ٹھوکریں کھا کے جو سنبھلتے ہیں
نظم گیت وہی بدلتے ہیں
وہ ترسے ہیں روشنی کے لیے
جن کے خوں سے چراغ جلتے ہیں
بے سبب مسکرانا کیا معنی
بے سبب اشک بھی نکلتے ہیں
گھیر لیتی ہے گردش دوراں
گیسوئوں سے جو بچ نکلتے ہیں
دوستو فیضِ راہروی معلوم
آئو دوگام پھر بھی چلتے ہیں
ہم نقیب بہار ہیں محسن
راہبر راستے بدلتے ہیں
محسن بھوپالی
سبزی ریڑی تقریبا خالی کیے خوشی سے گھر پہنچا۔ والدہ دیکھتے ہی آبدید ہوگئیں۔ میرے لال آگئےہو۔ عاشر خوشی سے لوجی اماں آج تو سبزی جلدی فروخت ہوگئی۔ اس لیے تو میں جلدی واپس آگیا۔ اماں جی میں نے سبزی کے "دام" کم کردئیے۔ اس سب نے مجھ سے سبزی خریدی۔
میرے لالعل اس طرح کی اچھی سوچ تمہیں پہلے آجاتی تو آج تم سبزی نہ بیچ رہے ہوتے۔
اماں جو ہونا تھا سو ہوگیا اب آپ دعا کیا کریں۔ آگے سب اچھا ہو۔
ہاں بیٹا پر تیرے "ابا مرحوم" اتنی جائیداد چھوڑی تھی کہ تمہاری کئی نسلیں سکون سے گزارہ کر سکتی تھیں۔ کیسے کیسے دوست پالے تم نے جو آج تم سے پوچھتے تک نہیں۔
فرحان کو دیکھو تمہارے پیسے سے کاروبار کیا پھر فیکٹری ہڑپ کر بیٹھ گیا۔ کتنا سمجھاتی تھی تمہیں کہ چاہے کتنے اچھے دوست ہیں کاروبار کے لیے تمہارے پاس ثبوت ہونا چاہیئے کاغذات کی صورت میں۔
عاشر اکتا کر ساتھ ہی نل پر منہ دھوتے ہوئے کہاں "اماں جان اب ان باتوں کا لوئی فائدہ نہیں ہے"۔ آپ ہر روز مجھے وہ باتیں یاد کرواتی ہیں۔ جو میرا دل جلاتی ہیں۔
پر بیٹا تمہیں یاد ہونا چاہیئے تم نے زندگی میں کہاں کہاں کیا کوتاہی کی ہے۔ جس کی بدولت آج تم سبزی بیچنے پر مجبور ہو۔
تم نے پڑھائی نہ کی۔ اگر اس وقت اچھے سے پڑھ لیتے تو پھر بھی سبزی کی جگہ کہیں ملازمت تو کر لیتے۔ عاشر ایک امیر باپ کا "اکلوتا بیٹا" تھا۔ باپ کی وفات کے بعد دوست اور رشتےدار سب کاروبار کا مشورہ دیتے۔ سب نے اپنا مفاد ہی حاصل کیا۔ ایک دوست نے مشورہ دیا تو اس کے ساتھ مل کر "پیٹرول پمپ" کھول لیا۔کچھ عرصہ بعد اس نے جھوٹی لسٹ پکڑا دی کی بھاری خسارہ ہوا ہے۔ پھر کسی نے "ٹرانسپورٹ" کا مشورہ دیا کہ اس میں بہت منافع ہے۔ اس میں بھی پہلے کی طرح فراڈ ہوا۔ عاشر نے دوسروں پر اعتبار کرنا نہ چھوڑا۔ اس وجہ سے ابھی تک سبق حاصل نہیں کیا تھا۔ پھر ایک ماموں نے "ٹریول ایجنسی" کا مشورہ دیا۔ کہ اس سے تمہارے پہلے والے نقصان کا ازالہ ہوجائےگا۔ عاشر اپنی زمین ماموں کو سونپ دیتا ہے۔ اسی دوران ایک "حسینہ" اس کے دوست کے ساتھ مل کر عاشر پر محبت کا جال ڈالتی ہے۔
عاشر جب اس کے چکروں میں آتا ہے تو جو پیسے وہ کاروبار میں ضائع کرتا ہے اب اس لڑکی پر لوٹانے لگتا ہے۔
وہ حسینہ آئے دن نئی فرمائش کرتی ہے۔ عاشر کے ساتھ دنیا جہاں کی سیر کرتی ہے۔ شادی کا جھوٹا وعدہ کرکے اس سے گھر، گاڑی، بینک دولت لیتی ہے حتی کہ عاشر کی امی کے زیور بھی لے لیتی ہے۔ پھر عاشر کے دوست سے شادی کرلیتی ہے۔
عاشر کی امی اس سب صورتحال میں ہر مقام پر اسے سمجھاتی ہیں۔ مگر عاشر کے سر پر کبھی نہ ختم ہونے والی دولت کا بھوت ہوتا ہے جو ماں کی آواز سننے نہیں دیتا۔
جب پوری طرح کنگال ہوجاتا ہے۔ مطلبی دوست اور رشتہ دار بھی چھوڑ جاتے ہیں اور وہ زیریلے طعنے مارتے ہیں۔ گھر سے بھی بےگھر ہوجاتا ہے۔ کیونکہ وہ حسینہ اپنے نام پر رجسٹرڈ کروا چکی تھی۔ عاشر کو اسی کے گھر سے ہی تھکے مار کر نکال دیتی ہے۔ اب مجبوری کرائے کے گھر رہنے پر مجبور کرتی ہے۔ کافی عرصہ فاقے کاٹنے کے بعد وہ سبزی فروش بن جاتا ہے۔ اور یہ حالات وہ اپنے لیے خود ہموار کرتا ہے۔