گذشتہ دنوں روس میں جنگ عظیم دوم میں فتح کی اکہترویں سالگرہ منائی گئی۔ یہ سالگرہ ہر سال 9 مئی کو منائی جاتی ہے اس لیے مئی کے آغاز سے ہی ٹی وی پر جنگ عظیم دوم سے متعلق پروگرام دکھائے جانے لگتے ہیں یا عمومی پروگراموں کو اس تاریخی سانحے کے ساتھ منسوب کر دیا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ آنے کے بعد میرے جیسے بہت سوں کی ٹی وی دیکھنے میں دلچسپی ماند پڑ گئی ہے۔ لیپ ٹاپ سے اکتا کر میں نے ویسے ہی ٹی وی آن کیا تو معروف پروگرام “میرا انتظار کرو” دکھایا جا رہا تھا، جو سرکاری اداروں کی معاونت سے بچھڑے ہوووں کو تلاش کرکے ملانے کا پروگرام ہے اور زبردست انسانیت نواز کاوش جو کئی عشروں سے جاری ہے۔ اس پروگرام میں چوہتر برس پہلے جرمن نازی فوج کے ہاتھوں سارے بڑوں کے مارے جانے کے بعد دو نو عمر یہودی بچوں کی داستان بتائی جا رہی تھی جنہوں نے چار اور پانچ سال کی عمروں میں پیدل چل کر ساڑھے چھ سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا تھا۔ جرمن سپاہیوں کی جانب سے پھینکے جانے والے روٹی کے سخت کناروں کو مٹی سے چن کر کھاتے ہوئے وہ جہاں پہنچے تھے وہاں دونوں بھائی ایک دوسرے سے بچھڑ گئے تھے۔
اس داستان میں ساتھ ہی ساتھ جنگ عظیم کے دوران بنائی جانے والی دستاویزی فلموں کے ٹکڑے بھی دکھائے جا رہے تھے جن میں قتل عام کے مناظر بھی تھے اور زور زبردستی کے بھی۔ مثال کے طور بیلاروس کے گاؤں بابی یار کے نزدیک ڈیڑھ لاکھ یہودی مردوں ، عورتوں، بچوں، بوڑھوں کو مارا گیا تھا۔ بیشتر کو تو اجتماعی قبروں میں زندہ دفن کر دیا گیا تھا۔ البتہ ایک منظر تھا جس نے مجھے بہت پریشان کیا۔ کسی مقام پر مارنے کی خاطر لے جانے کے لیے یہودی اور جرمن مخالف عورتوں کو اکٹھا کیا جا رہا تھا۔ ایک جرمن سپاہی ایک ڈھائی تین سال کے بچے کو کندھے سے اٹھا کر آٹھ دس قدم دور چھوڑتا ہے اور واپس آ کر اس کی ماں کو پیچھے سے لات اور بندوق کا کندا مارتے ہوئے پہلے سے جمع عورتوں کی جانب دھکیلتا ہے، اس اثنا میں بچے کو جہاں چھوڑا تھا، وہاں سے بچہ تیزی کے ساتھ ماں کی جانب دوڑتا ہے۔ منظر ختم ہو جاتا ہے۔ میں بہت دکھی ہو جاتا ہوں، نامعلوم جرمن سپاہی کو بلند آواز سے صلواتیں دینا شروع کر دیتا ہوں۔ مجھ پر یک لخت ایک امر آشکار ہوتا ہے۔ وہ سپاہی کم از کم بچے کو مارے جانے سے بچانے کی کوشش کر رہا تھا اگر وہ چاہتا تو ماں کو بچہ ساتھ لے جانے دیتا، ساتھ ہی وہ بھی مارا جاتا۔
جی ہاں، تاریخ فاتحین لکھواتے ہیں۔ اتحادیوں نے جو مظالم ڈھائے ہونگے ان سے کوئی آشنا نہیں کیوں کہ وہ جیت گئے تھے۔ ہیروشیما ناگاساکی میں گرائے جانے والے ایٹم بم، جرمنی کے شہر ڈسلڈروف پر کی گئی کارپٹ بمباری جس سے شہر کی سڑکوں کا کولتار پگھل گیا تھا۔ چند روزہ اس بمباری میں تقریبا” دو لاکھ انسان ظاہر ہے بمع عورتوں اور بچوں کے لقمہ اجل بنے تھے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جنگ اپنی اصل میں بھیانک ہوتی ہے۔
کسی بھی انسان کو اگر وہ انسان ہے جنگ پسند نہیں۔ جبر و مصائب انسانیت کی توہین ہوتے ہیں۔ قتل چاہے کوئی بھی کیوں نہ کرے جرم ہوتا ہے۔ قتل کی سزا قتل کرکے دینا بھی جرم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں میرے جیسے کروڑوں لوگ ہیں جو سزائے موت کے مخالف ہیں۔ مگر بعض اوقات مجھ جیسوں کو بھی سمجھ نہیں آتی کہ جو کئی انسانوں کو قتل کریں، قتل کروائیں یا قتل کرنے میں معاونت کریں، ان کی سزا کیا ہونی چاہیے۔ عالمی فوجداری عدالت نے اس کا حل کر دیا ہے کہ تا دم آخر ایسے شخص کو قید میں رکھا جائے۔
