’’وقت اور قوتِ خرید‘‘ کے تناسب کا احساس جبلی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت اور پیسے میں ٹائی ہو تو ظاہر ہے وقت کی اہمیت زیادہ ہے لیکن اگرکسی معاشرے یا معاشروں میں ارتقائی عمل نے اقدار کو بدل دیا ہو تو اِس حقیقت کی اہمیت کا جبلی ادراک وجودِ انسانی میں اپنی نشست بدل بھی سکتاہے۔ ایک طرف وقت بچانے کا سوال ہو اور دوسری طرف پیسہ بچانے کا سوال ہو تو عام طور پر پیسہ بچایاجاتاہے جو کہ فی الاصل جبلی عمل نہ ہونے کے باوجود خودکار ہے اور اِس لیے جبلی کہلانے کا مناسب اُمیدوار۔
البتہ ریاضیاتی طریقے پر ایک مقدمہ ہماری رہنمائی اس حقیقت کی طرف کرتا نظر آتاہے کہ ’’وقت کی اہمیت کا حقیقی ادراک جبلی ہے بنست مال و متاع کے‘‘۔ وہ اس طرح کہ،
اگر ہم دونوں اقدار(Numerical Values) کو تیزی کے ساتھ دونوں انتہاؤں پر لے جا کردیکھیں اور ان کے آپس میں تناسب کا جائزہ لیں تو فیصلہ ہوجاتاہے کہ وقت زیادہ اہم ہے۔ مثلاً اگر پیسہ بڑھادیا جائے تو وقت کی اہمیت کا جبلی ادراک خودبخود نمودار ہوجاتاہے اور اگر وقت تنگ کردیا جائے تو پیسے کی کم اہمیتی کا جبلی ادراک خوبخود نمودار ہوجاتاہے۔
لیکن یہاں ایک غلط فہمی پیدا ہوجانے کا احتمال ہے اس لیے وضاحت کیے دیتاہوں کہ میرا مقدمہ فرد کے جبلی عمل سے متعلق ہے نہ کہ قوم کے اجتماعی شعور سے۔ یہ بات کہ ’’فرد کا عمل ہی قوم کا عمل ہے‘‘ میرے مقدمہ سے متعلق نہیں۔ بایں وجہ کہ میرے مقدمہ سے اِس معروف نتیجہ پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ میں نے کہا کہ ’’پیسہ زیادہ ہوتو فرد میں وقت کی اہمیت کا جبلی ادراک خودبخود نمودار ہوجاتاہے‘‘۔ بظاہر اس سے یہ غلط فہمی پیدا ہورہی ہے کہ مثلاً سعودی عرب کے شیخوں کے پاس پیسہ زیادہ ہے لیکن انہیں وقت کی اہمیت کا کوئی ادراک نہیں وغیرہ۔ لیکن یہ معاملہ قوم کے اجتماعی شعور سے متعلق ہے۔ سعودی شیخ کے پاس اگر پیسہ زیادہ ہے تو اس کا بھی بطور فرد وقت کی اہمیت سے متعلق جبلی ادراک فزوں تر ہوجائے گا۔ وہ سکول سے اپنے بچوں کے لینے کے لیے خود نہیں جائے گا بلکہ اس کا ڈرائیور جائیگا۔ یہ ہے فرد کا جبلی ادراک۔ پیسہ بڑھنے کے ساتھ ہی وہ جانتاہے کہ اب وقت بچانا چاہیے۔ یہ الگ معاملہ ہے کہ ’’بچا ہوا وقت کہاں استعمال کرناچاہیے‘‘۔ اس سوال کا تعلق کہ بچا ہوا وقت کہاں خرچ کرنا چاہیے قومی اجتماعی شعور کے ساتھ ہے اور قومی اجتماعی شعور کا تعلق اچھی اخلاقی تعلیم وتربیت کےساتھ ۔ جبکہ میں سِرے سے بات ہی پہلی تہہ کی کررہاہوں۔ پہلی تہہ، یعنی فرد کی جبلت ۔ فرد کی جبلت کے نتائج قوموں میں مختلف ہوسکتے ہیں لیکن یہ بات کہ پیسہ بڑھ جائے تو کسی فرد کے ذہن میں وقت کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، غیردرست نہیں ہے۔
آپ کی ماہانہ آمدن کروڑوں روپے ہوجائے تو آپ وقت کی پیسے پر فوقیت سے خودبخود واقف ہوجائیں گے۔ ہوسکتاہے آپ گاڑی کی بجائے ہیلی کاپٹراستعمال کرنے لگیں۔ بعینہ اگر آپ غریب تر ہوں لیکن وقت اپنی کمی کا شدت سے احساس دلانے لگ جائے تو آپ پیسے کی کمی کو کم تر قدر قراردیتے ہوئے وقت ہی کی اہمیت کے جبلی ادراک کے حامل ہونگے۔ یعنی آپ کے پاس وقت کم ہو اور پیسہ بھی کم ہوتو تب بھی آپ کا یہ جبلی ادراک کہ پیسہ کی اہمیت وقت سے کم ہے نمودار ہوجائے گا۔
