ہبل خلائی ٹیلی سکوپ کو اپنے مدار میں تیس برس ہونے کو ہیں۔ ہماری تفہیمِ کائنات کو آگے بڑھانے میں ایک بڑا ہاتھ اس آلے کا ہے۔ انفراریڈ سپیکٹرم پکڑنے والی اپ گریڈ مکمل ہو جانے کے بعد اس سے ایک نیا مشاہدہ کیا گیا۔ ایک تاریک جگہ کا انتخاب کیا گیا اور ہبل کی نگاہوں کو صرف اسی مقام پر ٹھہرا دیا گیا۔ 24 ستمبر 2003 سے لے کر 16 جنوری 2004 میں ہبل نے زمین کے گرد چار سو چکر لگائے۔ اس میں ہر چکر میں بیس منٹ تک صرف اسی مقام سے آنے والے فوٹونز کو اکٹھا کیا جاتا۔ اگر آپ ایک پنسل کو اپنے پھیلے ہوئے بازو میں تھامیں تو اس کا سکہ جتنی جگہ لیتا ہے، یہ مقام بس انتا بڑا تھا۔ بغیر ہبل کے اس میں کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ تاریک ہونے کا مطلب یہ کہ اس میں قریبی جسم نہیں تھا اور اس میں دور تک دیکھا جا سکتا تھا۔
اس تمام اکٹھے کئے ڈیٹا کو لے کر اس کا تجزیہ کیا گیا۔ یہ کائنات میں وقت کا سفر تھا۔ جس طرح ہم دور تک دیکھتے جاتے ہیں، ویسے ہی وقت کی ابتدا تک پہنچتے جاتے ہیں۔ جس طرح زمین کی تاریخ اس کے سینے میں دبی ہے، ویسے اس کائنات کی تاریخ ان قدیم روشنیوں میں۔
تو پھر اس میں ہم نے کیا دیکھا؟ ایک ستارہ؟ ستاروں کا جھرمٹ؟ ایک پوری کہکشاں؟ نہیں۔ کائنات کے اس ناقابلِ ذکر گوشے میں ہم نے دس ہزار کہکشائیں دیکھیں۔ ان شکلوں کی بھی، جو اس سے پہلے نہیں دیکھی گئی تھیں۔ آج کی کہکشائیں سپائرل یا الیپٹیکل ہیں لیکن ان میں اور بھی کئی شکلیں تھیں۔ کچھ آپس میں مل رہی تھیں، کچھ نئی بن رہی تھیں۔ کائنات کی ابتدائی ڈارک ایج کے بعد بننے والی ابتدائی کہکشائیں اس کا حصہ تھیں۔
ایک کہکشاں اوسطا اپنے ارد ایک کھرب ستارے رکھتی ہے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں جب ہم محض اپنی کہکشاں کے بھی ایک بہت ہی چھوٹے حصے کو کُل کائنات سمجھتے تھے۔ اس مشاہدے نے اس کے ایک ناقابلِ حصے میں ایسی دس ہزار کہکشائیں دیکھ لی تھیں۔ دس ہزار کھرب ستارے۔ ہر ستارہ اپنا الگ سیاراتی نظام رکھتا ہو گا۔ اور ان میں کیا ہے؟ معلوم نہیں۔ بائیولوجی کی انجان اقسام کا ہونا بھی بعید نہیں۔
قدیم روشنیوں سے بنی یہ تصویر جہاں ایک طرف اس کائنات میں ہمارے علم کو آگے بڑھاتی ہے، وہاں پر یہ ہمارے لئے انکساری کا سبق بھی ہے۔ ہم چھوٹے سکیل پر دیکھیں یا بڑے پر، خود اپنے آپ کو دیکھیں یا اپنی زمین کو، ہماری لاعلمی ہمارے علم کے مقابلے میں کہیں زیادہ وسعت رکھتی ہے۔ ہر طرف بے شمار کھلے سوال موجود ہیں۔ بے شمار ایسے، جن کے بارے میں ہمیں پتا ہے کہ ہمیں ان کا نہیں پتا۔ جس طرح تصویر میں سمندر ہے اور اس میں ایک ایک تختہ لگا کر راستہ بنایا گیا ہے، ہمارا سفر بس ویسا ہی ہے۔ رفتہ رفتہ ایک ایک تختہ لگا کر جاننے کا۔