میں یہ بنگلہ دیش میں مطیع الرحمان کو دی گئی پھانسی کے ضمن میں لکھ رہا ہوں۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے روس کے سب سے بڑے چینل “پیروے چینل” کی مین نیوز میں دکھایا جا رہا تھا کہ ڈھاکہ کی سڑکوں پر لوگ مطیع الرحمان کو دی جانے والی پھانسی کی خوشی منا رہے ہیں۔ مطیع الرحمان کی تصویر کو جوتوں سے پیٹ رہے ہیں۔ ان میں اسیے بھی جن کی داڑھیاں ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں؟ شاید جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے مخالف لوگ ہوں لیکن ان میں ایسے لوگ بھی تو ہو سکتے ہیں جن کے ماں، باپ، بھائی بہن کو تب کی دہشت گرد تنظیموں البدر اور الشمس کے غںڈوں نے قتل کیا تھا۔ یہ تو بنگلہ دیش کا ٹریبیونل ہی جانتا ہے کہ شاید یہ لوگ جن کو پھانسیاں دی گئی ہیں یا دی جانے والی ہیں وہ اپنے ہی ہم وطن مخالفوں کے براہ راست قاتل رہے ہوں۔ مکتی باہنی نے بہت ظلم کیے تھے ویسے ہی جیسے نازیوں کے بارے میں ثبوت دکھائے جاتے ہیں لیکن بنگلہ دیش کی آزادی کے حامیوں کو مارنے والوں کے ظلم بھی کچھ کم نہیں ہونگے جو اتحادیوں کے جرائم کی مانند پوری طرح سامنے نہیں آئے۔
جب میں نشتر میڈیکل کالج ملتان میں ابتدائی برسوں کا طالب علم تھا تو عمران نام کا ایک مشرقی پاکستانی بنگالی طالبعلم مجھے اچھا نہیں لگتا تھا جو ہم سے اگلی کلاس میں امتحان نہ دینے کی وجہ سے ہمارا ہم جماعت بن گیا تھا۔ مجھے یہ نوجوان “سوڈو” سا لگتا تھا۔ سال 1971 تھا، ایک روز کلاس میں پروفیسر کے آنے سے پہلے وہ روسٹرم پر آ گیا تھا۔ اس کی بہن نے ڈھاکہ سے کسی طرح اسے فوج اور اس کےحمایتی گروہوں کی جانب سے ہو رہی ظلم و زیادتی، قتل و غارت کی تصاویر کسی طرح بھجوائی تھیں۔ اس نے ایک ایک فوٹو لہرا کر شعلہ بیان احتجاجی تقریر کی تھی، ساتھ ساتھ وہ روتا بھی جا رہا تھا۔ میں تب ویسے بھی بھاشانی کو پسند کرتا تھا۔ میں نے اسے دلاسہ دینے کی کوشش کی تھی یوں ہم دوست بن گئے تھے۔ وہ بہت اچھا انسان تھا۔ میں نے اپنے تعلقات استعمال کرکے اس کے اپنے وطن جانے میں بھی مدد دی تھی۔ تو وہ کون لوگ تھے جنہوں نے عمران کو خون کے آنسو رلا دیے تھے؟ پھر میں 1994 میں ماسکو سے ایک انتہائی رقیق القلب بنگلہ دیشی نوجوان حسن کے ہمراہ بنگلہ دیش گیا تھا۔ حسن فرید پور کا رہنے والا تھا۔ جب ہم رابندر ناتھ ٹیگور کے کنٹری ہاؤس کو دیکھنے جانے کی خاطر کشتی میں سوار ہو کر دریا پار کرنے کی خاطر فرید پور میں بہنے والے دریا کے کنارے پہنچے تھے تو حسن نے اپنی اداس آنکھوں سے دریا کو دیکھتے ہوئے کہا تھا،” بھائی ان دنوں اس دریا میں دور تک انسانی لاشیں بہہ رہی ہوتی تھیں” یہ بتاتے ہوئے اس کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں۔ اور کسی کا نہیں آپ اپنے پاکستان کے مایہ ناز ادیب مستنصر حسین تارڑ صاحب کا ناول “راکھ” پڑھ لیں، آپ کو معلوم ہوگا کہ نہ عمران نے جھوٹ بولا تھا نہ حسن نے۔
ممکن ہے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنماؤں کے ساتھ انصاف نہ کیا جا رہا ہو لیکن یاد رہے کہ انصاف سے ہم یہ بھی مراد لیتے ہیں کہ مجرم کو وکیلانہ موشگافیوں کی مدد سے بچنے کا پورا موقع فراہم کیا جائے۔ یہ بھی درست ہے کہ یہ لوگ جو مجرم ثابت ہو رہے ہیں پینتالیس برس سے سربرآوردہ ہو کر بنگلہ دیش میں کیونکر رہ رہے تھے۔ ان پر اتنے عرصے بعد گرفت کیوں کی گئی لیکن یہ بھی نہ بھولا جائے کہ آج بھی ستر سے زیادہ سال گذرنے کے بعد نازی بھگوڑوں کو کٹہرے میں لایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان سے محبت جرم بن گیا، کیسی عجیب بات کرتے ہیں آپ؟ اگر کوئی پاکستان میں رہتے ہوئے بھارت کی محبت کا دم بھرے تو کیا اسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔ اتنا جھوٹ تو نہ بولیں، ایک بیوقوف نوجوان نے ہندوستان کا جھنڈا لہرا دیا تھا تو اسے دھر لیا گیا تھا۔ یہ کوئی غلط بھی نہیں، اگر کسی ملک سے عناد ہے تو اپنے ملک کا کھا کر اس ملک سے محبت کرنے کی وجہ بیان کی جانی چاہیے جیسے سارے ہی پاکستانی ہندوستانی فلمیں پسند کرتے ہیں لیکن ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے مخالف ہیں۔ ہے ناں ستم ظریفی۔
وقت گذرنے کے ساتھ ماضی میں کیے گئے جرائم کی شدت کم نہیں ہوا کرتی۔ جرم جرم ہے چاہے میں کروں یا آپ۔ چاہے آج کریں یا پینتالیس برس پہلے کیا گیا ہو۔