یہ تو ہم نے وقت اور پیسے کی انتہاؤں پر جاکر دیکھاتو معلوم ہوا کہ ہردو صورتوں میں وقت کی اہمیت کا ادراک جبلی ہے لیکن جب ہم اِن انتہاؤں پر نہیں ہوتے تو جبلی عمل اس کے بالکل برعکس ہوجاتاہے۔ ہم نے پیسہ بہت زیادہ بڑھا کر دیکھا یا وقت کو بہت زیادہ کم کرکے دیکھا۔ ہم نے درمیان میں نہیں دیکھا۔ یعنی نارمل پیسہ اور نارمل وقت کی حالت میں ہم نے اس مظہر کا (افراد میں) مشاہدہ نہیں کیا۔ نارمل صورتِ حال میں عموماً وقت کی اہمیت کا جبلی ادراک باقی نہیں رہتا اور اس کی جگہ پیسے کی اہمیت کا جبلی ادراک پیدا ہوجاتاہے۔ یہی بات عجیب ہے۔ جبلت کو یکساں ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہے۔ اِسی بنا پر اِس انوکھے موضوع نے میری توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔ یعنی سوشل سائنس میں یہ بات استخراج کا درجہ رکھتی ہے کہ کسی بھی انسان کی ترجیحات کا تعلق اس کی قوتِ خرید کے ساتھ جبلی ہے۔
مثلاً آپ کے کوئی دوست روزانہ پیسہ بچانے کے لیے میٹرو پرسفر کرتے ہیں اور ٹیکسی نہیں لیتے۔ اب ایسا کرنا جرم نہیں کیونکہ محدود آمدنی والا شخص پیسہ نہیں بچائے گا تو گزارا کیسے کرے گا؟ دراصل یہ مسئلہ ایک خاص تناسب میں ہی دیکھاجاسکتاہے۔ یعنی مشاہدہ کرتے وقت، وقت اور پیسے کا ایک خاص تناسب ہونا لازمی ہے۔آپ غریب ہیں اور عام حالات میں ہیں تو آپ کی جبلت آپ کو پیسہ بچانے کی طرف مائل کردے گی۔ بہت گہرائی میں یہ سروائیول کی انسٹنکٹ ہے، جسے جہدِ للبقأ کہتے ہیں اور یہ ایک ہی جبلت ہے نہ کہ متغیر لیکن اس کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ وقت اور قوتِ خرید کے مختلف تناسبات میں متغیر ہوکر اپنے وجود کا اظہار کرتی ہے۔
مثلاً آپ جانتے ہیں کہ آپ کا وہ دوست ٹیکسی افورڈ کرسکتاہے لیکن پھر بھی گھر سے پیدل نکلتاہے اور اپنی منزلِ مقصود پر پیدل پہنچتاہے، درمیان میں صرف میٹرولیتاہے، تو اگر اُس کی ایسا کرنے کی باقی کوئی معقول وجوہات مثلاً ورزش وغیرہ کا خیال، موجود نہیں ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ جبلی طور پر اب پیسے کو وقت سے زیادہ اہمیت دینے لگا ہے۔ نتیجۃً وہ اپنی زندگی میں کم کم ایسے کام کرپائے گا جو اسے ہمیشہ زندہ رکھ سکیں۔ اس کے چہرے کی ساخت بدل جائےگی۔ اس کی عادات ناپسندیدہ ہوتی جائیں گی اور اس کا ذہن آہستہ آہستہ مفلوج ہوتاچلاجائے گا لیکن اگر وہ ٹیکسی لینے لگ جائے تو یہ سب کچھ بدل سکتاہے۔ دراصل یہاں واقعہ کیا پیش آیا ہے، جس کی وجہ سے اُسے اتنے نقصانات ہوئے؟
اس نے اپنا وقت ضائع کیا
جب وہ اپنی قوتِ خرید سے کسی سفر کو مختصر کرسکتاتھا تب اس نے قوتِ خرید کو محفوظ رکھا اور سفر کو لمبا رہنے دیا۔ یا ایسی ہی دیگر مثالیں، گویا کہ علیٰ ھذالقیاس۔
پیسہ بھی بہت زیادہ ہو اور وقت بھی بہت زیادہ ہو تو فردوقوم کی تباہی لازم ہے۔ پیسہ زیادہ ہو اور وقت کم ہو تو ’’منفرد اور شدید مثبت یا منفی‘‘ نتائج کے امکانات زیادہ ہیں۔ پیسہ کم ہو اور وقت زیادہ ہو تو یہ فرد کی کاہلی کا ثبوت ہے جبکہ پیسہ بھی کم ہو اور وقت بھی کم ہو تو یہ عظیم تر نتائج کے بے شمار امکانات کے دروازے کھول دینے والی آئیڈیل صورتحال ہوسکتی ہے۔ ایسی صورت میں زندگی کی اندرونی، مخفی توانائی جوعام حالات میں، سینے میں کہیں پوشیدہ رہتی ہے یکلخت نکل کر سامنے آجاتی اورجبلی طور پر یعنی خودکار طریقے سے ہر صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔ شاید اُس مخفی توانائی کو بعض بزرگ ’’قوتِ عشق‘‘ بھی کہہ کر پکارتےہیں۔
اِس اُمید پر کہ اپنے مقدمہ کے دوسرے حصے، یعنی،
’’لیکن اگرکسی معاشرے یا معاشروں میں ارتقائی عمل نے اقدار کو بدل دیا ہو تو اِس حقیقت کی اہمیت کا جبلی ادراک وجودِ انسانی میں اپنی نشست بدل بھی سکتاہے‘‘
پر کسی اور وقت لکھونگا، یہیں اجازت چاہتاہوں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“