(Last Updated On: )
مغربی برطانیہ میں ایگزیٹر کے کلاک ٹاور میں 1845 میں ایک عجیب اضافہ کیا گیا۔ یہ اس گھڑی میں منٹ کی ایک اور سوئی کا اضافہ تھا۔ اور نئی سوئی چودہ منٹ آگے تھے۔ یہ کلاک بیک وقت دو وقت بتاتا تھا۔ مقامی وقت اور ریلوے کا وقت۔
ہماری وقت کی حس ہمیشہ زمین کی حرکت کے ساتھ رہی ہے۔ ہم دنوں اور سالوں کی بات زمانہ قدیم سے کرتے رہے ہیں، جب ہم اس سے واقف بھی نہیں تھے کہ زمین اپنے محور کے گرد گردش کرتی ہے اور سورج کے گرد چکر لگاتی ہے۔ چاند کے گھٹنے اور بڑھنے سے ہم نے ماہ کا تصور نکالا ہے۔ سورج کی آسمان پر پوزیشن سے صبحِ صادق، نصف النہار جیسے اصطلاحات بنی ہیں۔
نصف النہار کا مطلب یہ کہ جب سورج سر کے عین اوپر ہو اور ظاہر ہے کہ اس کا تعلق اس سے ہے کہ آپ دیکھ کہاں سے رہے ہیں۔ ایگزیٹر اور لندن میں ان کے درمیان چودہ منٹ کا فرق تھا۔
کلاک جب عام ہوئے تو لوگ اس کو اپنے مقامی فلکیاتی مشاہدات سے سیٹ کرتے رتھے۔ یہ اس وقت تک تو ٹھیک ہے جب آپ کا معاملہ صرف انہی لوگوں سے ہو جو آپ کے قرب و جوار میں رہتے ہیں۔ اگر ہم دونوں ایگزیٹر میں رہتے ہیں اور میں آپ کو کہتا ہوں کہ سات بجے شام کو ملاقات ہو گی تو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ دو سو میل دور لندن میں رہنے والا سمجھتا ہے کہ اس وقت سات بج کر چودہ منٹ ہیں۔ لیکن جب ان دونوں شہروں کو ٹرین نے جوڑ دیا جو درمیان میں کئی دوسرے مقامات پر بھی رکتی ہے۔ اور ہر ایک کا اپنا اپنا وقت ہے تو یہ ایک مسئلہ ہے۔ ٹرینوں کا ابتدائی نظامِ اوقات پڑھنا بڑا مشکل تھا۔ نہ صرف مسافروں کے لئے (جن کے لئے سب سے بڑا خطرہ صرف ٹرین کا چھوٹ جانا تھا) بلکہ ڈرائیور اور سگنل کے سٹاف کے لئے، جس کی وجہ سے حادثات کا خطرہ تھا۔
ریلوے نے ایک نیا وقت اپنا لیا، جس کو ریلوے ٹائم کہا جاتا تھا۔ اس کو گرین وچ کے وقت پر سیٹ کیا گیا جو لندن کا ایک مقام تھا۔ کچھ میونسپل کے علاقوں نے جلد اس کی افادیت سمجھ لی اور اپنا وقت اس کے مطابق کر لیا۔ لیکن کئی شہری علاقوں نے اس نئے مسلط کردہ وقت کے جبر کی مخالفت کی۔ “اصل وقت” کی روایت کی حفاظت کے لئے پرجوش تحریکیں چلیں۔ کئی لوگوں نے معیاری وقت کے مطابق اپنے گھڑی تبدیل کرنے سے انکار کر دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ “اصل وقت” کچھ نہیں۔ پیسے کی قدر کی طرح، یہ بس ایک مشترک حقیقت ہے جس کو تسلیم کر لیا جائے تو یہ مفید ہو جاتی ہے۔ لیکن وقت گزرنے کا ایکوریٹ ریکارڈ رکھنا اصل فن ہے۔ اور اس کی تاریخ کا ایک اہم کردار 1656 کے ہائیگنز ہیں۔
ان سے پہلے بھی کلاک تھے۔ قدیم مصر سے فارس تک پانی کے کلاک۔ موم بتی سے وقت رکھنا۔ لیکن یہ سب وقت کا زیادہ اچھا ریکارڈ نہیں رکھتے تھے۔ اچھے آلے میں بھی دن میں پندرہ منٹ آگے پیچھے ہو جایا کرتے تھے۔ لیکن ایک جگہ تھی جہاں پر ٹھیک وقت رکھنا بہت اہم تھا۔ یہ ملاحوں کی ضرورت تھی۔
