انتہائی مہارت سے تراشتی ہے کہ ہر پرت میں ایک نئی کہانی نزاکت سے سامنے آ جاتی ہے ۔ اس کی ساری کہانیوں میں بین السطور طنز کا ایک تیر بھی ہمیشہ موجود ہوتا ہے جو قاری کو ہولے ہولے کچوکے لگاتا رہتا ہے ۔ اس میں ناکامی کا امکان ، امید ،نا امیدی اورذات کا بچاﺅ سب موجود ہوتا ہے لیکن وہ ان کو حتمی انداز سے نہیں دیکھتی بلکہ ان پر رائے دیتے ہوئے سب کے امکانی ہونے کا عندیہ دیتے ہوئے کہانی کہتی چلی جاتی ہے ۔
کینیڈین ادیبہ مارگریٹ ایٹووڈ اسے ” عالمی ادب کی ایک صوفی سنت “ گردانتی ہے ۔
تاحال اس کی کہانیوں کے لگ بھگ پندرہ مجموعے شائع ہو چکے ہیں ، جبکہ اس کی کہانیوں کی کئی تالیفات ان کے علاوہ ہیں ۔ اس کی کچھ کہانیاں پانچ فلموں کے لئے ماخذ کا با عث بنیں جن میں تازہ ترین ہسپانوی فلم ’جولیٹا ‘ ہے جو 2016 ء میں ریلیز ہوئی ۔ یہ ہسپانوی ہدایت کار’ پیڈرو ایلموڈوور‘ نے بنائی ۔’ نفرت اور محبت ‘ ( Hateship,Loveship ) جو 2013 ءمیں انگریزی میں امریکی ہدایت کارہ ’ لیزا جونسن نے بنائی تھی اور اِن سے پہلے 2006 ءمیں کینیڈین ہدایت کارہ ’ سارا پولی‘ نے فلم ’ Away from Her ‘ بنائی جس کا ماخذ ایلس کی کہانی ’ The Bear Came Over the Mountain “ تھی ۔ 2002ء میں کینیڈین ہدایت کارہ ’ اینی ویلر ‘ نے اس کی کہانی ’A Wilderness Station‘ کو فلم ’ Edge of Madness‘ کے نام سے بنایا تھا ۔ ’ Martha, Ruth & Edie ‘ سن 1988 ء میں کینیڈا میں بنی ،جس میں کینیڈین ہدایت کارہ ’ نورما بیلے‘ نے منرو کی کہانی ’ How I Met My Husband ‘ کو استعمال کیا تھا ۔
اس کی افسانہ نگاری نہ صرف حقیقت نگاری پر مبنی ہے بلکہ وہ قاری کو اپنے انسان ہونے کا احساس بھی دلاتی ہے جس کی زندگی کے رنگ قوس قزح کی طرح متنوع ہیں ، گو وہ خود اپنی کہانیوں کے بارے میں کہتی ہے ؛
” ۔ ۔ ۔ میں ڈائریاں نہیں رکھتی، مجھے اپنی زندگی کے بارے میں بہت کچھ یاد ہے ۔ ۔ ۔ میں ساری عمر اپنی زندگی کی کہانیاں ہی لکھتی رہی ہوں ۔ ۔ ۔ میری کہانیوں میں اگر ’ ماں ‘ بار بار نظر آتی ہے تو اس کی وجوہات ہیں ؛ اس کی زندگی یاس سے بھری تھی اور زندگی نے اس پرمہربانی کچھ کم کم ہی کی تھی ۔ وہ بہادر عورت تھی اور اس نے زیست کی اس نامہربانی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ، ویسے وہ ، جب میں سات سال کی تھی ، تب سے مجھے ’ سنڈے سکول ‘ میں دعائیہ کلمات پڑھنے والی لڑکی بنانا چاہتی تھی جس کے خلاف مجھے تبھی سے جدوجہد کرنا پڑی تھی کہ وہ اپنے اس ارادے میں کامیاب نہ ہو پائے ۔ ۔ ۔ “
ایک جگہ وہ اپنے فیمینسٹ ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہتی ہے؛
