وقت کی آغوش میں زندہ، سبطِ حسن
سبطِ حسن بائیں بازو کا وہ معتبر حوالہ ہے جن کے کیے ہوئے کام کا اِحاطہ کسی ایک تحریر یا مقالے میں ممکن نہیں ہے ۔ اور پھر کسی ایسے شخص کے لیے تو یہ امر اس لیے بھی مُحال ٹھہرتا ہے جو محض 17سال کی عمر میں پہلی بار ان کی تحریروں کے ذریعے ان آدرشوں اور افکار سے رُوشناس ہو اجو بجا طور پر نوعِ انسانی کا عظیم اور مُستَند ورثہ ہے ۔جو باصدِ افتخار یہ کہتا ہے کہ اگر اُس وقت میں نے سبطِ حسن کو نہیں پڑھا ہوتا تو آج میں کچھ بھی ہو سکتا تھا مگر ایک انسان ہر گز نہیں ۔ سبطِ حسن نے بِلا شبہ لاکھوں اَذہان سے جہالت اور توہمات کے وہ جالے صاف کیے جو ورثے میں خون و قِتال کی سوغاتوں کے سوا کچھ نہیں دے گئے اور اس کا بھیانک اظہار ہمیں آج بھی دنیا بھر میں نظر آتا ہے ۔ سبطِ حسن جیسی کثیر الجِہات شخصیت کی بے شمار خوبیاں بیان کی جا سکتی ہیں ، ان کے بے شمار پہلو ہیں جن پر بات کی جا سکتی ہے لیکن ان کا سب سے بڑا وصف ان کی طبقاتی وابستگی ہے ۔ ان کی تحریروں کا تخصص ان کی مزدور دوستی ، مظلوم دوستی اور بشر دوستی ہے جن کی بنیادیں تاریخ کے مادی وجدلیاتی نظریات پر اُستُوار ہیں ۔ ہمارا ممدوح کم از کم چار نسلوں کا معلم و راہنما ہے ۔ہمارے سماج میں انقلابی افکار کے اولین ماخَذ کے طور پر ان کی تحریروں کی حیثیت آج بھی مُسلَمہ ہے ۔ دو ،تین ہزار الفاظ کے کوزے میں اس سمندر کو سمونے کے ہنر سے یہ طالب علم قاصر ہے ۔
افلاطون نے کہا تھا کہ ’’ بچے اگر اندھیرے سے ڈریں تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ،مگر بڑوں کا روشنی سے ڈرنا حیرت کی بات ہے ۔‘‘ سیاست اور صحافت کے میدانوں سے لے کر تصنیف وتالیف تک سبطِ حسن عمر بھر یہی ہنر آزماتے رہے۔ وہ بچوں کو تیرگی کی حقیقت اور بڑوں کو روشنی سے رُوشناس کرتے رہے ،نت نئی کرنوں کے در وا کرتے رہے ۔ اُن کی زندہ اور توانا تحریریں آج بھی یہی فریضہ ادا کرتی ہیں ۔
مجھے کہنے دیجیے کہ سبطِ حسن کی کتاب ’’ موسیٰ سے مارکس تک ‘‘ کا اردو یا ملک کی کسی اور زبان میں آج بھی کوئی نِعم البدل نہیں ہے ۔ کون سا مصنف ، کو ن سی کتاب ہے جو سوشلزم کی عہد بہ عہد تاریخ کو اس خوبی اور کمال سے بیان کرتی ہے ۔ جو قاری کے قلب و ذہن پر ثبت ہو جاتی ہے اور وہ ’’ کمیونسٹ مینی فیسٹو ‘‘ اور ’’ داس کیپٹیل ‘‘ کے مطالعے سے قبل ہی طبقات میں منقسم دنیا ، اس کے اسباب ، اس کے خلاف کی جانے والی جدوجہد اور اس کے ہتھیاروں سے آشنا ہو جاتا ہے ۔ ہمارے سماج میں آج بھی یہ سوشلزم کی تاریخ پر واحد مستنددستاویز کی حیثیت رکھتی ہے جو آپ کسی نوجوان انقلابی کو اعتماد سے دے سکتے ہیں ۔