ایسے میں جو لوگ یہ ظاہر کرتے ہیں (اور ایسے لوگوں کی کمی نہیں) کہ ہمارے پاس اکثر سوالات کے جواب موجود ہیں، وہ اور کچھ نہیں تو گزری تاریخ سے سبق لے سکتے ہیں۔ تاریخ میں ہر موقع پر ہم سمجھتے رہے ہیں کہ ہم سب کچھ جاننے کے قریب ہیں، بس تھوڑا سا اور ۔۔ اور ہم ہمیشہ غلط تھے۔ “آج” اس وجہ سے خاص نہیں کہ یہ ہمارا وقت ہے۔
ہمیں ابھی بہت سے امکانات کھلے رکھنے ہیں۔
ہمارا علم اتنا زیادہ نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں، نہیں، نہیں اور نہیں۔
اس کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں کہ توہمات، دیومالائی کہانیاں، قصے، فلسفیوں کے مسترد شدہ خیالات بھی کل کبھی درست نکل سکتے ہیں۔ صدیوں سے ہم قدرت کا مشاہدہ رہے ہیں، طریقے سے اس کو جانچ پرکھ رہے ہیں، اس سے واقف ہو رہے ہیں۔ اس کی سرگوشیاں سن رہے ہیں۔ ہمیں پتا لگ رہا ہے کہ یہ سب کن اصولوں کے تحت چلتا ہے۔ ہمارا علم جمع ہو رہا ہے، پھیل رہا ہے۔ بہت سی چیزیں ہم اچھی طرح سمجھ چکے ہیں۔
مثلا،
ستاروں یا ہاتھوں کی لکیروں سے قسمت کا حال بتانے والے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں
رات کو قبرستان میں چڑیلیں نہیں ہوتیں
زمین گول ہے اور سورج کے گرد گردش کرتی ہے
اس دنیا کی عمر چند ہزار سال نہیں۔ اس کی لمبی تاریخ میں نوعِ انسانی کا وقت ناقابلِ ذکر ہے
ہم اس زمین اور سمندر کی تہہ کا چپہ چپہ دیکھ چکے ہیں۔ اس میں جل پریاں، کوہِ قاف کی پریاں، زیرِ زمین بالشتیے نہیں ہیں
اڑن طشتریوں سے یہاں پر کوئی خلائی مخلوق نہیں آتی
ٹیلی پیتھی بچین میں پڑھی کتابوں میں ہی ہو سکتی ہے
کالی بلی، چاند گرہن، پنکھے کی ہوا، کوے کے بولنے سے لے کر ہزاروں چیزوں سے وابستہ سینکڑوں علاقائی توہمات کے درست ثابت ہو جانے کا کوئی امکان نہیں۔
انگوٹھی کے نگینے، کاغذ پر لکھے الفاظ، پتلے میں چبھوئی سوئیوں وغیرہ کا ہمارے صحت سے کوئی تعلق نہیں۔
نیم کے پتے گرم پانی میں ابال کر پانی پیا جائے تو کینسر ٹھیک نہیں ہوتا۔
چونکہ تاریک مادہ کا ابھی ہمیں خاص علم نہیں، اس لئے کیا پتہ کوہِ قاف کی پریاں بھی ٹھیک ہوں، اچھی دلیل نہیں۔ امکانات کھلے رکھنے کا مطلب یہ نہیں۔
ہمارا علم اتنا کم نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا مرکزی خیال ایگلمین کے ایک پروگرام سے