(Last Updated On: )
~~ امکانی غزل ~~
وقت بے وقت کا الہام بھی ہو سکتا ہے
خاک ذادہ یہاں گلفام بھی ہو سکتا ہے
موت کے ہاتھ سے تو جس کو چھڑا لایا ہے
ترا قاتل وہ سر عام بھی ہو سکتا ہے
چند اشعار سے شہرت کی بلندی پا کر
ترا شاعر کبھی گمنام بھی ہو سکتا ہے
سر محفل تری مدح سرائی کر کے
وہی مطرب پس دشنام بھی ہو سکتا ہے
تو نے فطرت کی حسیں چال کو سمجھا نہیں
ترا دشمن یہاں ناکام بھی ہو سکتا ہے
اے مری چشمِ غزالاں اے مری راحت جاں
تری آنکھوں کا بدل جام بھی ہو سکتا ہے
کوئی خوددار یہاں اپنے بھرم کی خاطر
چند سکوں پہ وہ نیلام بھی ہو سکتا ہے
یہ تو سوچا بھی نہ تھا کار اخوت میں برا
مرے ایثار کا انجام بھی ہو سکتا ہے
اے مرے دوست ذرا دیکھ اندھیرے میں کہیں
آمد صبح کا یہ پیغام بھی ہو سکتا ہے
زندگی خار کا رستہ سہی لیکن تابشِ
یہاں کچھ دیر کو آرام بھی ہو سکتا ہے