ان کی کتاب ’’ نویدِ فکر ‘‘ آج بھی سماج کی ان ترقی پسندقوتوں کا نظریاتی ہتھیار ہے جو عقائد بنے ان بوسیدہ توہمات کے خلاف مصروفِ جہد ہیں جو زمین پر آسمان کی حکمرانی قائم کرنے کے خبط میں مُبتَلاہو کرایک ایسے فرضی’’ مثالی مُعاشرے‘‘ کے قیام کے لیے نوعِ انسانی کے شرف اور وقار کو مسلسل روند رہے ہیں جو کبھی وجود ہی نہیں رکھتا تھا ۔
چونکہ سبطِ حسن کی وابستگی محنت کش طبقے سے ہے اور اسی کی آئیڈیالوجی کے تناظر میں وہ ماضی کا تجزیہ کرتے ہوئے حال سے مستقبل تک کی رہنمائی کرتے نظر آتے ہیں ۔وہ جب ’’ انقلابِ ایران ‘‘ پر قلم اٹھاتے ہیں تو یہاں انھیں ایرانی دیو مالائی کردار کاوہ آہن گر کی صورت میں محنت کش انسانوں کی طبقاتی جدوجہد نظر آتی ہے جو ظالم اور استحصالی طبقات کے نمائندے ضحاک نامی بادشاہ کے خلاف اپنی دَھونکنی کا علم بلند کیے ہوئے ہے ۔ ایران ہی کے انقلاب پر سبطِ حسن کا نقطہ نظر کس قدر درست ثابت ہوا ہے کہ مذہبی لبادہ اوڑھے سیاسی گروہوں کی قیادت قبول کرنے کے بھیانک نتائج نمودار ہوتے ہیں ۔
بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں ، بمبئی کے جہازیوں اور کیرلہ وبنگال سے تلنگانہ کے کسانوں تک کی انقلابی روایات کا ورثہ لیے تاریخ کے ایک جبری عمل کے نتیجے میں جب سبطِ حسن یہاں آئے تو یہاں بھی ان کا مرکز ومحور محنت کش انسان ہی تھا ۔ انھوں نے جب وادیِ مہران کی طبقاتی جدوجہد کے ایک سُورما صوفی شاہ عنایت شہید پر قلم اٹھایا تو ’’ وادیِ سندھ کا سوشلسٹ صوفی ‘‘ جیسی بے نظیر تحریر منصہ شہود پر آئی ۔ صوفی شاہ عنایت شہید پر ایسی تحریر نہ اس سے قبل اور نہ اس کے بعد لکھی گئی ۔مجھے کہنے دیجیے کہ تاریخ کے مادی نقطہ نظر سے یہ تحریر بے بدل اور منفرد ہے۔
اسی نقطہ نظر سے جب وہ ’’ پاکستان میں تہذیب کا ارتقا ‘‘ نامی کتاب میں پیر روشن کے نام سے شہرتِ دوام پانے والے بایزید انصاری اور ان کی روشنائی تحریک کا ذکر کرتے ہیں تو پھر پیر روشن مغلوں سے نبرد آزما محض ایک روحانی شخصیت یا جنگی سردار نہیں رہ جاتے جسے اس کے مخالفین پیر تاریک اور کافِر وملحدجیسے القابات سے نوازتے ہوئے قابل گردن زَدَنی قرار دیتے ہیں ،بلکہ پیر روشن بجا طور پر محنت کار عوام کی جِدوجُہد کا اِستعارہ ٹھہرتے ہیں۔ اپنے ٹھوس سائنسی تجزیے میں سبطِ حسن ہمیں بتاتے ہیں کہ’’ پیر روشن کی تحریک اپنی تمام مذہبی رنگ آمیزیوں کے باوصف سرحد کے عوام کی پہلی آزادی کی تحریک تھی ۔اس کی نوعیت گجرات ، مالوہ ، سنبھل ،جونپور ،پٹنہ اور بنگال کے پٹھان سرداروں کی بغاوت سے اس وجہ سے مختلف تھی کہ موخرالذکر علاقوں کے پٹھان سردار اپنی ذاتی ریاستوں کی خود مختاری کے لیے لڑتے تھے۔ جب کہ پیر روشنی کا مقصد پٹھان علاقوں سے مغل اقتدار کو ختم کرنا تھا تاکہ پٹھان قبائل ماضی کی مانِند آزاد اور خود مختار زندگی بسر کر سکیں۔‘‘