سورج کا زاویہ دیکھ کر ملاح عرض بلد کا پتا لگا لیا کرتے تھے لیکن طول بلد کا صرف اندازہ ہی کرنا پڑتا تھا۔ غلط اندازہ (اور ایسا ہونا عام تھا) بحری جہازوں کے غلط جگہ پر پہنچ جانے یا غرق ہونے پر بھی متنج ہوتا تھا۔
اس مسئلے کا ٹھیک وقت رکھنے سے کیا تعلق؟ جیسا کہ ہم نے شروع میں دیکھا کہ ایگزیٹر کی گھڑی دو سو میل دور لندن کی گھڑی سے چودہ منٹ دور تھی۔ اب اگر آپ کو یہ پتا لگ جائے کہ لندن میں گرین وچ پر (یا کسی اور ریفرنس مقام پر ) نصف النہار کب ہے۔ اور میں اپنے مقام پر سورج کے مشاہدے سے نصف النہار دیکھ سکتا ہوں تو پھر تو ان کے درمیان طول بلد کا فرق آسانی سے کیلکولیٹ کر سکتا ہوں۔ ہائیگنز کا پنڈولم کلاک پہلے کی کسی بھی گھڑی سے زیادہ ایکوریٹ تھا لیکن روزانہ کے پندرہ سیکنڈ کا فرق بھی سمندر کے طویل سفر کے لئے کافی نہیں تھا۔ اور بحری جہاز کے جھولتے سفر میں پنڈولم اتنا اچھا کام نہیں کرتا تھا۔
بحری جہازوں پر انحصار کرنے والی ریاستوں کو طول بلد کے اس مسئلے کی اہمیت کا اچھی طرح سے علم تھا۔ ہسپانیہ کے بادشاہ نے اس مسئلے کے حل کے لئے انعام رکھا تھا۔ برطانیہ کی حکومت نے اس پر انعام رکھا تھا جس کے لئے جان ہیریسن نے کلاک بنایا تھا جو دن میں صرف دو سیکنڈ تک کی غلطی کرتا تھا۔
ہائیگنز اور ہیریسن کے وقت سے اب تک کلاک بہت زیادہ ایکوریٹ ہو چکے ہیں۔ معیاری وقت کے خلاف اور “اصل وقت” کے حق میں چلنے والی تحریکیں ختم ہو چکی ہیں۔ اب تمام دنیا اس پر متفق ہو چکی ہے۔ اس کے بغیر اب انٹرنیٹ بھی کام نہیں کر سکتا تھا۔ اور “ٹھیک وقت” اب UTC اور پھر اس سے موازنہ کرتی مختلف ٹائم زون کے حساب سے ہے۔ UTC کو ایٹمی کلاک کی بنیاد پر ہے۔ یہ الیکٹران کے انرجی لیول میں oscillation کی پیمائش سے ہے۔ اس کا “ماسٹر کلاک” واشنگٹن ڈی سی میں امریکی بحریہ کی آبزرویٹری میں ہے۔ اور اس کے لئے کئی کلاک کا کمبی نیشن استعمال ہوتا ہے۔ ان میں سے سب سے زیادہ ایڈوانسڈ چار ایٹمی فوارے کے کلاک ہیں۔ ان میں منجمد ایٹم ہوا میں اچھال کر گرائے جاتے ہیں۔ اور کچھ بھی آگے پیچھے ہو جائے (جو کسی ٹیکنیشن کے کمرے کے داخل ہونے کی وجہ سے بدلنے والے درجہ حرارت کی وجہ سے ہونے والا اثر بھی ہو سکتا ہے)، تو پھر بیک اپ کے کلاک ہیں جو ایک نینو سیکنڈ میں کنٹرول سنبھال لیتے ہیں۔ ان سب کی آوٗٹ پُٹ کی پیمائش کر کے وقت کی پیمائش کی جاتی ہے۔ اور یہ اتنا ایکوریٹ ہے کہ تیس کروڑ سال میں ایک سیکنڈ تک درست وقت بتا سکتا ہے۔
لیکن اس ایکوریسی کا فائدہ؟ میں نے کسی میٹنگ پر بالکل ٹھیک وقت پر پہنچنا ہو تو ملی سیکنڈ تک کی پیمائش نہیں کرتا۔ کلائی کی اچھی گھڑی اس کے لئے بہت ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اچھی کلائی کی گھڑی بھی زیادہ تر نمائش کے لئے پہنی جاتی ہے۔
