"واقعہ سے افسانے تک"
٭ا٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس عنوان سے جاری بحث میں شرکاےؑ گفتگو کی دل چسپی ایک خوش آیند امر ہے
کہ افسنوی ادب کی تکنیک کو سمجھنے اور سمجھانے کے صحت مند رجحان میں کویؑ کمی نہیں۔ سب کی راےؑکا احترام میرا اخلاقی فرض ہے خواہ وہ مبتدی ہوں یا کہنہ مشق۔ آج سمجھنے کی خواہش رکھنے والے پی کل سمجھانے والے والے ہونگے، ایسا تمام فنون کا معاملہ ہے
واقعات ہر شخص کی زندگی میں ہمہ وقت رونما ہوتے ہیں۔۔ صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے۔۔ عمر یونہی تمام ہوتی ہے۔ جہاں ہم بطور فرسٹ پرسن موجود نہیں ہو سکتے ان کی رپورٹ ایک خبر کی صورت میں ملتی رہتی ہے چنانچہ جو بتاتا ہے وہ رپورٹر کہلاتا ہے اور اس کی نیک نامی اصل واقعات کی درستگی سے بتدریج بنتی جاتی ہے۔ تصویر اس رپورٹ کے ساتھ اضافی سند بنتی ہے(اب فوتو شاپ کے امکان کو مد نظر رکھنا پڑتا ہے) ۔۔رپورٹر کوصرف کیا ہوا کیسے ہوا تک محدود رہنا چاہےؑ۔۔ کیوں ہوا؟ یہ بتانا تجزیہ کار کا کام ہے یا تفتیش کرنے والے کا۔ واقعہ کی رپورٹ میں بنیادی حقایؑق بیان کرنے کے بعد رپورٹر کا فرض پورا ہو جاتا ہے۔مثلا" کسی بس کا حادثہ۔۔ رپورٹرفوری طور پربتا ہی نہیں سکتا کہ تکنیکی خرابی تھی تو کیا اور غفلطی تھی تو کس کی ۔ خیال ارایؑ سے ذہن کو امکانات کی طرف موڑ کے وہ پیشہ ورانہ فرایؑض سے بد دیانتی کا مر تکب ہوتا ہے
اب آتے ہیں کہانی کی طرف۔۔ کہانی انسان کی سرشت میں ہے چنانچہ دادی امان کی کہانی ہویا الف لیلےٰ والی جن پری کی کہانی آج اکیسویں صدی میں بھی اپنی تمام ناقابل یقین وجوہات کے باوجود مقبول ہے۔ اس کی مثال "ہیری پوٹر" سلسلے کے دنیا بھر میں مقبول ہونے والے جادویؑ ناول ہیں جن پر فلمیں بھی سپر ہٹ ہوییؑں اور لکھنے والی خاتون کو ڈالروں میں کروڑ پتی بنادیا یا"۔۔ممی 4"جیسی سلسلہ وار ہارر فلمیں ۔ایسا ہی معاملہ کارٹون کرداروں کا ہے، در اصل شیر خوار سے ٹین ایجرتک کا ذہن اس کا منطقی تجزیہ نہیں کرتا جو دکھایا جاتا ہے۔۔۔ مثلا" " ٹام اینڈ جیری" میں پیش کےؑ جانے والے واقعات۔۔ ٹام روڈ رولر کے نیچے چپٹا ہو کے پھر کھڑا ہو جاےؑ تو دیکھنے والا:ٹی وی بند نیں کر دیتا کہ یہ کیا بکواس ہے بلکہ اسی انہماک سے دیکھتا رہتا ہے۔۔ خلاصہ یہ کہ کہانی میں واقعات کا منطقی جواز غیر اہم ہے
افسانہ کی تعریف مشکل بھی ہے اور آسان بھی۔۔ یہ کسی خبریا واقعہ پر۔انسانی نفسیات کے امکانات کی روشنی میں اور ممکنات کے دایؑرے میں ۔ افسانہ نگارکی پروازخیال ہے جس کے افق کی حدود کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔ مثال پھر اسی خبر یا واقعہ کی لیتے ہیں ۔ ایک بس کے حادثے میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوتے ہیں۔ قطع نظر ان کے نام کے یا حادثے کی وجوہات کے۔۔ ایک افسان نگار کاذہن ہر لاش میں کویؑ افسانہ نہاں دیکھ سکتا ہے۔ ایک بڈھا ہلاک ہو گیا جو کسی نابالغ بچی کو ونی میں بیوی بنانے جارہا تھا۔۔اس مظلوم بچی کے اور اس کے ساتھ یہ غیر انسان سلوک کرنے والوں کے جذبات متضاد ہوں گے کیونکہ ان کی سوچ کے دھارے الگ ہیں۔۔ مگر بس کو جانے دیں