سرمائے پر محنت کی فتح کی نوید دینے والے سبطِ حسن سوشلسٹ بلاک کے خاتمے سے قبل ہی راہی ملکِ عدم ہو چکے تھے ۔ اس انہونی کو ہوتے دیکھ کر پتا نہیں ان کے احساسات کیا ہوتے ۔اس کے متعلق صرف قِیاس ہی کیا جا سکتا ہے ۔ عالمی کمیونست تحریک کے اُس شکستوں بھرے دور میں چشمِ فلک نے کیا کچھ نہیں دیکھا اور زمین زادوں نے کیا کچھ نہیں سنا ۔اُسی دور میں ایک نام نہاد ’’بے داغ مارکسی استاد‘‘ کہتا ہے کہ’’ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا ایک نئے دور میں داخل ہو گئی جو امن ، آزادی ،برابری ، جمہوریت ، بنیادی انسانی حقوق ،سماجی انصاف اور سوشلزم کا دور
ہے ۔‘‘ یعنی سوویت یونین کے خاتمے کے بعد دنیا ہلاکت خیز جنگوں سے محفوظ ہو گئی ہے اور اس کے نتیجے میں سوشلزم آئے گا۔ بہر حال زندگی نے موصوف کو ایسے کہیں مناظِر دکھائے جو ان کے اس دعوے کا عملی جواب تھے ۔ اسی طرح ایک صاحب کو روشنی کی کرنیں مغرب وامریکا سے پھوٹتی نظر آئیں۔ اُسی زمانے سے یادگاربائیں بازو کے ایک نام نہاد’’ بزرگ انقلابی رہنما‘‘ہیں جو آج بھی اپنی تقاریر میں سوشلزم کو ازکار رفتہ کہتے نہیں تھکتے ۔یہ وہی ’’بزرگ انقلابی رہنما ‘‘ ہے جنھوں نے مشرف جیسے فوجی آمِر کی حمایت کی اور جب فوجی آمروں کو نوازنے پر آئے تو ملک میں ہونے والی تمام تر ٹھوس اور دور رَس آئینی اصلاحات کا اعزاز بھی فوجی حکومتوں کو بخشا۔اسی طرح وہ انقلابی پارٹی جس کے رہنماؤں اور کارکنوں نے جنرل ایوب سے لے کر جنرل ضیا کے اذیت خانوں میں جانوں کے نذارنے پیش کیے ، قید وبند کی صعوبتوں کا سامنا کیا اور سالہا سال تک ریاست کی شیطانی مشینری کا جبر سہا ، اس کا ایک رہنما سوشلزم سے توبہ تائب ہواتوجاگیرداروں اور وڈیروں کی نمائندہ سیاسی جماعت کی حلقہ بگوشی اختیار کر لی ۔وہی جماعت جس کے بانی کے نامہء اَعمال میں بنگال اور بلوچستان میں قتل عام سے لے کر مزدوروں پر گولیاں برسانے، ایک سیکولر جماعت پر پابندی عائد کرنے اورمذہب کو سیاست میں استعمال کرنے جیسے جرائم شامل ہیں۔کچھ عرصہ قبل موصوف یہ گل افشانی کرتے ہیں کہ ’’ افسوس کہ جب میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کا جنرل سیکریٹری تھا تو مارکسزم بشمول ٹراٹسکی ازم کی اتنی سمجھ نہ تھی ورنہ شاید کسی حد تک میری اور بڑی حد تک ملک کی تاریخ شاید مختلف اور بہتر ہوتی ۔‘‘ ان کے استادتو ان سے بھی دو ہاتھ آگے نکلے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد رُبع صدی تک ’’ جمہوریت ، جمہوریت‘‘ کی گردان کرتے رہے پھر اچانک’’ بائیں بازو کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ‘‘ کے عنوان سے انگلش میں ایک کتاب لکھتے ہیں جس میں وہ مارکسزم،لینن ازم کی ایک بھی نظریاتی خامی کی نشاندہی نہیں کر پائے۔ کیا سِتم ظریفی ہے کہ سبطِ حسن کی فکر سے وابستہ رفیق ہی اس کتاب کو شایع کرتے ہیں اور سبطِ حسن کے نظریاتی دشمنوں کو پروپیگنڈے کا ایک آلہ فراہم کرتے ہیں ۔بہر کیف ان بے سروپا اتہامات کا مُدلل اور ٹھوس جواب بھی سبطِ حسن کے آدرش پر یقین رکھنے والے کامریڈ ڈاکٹر مصدق حسین اپنی کتاب ’’ بائیں بازو کے مارکسی منحرفین اور مارکسی نظریات ، ایک تاریخی وتحقیقی مُطالَعہ ‘‘ میں دیتے ہیں۔
اس وقت معروضی حالات اس نہج پر ہیں جس میں ہمیں بطورِ ترقی پسند اور انقلابی سبطِ حسن، ان کے افکار اور ان کے مخالفین کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ کریہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ ہم اس لکیر کے کس طرف کھڑے ہیں ۔
نظریاتی کجروی اور اِنحِرافات کے اُس دور میں ایک ایسا انقلابی شاعر بھی ہو گزرا ہے جو ’’ ایک تار کا ٹکڑا لے کر تلواروں کے مقابل آنے ‘‘ جیسی نظموں سے شہرت کی رَتھ پر سوار ہوتا ہے اور پھر مارکس کی داڑھی اور لینن کے کوٹ سے الجھتے ہوئے شاعری کو سجدہ کرا نے کی سطح پر آجاتا ہے ۔ انقلابی نغموں کے لیے مشہور ایک خوش گُلُو انقلابی ٹیلی ویژن پر آکر نظامِ انہضام کی خرابیوں سے پیدا ہونے والے الٹے سیدھے خوابوں کی تعبیر بیان کرنے لگ جاتا ہے ۔تاریخی اور جدلی مادیت پر یقین رکھنے والے کتنے ہی نام ہیں جن کی جائے پناہ خانقائیں ٹھہریں۔محنت کش طبقے کی سیاست کرنے والے ، طبقاتی جِدوجُہدکا درس دینے والے کتنے ہی نام ہیں جنھوں نے لِسانی اور نسل پرست سیاست کی آغوش میں جا کر پناہ لی۔
آپ کہیں گے کہ ان باتوں سے سبطِ حسن کا کیا تعلق ہے ؟ ۔یہ تو ان کی وفات کے بعد کی داستان ہے ۔میں نہایت ادب سے عرض کرتا چلوں کہ ان کا سبطِ حسن سے گہرا تعلق ہے ۔ کیوں کہ نظریاتی کجروی اور اِنحِرافات کے اُس دور کو جو چیز روند کر زندہ رہی ہے وہ سبطِ حسن کی تحریریں ہیں ۔ جب یہ سارے لوگ نئی نسل کے اَذہان کو اپنے حصے کی مایوسی اور قُنوطِیت کے زہر سے آلودہ کر رہے تھے تو یہ سبطِ حسن کی تحریریں ہی تھیں جو رجائیت کا درس دیتے ہوئے تریاق بنیں ۔ مجھے کہنے دیجیے کہ میری نسل کے انقلابیوں میں سے بیشتر کا استادبائیں بازو کا کوئی سکہ بندلیڈر نہیں ہے بلکہ اس نے سبط حسن کی تحریروں سے جلا پائی ہے اور جلا پا رہی ہے ۔ سبطِ حسن آج بھی استاد ہے ۔
وقت کی آغوش میں زندہ سبطِ حسن کی کتابوں میں ایک اَہم کتاب ’’ ماضی کے مزار ‘‘ ہے جو 47سال قبل لکھی گئی اور اب تک اس کے 18ایڈیشن شایع ہو چکے ہیں ۔ یہ کتاب آج پہلے سے زیادہ متعلقہ ،زیادہ تروتازہ ہے ۔اورآج اس کی ضرورت بھی پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کتاب میں سبطِ حسن ہمیں بتاتے ہیں کہ ’’ پرانے عقائد کی خدائی ختم ہو جاتی ہے لیکن نئے مذاہب کی ہر آستین میں اور عِمامے کے ہر پیچ میں پرانے بت پوشیدہ رہ جاتے ہیں ۔ ‘‘ یہ کتاب انہی پرانے اور نئے بتوں کو سماج پر بزور مسلط کرنے والوں کے خلاف عقل اورخِرَدکی جہانبانی کا رَجز نامہ ہے ۔