جب ریڈیو پر ہر گھنٹے میں وقت نہیں بتایا جاتا تھا تو بیلول فیملی کا پیشہ ٹھیک وقت بیچنا تھا۔ یہ ہر صبح گرین وچ سے گھڑی ملا کر لندن میں معاوضے کے عوض بالکل ٹھیک وقت پر دوسروں کی گھڑی سیٹ کر دیا کرتے تھے۔ ان کے سب سے بڑے گاہکوں میں گھڑیاں بیچنے والے تھے۔ کیا اتنا ہی کافی نہیں؟
ایسی جگہیں ہیں جہاں ملی سیکنڈ سے فرق پڑتا ہے۔ ایسی ایک جگہ سٹاک مارکیٹ ہے۔ اپنے مقابلے والوں سے پہلے کاروبار کر کے فائدہ اٹھا لینا کسی کو امیر کر سکتا ہے۔ شکاگو سے نیویارک تک پہاڑ کھود کر فائبر آپٹک دوبارہ بچھائی گئی کہ وہ سیدھی ہو اور ٹریفک تیز جائے۔ تیس کروڑ ڈالر کے اس پراجیکٹ سے شکاگو کا نیویارک سٹاک ایکسچینج تک رابطہ زیادہ جلد ہو سکتا تھا۔ کسی کے خیال میں بچ جانے والے تین ملی سیکنڈ اس قدر اہم تھے کہ یہ سرمایہ کاری کی گئی۔ یہ معقول سوال ہے کہ کیا ایسا کیا جانا سوشلی کسی بھی طرح مفید ہے لیکن اس جدت کے فوائد اس کو کرنے والوں کے لئے بالکل واضح تھے اور اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ لوگ ترغیبات کے لئے کام کرتے ہیں۔
وقت کی یہ ہم آہنگی کمپیوٹنگ اور مواصلاتی رابطوں کے لئے تو بہت ضروری ہے لیکن ایٹمی کلاک کا سب سے بڑا اثر اسی چیز پر ہے جس کے لئے اچھے کلاک ایجاد کئے گئے تھے۔ یعنی کہ سفر۔
اب کوئی بھی سورج کے زاویے نہیں دیکھتا۔ ہمارے پاس جی پی ایس ہے۔ سستے ترین سمارٹ فون بھی آپ کی جگہ سیٹلائیٹ کے نیٹ ورک سے سگنل پکڑ کر بتا دیں گے۔ کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ ان میں سے ہر سیٹلائیٹ آسمان میں کس جگہ پر ہے۔ ان کے سگنل کی triangulation کر کے آسانی سے معلوم کی جا سکتا ہے کہ آپ زمین پر کس جگہ ہر ہیں۔ اور اس ٹیکنالوجی نے بحری سفر سے ہوائی سفر تک انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے لیکن یہ صرف تکنیک صرف اس وقت کام کر سکتی ہے اگر تمام سیٹلائیٹ وقت پر اتفاق رکھیں۔
جی پی ایس سیٹلائیٹ میں چار ایٹمی گھڑیاں ہوتی ہیں جو سیزیم یا روبیڈیم سے بنی ہیں۔ ہائیگنز یا ہیریسن تو اتنی ایکوریٹ گھڑیوں کا خواب ہی دیکھ سکتے تھے۔ لیکن یہ گھڑیاں بھی اتنی غلطی کر جاتی ہیں کہ جگہ میں دو گز کی غلطی کر سکتی ہیں۔ ان کی یہ غلطی فضا کا آئینوسفئیر مزید بڑھا دیتا ہے۔ اور اس وجہ سے خودکار گاڑیوں کو جی پی ایس کے علاوہ سنسر پر بھی انحصار کرنا ہوتا ہے۔ (کسی ہائی وے میں دو گز کے فرق کا مطلب سامنے سے آنے والی گاڑی سے تصادم ہو سکتا ہے)۔
کلاک مزید بہتر ہو رہے ہیں۔ سائنسدانوں نے حال ہی میں ایک اور ڈویلپ کیا ہے جو ایک عنصر یٹربیم کی بنیاد پر ہے۔ جب تک پانچ ارب سال بعد سورج مردہ ہو کر زمین کو نگلنے کی کوشش کر رہا ہو گا، اس پر ایک سیکنڈ کے سوویں حصے کا فرق پڑے گا۔
وقت کا حساب رکھنے کی اتنی زیادہ ایکوریسی کی تکنیک کیا کچھ بدل دے گی؟ یہ صرف وقت ہی بتائے گا۔