حادثہ موٹر ساییکل کا ہواجس میں صرف ایک عورت اور ایک مرد ہلاک ہوےؑ ۔وہ میاں بیوی۔ ماں بیتا یا بھایی بہن ہوتے تو ایک نارمل واقعہ ہوتا ۔۔افسانہ یوں بنے گا کہ وہ محبت کرنے والے تھے۔۔ ایسا یہاں چند ماہ قبل ہوا جب اسلام آباد میں ایک ناکے پرواضح اشارے کے باوجود ایک نوجوان نے کار نہیں روکی تو پولیس نے فایؑر کیا۔ نشانہ لینا نامکن تھا مگر بد قسمتی کہ گولی نوجوان کو پیچھے سے سر میں جالگی ا ور وہ مرگیا ۔ تفتیش میں معلوم ہوا کہ نوجواں کے کار نہ روکنے کی وجہ کیا تھی۔ گاڑی کے کاغزات پورے نہیں تھے اور سواری کے اس کے ساتھ ہونے کا اخلاقی جوا ز نہیں تھا۔ وہ کالج چھوڑ کے اپنے محبوب یا خریدار کے ساتھ جارہی تھی،جب لڑکی عینی گواہ بنی تو اسے سب تسلیم کرنا پڑا۔اب افسانے بنے۔ نہیں معلوم اس کے اہل خانہ پر صدمے کے علاوہ کتنا عزاب آیا۔ بدنامی۔ رسوای۔ دوسری بہنوں کے رشتے ٹوٹنا۔ شادی شدہ بہنوں کی سسرال میں بے عزتی۔۔افسان نگار سب دکھا سکتا ہے جو ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے۔ افسانہ در افسانہ۔۔
یہی پلاٹ پوتا ہے۔ آگے بات آجاتی ہے اسلوب کی۔ اسلوب ہی بیانیہ ہے۔اس میں افسانہ نگاراپنی قوت اظہار کا کمال دکھا سکتا ہے۔ سب کے پاس ذخیرہؑ الفاظ ایک ہی ہے اور وہ لاکھوں میں نہیں چند ہزارہی ہوتے ہیں۔ ایک ماہر خانساماں اور ایک عام ہاوس وایٖف کی دسترس میں وہی مسالے ہوتے ہیں۔۔ ذایقہ پھر بھی ہوٹل میں سینکڑوں کو روز کھینچ لاتا ہے ورنہ گھر میں ایک شوہر کو بیزار کر دیتا ہے،، الفاظ افسانہ نگار کے مسالے ہیں۔۔ ان کے استعمال کا سلیقہ تحریر میں حسن پیدا کرتا ہے اورتحریر دل پر نقش ہو جاتی ہے ۔ ورنہ اقاری اسے سرسری نظر سے دیکھ کر بھول جاتا ہے۔۔ اس خیال کو میں یکسر مسترد کرتا ہون کہ مشکل الفاظ کا اثر زیادہ اور دیر پا ہوتا ہے۔ پڑھ لیں کرشن چندر کے یا منٹو کے افسانے۔جو۔روانی اور سلاست میں خاموشی سے بہتی ندی ہیں۔۔ سیلابی یا پہاڑی دریا نہیں۔ حسن جو سادگی کا ہے وہ مہنگے سے مہنگا بیوٹی پارلرپیدا نہیں کر سکتا۔۔ کرتا ہے تو محض سراب ہوتا ہے۔ شب عروسی کی صبح ولی دلہن کے لطیفے یاد کریں
اب آخری بات۔۔ افسانے کی طوالت۔۔ اس کا تعین آج تک کویؑ نہ کر سکا نہ کر سکا۔۔" سیاہ حاشیے" کی چند سطریں بھی مکمل افسانہ ہیں ، شفاق احمد کا "گڈریا" بھی۔۔ قرۃالعین حیدر کا " ہاوسنگ سوسایؑٹی" بھی (جو کتابی صورت میں ناولٹ بن گیا۔) اصولا " مجھے اس کو ناولا کہنا چاہےؑ۔۔ بہت لمبا افسانہ "طویل مختسر افسانہ" تھا۔کینوس یعنی وقت کا پھیلاو زیادہ ہو تو ناول۔۔مایؑکروف ۔۔ سو لفظوں کی گنتی والا یا مقابلے پر 50 اور 10 لفظوں کا افسانہ سب "ایجاد بندہ اگرچہ گندا"۔۔ میں یہاں دنیا کا سب سے مختصر شہکار افسانہ پیش کرتا ہوں جو نوبل انعام یافتہ ادیب ارنسٹ ہمنگوے نے لکھا
CHILD SHOES FOR SALE NEVER USED
اب آپ تصور کے گھوڑے دوڑاییؑے۔1کیا بچہ مرگیا تھا 2۔بچہ معذور پیدا ہوا تھا 3۔ بچہ پیدا ہی نہیں ہوا کیونکہ (الف) بیوی یا شوہر میں سے ایک بانجھ تھا (ب) شادی کے فورا" بعد طلاق ہوگیؑ (ج) قصور کس کا تھا اور کیا (د) 4۔ جوتے کسی نے چرا لےؑ تھے جو قیمتی تھے اور بیچنے والے کوپیسے کی ضرورت تھی۔۔۔ علیٰ ھذالقیاس۔۔ لا محدود تصورات اور امکانات۔۔ یہی افسانے کی کامیابی ہے کہ اختتام آپ کے ذہن کو جھنجوڑتا نہیں تو سوچنے پر ضرور مجبور کر دیتا ہے
مجھے کویؑ دعوےٰ نہیں کہ "مستند ہے میرا فرمایا ہوا"
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