یہ کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ خود انسان کی طرح اس کے عقائد ارتقا کے کن مراحل سے گزرے ہیں ۔ کیونکر انسان خدائی مقام پر متمکن ہوئے اور تقدیر اور حیات بعد الموت کے افسانوں کا ماخَذ ومنبع کیا ہے ۔ سبطِ حسن کا یہ علمی کارنامہ اَبنائے وہم ورَجعَت کے لیے نِصف صدی سے باعثِ تکلیف ہے ۔کیوں کہ یہ ایک ایسے انسان دوست نقطہ نظر سے ان کی بوسیدہ بنیادوں پر حملہ ہے جو تاریخ میں ہمیشہ مردود قرار دیا گیا ہے ۔اس نقطہ نظر کی پاداش میں سروں کی بے شمار فصلیں کاٹی گئیں اور اپنے عہد کے اجلے دماغ زینتِ دار بنائے گئے۔ ان پر زمین تنگ کر دی گئی ۔ اس قِتال میں بالادست طبقات کے ہم نوااور ہمکار ہمیشہ مذہبی پیشواہی رہے ۔اور وہ زمانہ ابھی ٹلا نہیں ہے ۔عقائد وتوہمات کے نام پر یہ مَہیب طاقتیں ایک بار پھر انسان کَش قوت کے طور پر حملہ آور ہیں ۔جن سوسائٹیوں نے ان کے خلاف مقدور بھر جِدوجُہد کی وہ آگے بڑھیں اور جنھوں نے ہماری طرح اسے پرائی جنگ کا ایندھن بننے کے لیے سینوں سے لگایا وہ سماج جلتے ہوئے زندہ انسانوں کے شمشان گھاٹ کا منظر پیش کرتے ہیں ۔
اگر ہم آج کی دنیا پر نظر ڈالیں تو یورپ وامریکا جسے روشن خیالی کا ماخذ ومحور سمجھا جاتا ہے اسی نے سبطِ حسن کے حقیقی خِرَد افروز اور بشر دوست آدرش کے خلاف دنیا بھر کے مذہبی جُنونیوں کوافغانستان میں جمع کر کے بارود کی وہ فصل بوئی تھی جس سے آج خود وہ اور اس کے شامل باجے محفوظ نہیں ہیں ۔لیکن نام نہاد لبرل جمہوریت کے ان چیمپیئنوں کے خانہ ء عقل میں عبرت نامی کوئی شے نہیں ہے۔ یہ آج بھی القاعدہ ، داعش ، النصرہ ، الشباب اور بوکو حرام جیسی قوتوں کی پرورش کرتے ہیں اور انھیں اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل کے لیے افغانستان سے لے کر عراق ، لیبیا ، شام اور دیگر ممالک میں استعمال کرتے ہیں ۔ ان پالیسیوں کا نتیجہ آج خود یورپ وامریکا میں بائیں بازو کا اُبھار ہے ۔ جسے کو کلکس کلان جیسی بے شمار فِسطائی تنظیموں سے لے کر انتخابات میں رجعتی قوتوں کی کامیابی کے بڑھتے ہوئے تناسب میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے ۔
