اس وقت میں جس کمرے میں بیٹھا ہوں وہ اس پرانے کمرے کا آدھا حصہ ہے جہاں بیٹھ کر میں نے انچاس سال پہلے اپنی ہونے والی اہلیہ کو بیاہ سے بدکانے کی غرض سے ایک خط لکھا تھا جس کا عنوان تھا، " مونی ایک ڈرامہ دیکھو"۔ اس خط میں میں نے اپنے دوکچے کمروں والے گھر اور اس میں رہنے والوں کا نقشہ کھینچا تھا۔
موصوفہ ایک ڈاکٹر کتھےی بیٹی تھی۔ ظاہر ہے وہ ہماری نسبت خوشحال تھے جبکہ ہمارے گھر میں گرچہ اطمینان ہمیشہ رہا مگر خوشی شاید ہی ڈیرہ ڈال سکی ہو۔ پر وہ اس خط کو پڑھنے کے بعد بھی نہیں بدکی تھی۔ اصل میں میں خود اپنی مرضی کے اس بیاہ سے بدک رہا تھا۔ وہ بدکی تو تیرہ برس بعد اور ایسی بدکی کہ کھونٹا تڑوا گئی۔ آج وہ کسی کھونٹے سے نہیں بندھی ہوئی نہ جب کہ میں نے ایک نہیں کئی کھونٹے خود سے گاڑے۔ ان سے خود کو باندھا بھی کھولا بھی مگر بندھے کا بندھا رہا۔ اخلاقی نتیجہ تو یہی نکلتا ہے کہ بدکنا بے سود ہوتا ہے۔
تب اس کمرے میں ٹوٹی پھوٹی اینٹوں کا اونچا نیچا فرش تھا۔ دیواروں پر نیلے پوچے کی ٹوٹتی ہوئی پپڑیاں تھیں۔
اس گھر میں ایک بوڑھی ہوتی ماں، تین جوانی سے نکلتی ہوئی بہنیں دو بھائی دو بھابیاں تھیں۔ اب اس گھرمیں سات کمرے ہیں ۔ایک بہن بیاہی گئی تھی جواب بیوہ ہوجکی ہے اورلاہور میں اپنے گھر میں اکیلی رہتی ہے۔ دو بہنیں بن بیاہی رہیں اور بڑھاپے کے آخری کناروں پر ہیں ۔ ماں، بھائی اور بھابیاں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ایک رنڈوے بھائی تراسی برس کے جوان شخص ہیں۔ گھر میں ان کی ایک بہو اور ہوتے کا اضافہ ہو چکا ہے۔
آدھا کرکے پورے بنائے گئے اس کمرے کا سیمنٹ والا فرش ٹیڑھی میڑھی اینٹوں کے فرش کی نسبت ڈیڑھ فٹ اونچا ہے۔ چارپائیاں گھر کے مکینوں کی طرح پرانی ہیں اور اس کمرے کی دیوار سے چونے کی قلعی کچھ جگہوں سے چھوٹ کر دیوار کے سیمنٹ کو ننگا کیے ہوئے ہے۔ لگتا ہے یہ کمرہ خود سے پرانی یادوں کو جھاڑ چکا ہے تبھی اتنا خاموش ہے کہ دور کمرے سے آتی ٹیلیویژن کی صدا اس کو جھنجھنا رہی ہے۔
وقت بدل گیا ہے۔ گھر کے مکینوں کے حلیے بدل گئے ہیں۔ ستر کی حدوں سے گذر جانے کے باوجود دونوں بہنیں اسی طرح فعال ہیں جیسے انچاس بلکہ ساٹھ سال پیشتر تھیں۔ اگر نہیں بدلا تو محلے کی گلی اور بدرو تبدیل نہیں ہوئی۔ اسی طرح سیاہ غلیظ پانی سے بھری ہوئی اور متعفن ۔
ہاں البتہ بتانے والوں کے مطابق اس شہر میں جتنے موٹربائکیس ہیں ملک کے کسی شہر میں اتنے نہیں ہیں۔ شہر کی سڑکوں کو دیکھ کر یہی گمان ہوتا ہے کہ آدھا شہر دکاندار ہو چکا ہے۔ اس بڑے قصبے یا چھوٹے سے شہر میں ٹریفک جام ہو جاتی ہے۔ یہاں کچھ اچھا بھی ہوا ہے۔ آج ایک پہلی جماعت سے ساتھ پڑھنے والا ملنے آیا جو پرائمری سکول میں ہمارا مانیٹر ہوا کرتا تھا۔ وہ جس کے بڑوں کو قصبے کے ساتھ ملحق ایک بستی میں کوئی اختیار نہیں تھا اسے ہم بچوں پر اختیار حاصل ہو گیا تھا جس کا وہ بڑھ چڑھ کر استعمال کیا کرتا تھا۔ دسویں جماعت پاس کرکے پی ٹی سی کی اور پرائمری سکول کا استاد بنا۔ اس کے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، سب کے سب پوسٹ گریجویٹ۔ ایک بیٹا برازیل میں کیمسٹری کی پوسٹ ڈاکٹریٹ کر رہا ہے۔ یہ سب سن کر از حد خوشی ہوئی۔
کتنی عجیب بات ہے کہ دنیا کے بہترین ملکوں میں رہ لو، معروف شہر گھوم آو مگر طمانیت کا احساس اسی شہر اور اسی گھر میں ہوتا ہے جہاں آپ کا بچپن بیتا ہو۔ درست کہ گڑھل کا وہ پودا نہیں رہا جس کے سائے میں بچھے تخت پر میری ماں عبادت کیا کرتی تھی۔ نہ وہ بھٹیارے رہے نہ ان کی بھٹیاں جہاں سے ہم ایک آنے یا گھر سے لے جائی گئی گندم کے عوض گرم گرم بھنے ہوئے چنے لاتے، ماں اس تخت پر بیٹھی تسبیح پر ورد کر رہی ہوتیں، میں اور میرا چھوٹا بھائی اس پاک صاف تخت پر بکھیرے چنے کے دانے طوطوں کی طرح ٹائیں ٹائیں کی آوازیں نکالتے ہوئے ہاتھوں کی بجائے ہونٹوں سے اٹھا کر کھانے کا مقابلہ کرتے تو میری ماں کی ہنسی چھوٹ جایا کرتی تھی۔ نہ ہی ان اس چھت پر جہاں اب میں دھوپ میں بیٹھا لکھ رہا ہوں اونٹوں کے گلے میں بندھی گھنٹیوں کی آواز آ رہی ہے بلکہ موٹر سائیکلوں کے ہارن اورگڑگڑاہٹ سنائی دے رہی ہے مگر ہے تو یہ وہی گھر جہاں وہ سب تھے جو اب نہیں ہیں یا ویسے نہیں رہے جیسے ہوا کرتے تھے یا کچھ نئے آ گئے ہیں مگر مقام تو وہی ہے جس سے میری نسبت ہے یعنی علی پور ضلع مظفرگڑھ کے محلہ اسلام پورہ میں مولویوں کا گھر جو میری والدہ کے باپ اور بھائی کے دینی علماء ہونے کے سبب پکارا جاتا تھا۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1737447232948046
“