”۔ ۔ ۔ میں نے کبھی بھی نہیں کہا کہ ایک فیمینسٹ ادیبہ بنوں اور مجھے نہیں معلوم کہ میں ہوں یا نہیں ۔ میں چیزوں کو اس نکتہ نظر سے دیکھ کر نہیں لکھتی ۔ مجھے اس بات کا بھی احساس ہے کہ مردوں کو بھی کافی محنت کرنا پڑتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔“
اس نے اپنے ایک ہم جماعت جیمز منرو سے 1951 ء میں شادی کی ۔ ان کی تین بیٹیاں ہوئیں ، جن میں سے ایک صرف پندرہ گھنٹے زندہ رہ سکی ۔ اُس کی ’ منرو بُکس‘ کے نام سے ایک دُکان بھی ہے ۔ اس کا دوسرا خاوند فریملِن 88 برس کی عمر میں اپریل 2013 ء میں فوت ہوا ۔ وہ اِس وقت 87 برس کی ہے اور کافی عرصے سے اپنی کہانیوں میں ترامیم کر کے نئی ’ ورژنز ‘ بھی لکھتی رہی ہے ، جن میں’ گھر‘ ، ’ جنگل‘ اور ’ طاقت‘ کی نئی ورژنز اہم ہیں ۔
اس کا کہنا ہے؛
”۔ ۔ ۔ ہاں میں ایسا کرتی ہوں ، اوروں کے علاوہ ہنری جیمز نے بھی تو اپنے دقیق کام کو آسان اور سادہ بنایا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے اپنی پرانی کہانیاں پڑھتے ہوئے جب بھی احساس ہوتا ہے کہ ان میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہے تو میں ان میں ضروری رد و بدل کرتی ہوں ۔ ۔ ۔ “
اس کے افسانوں کی ساخت ، بیانیہ اور ڈھانچہ بالکل غیر روایتی ہے ۔ وہ اپنی کہانیوں میں گھڑی کے پینڈولم کی طرح ماضی اور حال کی ’ ٹو اینڈ فرو‘ میں بار بار آگے پیچھے جاتی ہے ۔ اس بارے میں وہ خود کہتی ہے ؛
” ۔ ۔ ۔ میں اپنے کام میں بہت سا زمانہ برتتی ہوں ۔ میں ’ وقت ‘ میں پیچھے چھلانگ لگاتی ہوں ، آگے بھاگتی ہوں اور بسا اوقات جب میں یہ سب کرتی ہوں تواس کا طریقہ سیدھا سادہ نہیں ہوتا ۔ میں یہ لوگوں پر چھوڑ دیتی ہوں کہ وہ کہانی کے مطابق خود کو ڈھالیں ۔ مجھے کہنے کا یہی ڈھنگ پسند ہے اور مجھے لگتا ہے کہ میرے لئے یہی ایک طریقہ ہے کہ میں اپنی کہانیاں کہہ سکوں ۔ ۔ ۔ میرے لئے ’ وقت ‘ ( ماضی اور حال دونوں کی ) کی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ جب لوگ بدل جاتے ہیں تو وہ ماضی کو ایک نئے انداز سے دیکھتے ہیں ۔ میں اسی نئے انداز کو قلم کی گرفت میں لاتی ہوں ۔ ۔ ۔ میرے لئے یادداشت بہت اہم ہے جس کے بل بوتے پر میں اپنی کہانیاں ترتیب دیتی ہوں اور انہیں لوگوں کے سامنے پیش کرتی ہوں ۔ ۔ ۔ “
2013 ء کے نوبل انعام برائے ادب کے علاوہ اس کی زنبیل میں’مین بُکر‘ جیسے کئی اور بھی بلکہ بہت سے انعام اور توصیفی اسناد موجود ہیں ۔
( یہ مضمون فروری 2018 ء میں لکھا گیا تھا ؛ ایلس منرو اس وقت 88 + ہے ۔ )
حیوانی جبلت، مکھیوں کا دیوتا، مکڑیوں بھرا جزیرہ اور ہم
( نوبل انعام یافتہ ولیم گولڈنگ کے ناول ’ لارڈ آف فلائیز ‘، 1954ء پر تبصرہ ) یہ پچھلی صدی...