یہی قوتیں ہیں جو یورپ وامریکا میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر حملہ آور ہوتی ہیں۔یہی کچھ ہمارے پڑوس میں واقع ’’ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ‘‘ کہلانے والی ریاست کے بنیاد پرست کر رہے ہیں ۔ یہ عمل ہم ایسے ممالک کے بنیاد پرستوں کو مذہبی جنونیت کا جواز فراہم کرتا ہے ۔اوریہ جو کچھ کرتے ہیں وہ اُنھیں دلیل فراہم کرتی ہے ۔ہمارے سماج پر تو اس کے تباہ کن اثرات مُرتَب ہوئے ہیں ۔ یہاں اقلیتوں پر حملے ہوتے ہیں، انھیں قتل کیا جاتا ہے اورعبادت گاہیں جلا دی جاتی ہیں ۔یہاں مسیحی محنت کش زندہ جلا دیے جاتے ہیں تو کولھی ، بھیل ، مینگھواڑ ہاریوں کی لاشیں تک قبروں سے نکال کر اچھال دی جاتی ہیں ۔سندھ کے قدیم ہندو باشندوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس کی ایک شرمناک مثال ہے ۔ جبری طور پر مذہب تبدیل کیے جاتے ہیں اور نوجوان بچیوں کو اغواء کر کے زبردستی شادیاں کی جاتی ہیں ۔ وہ اپنا تاریخی وطن چھوڑ کر ہجرت پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ احمدی ، اہلِ تشیع ، اسماعیلی کون ہے جو اس وحشت سے محفوظ ہے ۔
اس صورتحال کے خلاف برسرِ اقتدار یا اقتدار کی منتظر سرمایہ داروں ، جاگیر داروں اور مذہبی پیشواؤں کی کوئی جماعت آواز نہیں اٹھاتی ۔اس وحشت اور بربریت کے خلاف پاکستان سے لے کر یورپ وامریکا تک اگر کوئی مقدور بھر مُزاحَمَت کرتا ہے تو وہ سبطِ حسن کا اشتراکی قبیلہ ہے اس کے انقلابی آدرش سے وابستہ لوگ ہیں ۔اس زہر کا تِریاق لبرل سرمایہ دار ی نہیں بلکہ سوشلسٹ فکرکے پاس ہے ۔
اس تناظر میں سبطِ حسن کی خِرَد افروز، انسان دوست اور سیکولر طرزِ اِستِدلال پر ہی بات کرنا کافی نہیں ہے ۔ بلکہ ان کا سیاسی طرزِ اِستِدلال اور طریقہ کار ہی وہ مؤثرہتھیار ہے جسے وقت نے جملہ انسانی مصائب کا مُداوا ثابت کیا ہے ۔سبطِ حسن کی خِرَد افروزی کو ان کی سیاسی اپروچ سے الگ کرنا ان کی فکر کے جوہر کوقتل کرنے کے مُتَرادِف ہے ۔سبطِ حسن کا جوہر ، ان کی انقلابی روح ،ان کا کمیونسٹ آدرش اور نظریہ ہے ۔اُن کی یہ انقلابی شناخت محنت کش طبقے کے حوالے سے صد فی صد جانبدار ہے ۔
آج سبطِ کی فکر کو کُندکر کے انھیں ایک ’’ غیر طبقاتی دانشور ‘‘ بنا کر پیش کرنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے ۔ یہ سبطِ حسن کا عَلم اٹھائے انھیں ماضی کا مزار بنا دینا چاہتے ہیں ۔ یہ روش دنیا بھر میں عام ہوئی ہے اور یہی کچھ پابلو نرودا ، ناظم حکمت ، محمود درویش اور فیض احمد فیض کے ساتھ شعوری طور پر کیا جا رہا ہے ۔
ان کوششوں کا مزید تاریک پہلو سبطِ حسن کو قید کر نے، انھیں اپنے مُخاطَبین سے دور کرناہے ۔ سبطِ حسن کے پڑھنے والوں میں یوں تو ہر عمر کے لوگ شامل ہیں مگر نوجوان ،طُلَباخاص طور پر سبطِ حسن کا قاری ہے ۔ ان کا تعلق عمومی طور پر محنت کش یا لوئر مڈل کلاس سے ہوتا ہے ۔ لیکن تمام عمر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جِدوجُہد کرنے والے سبطِ حسن کے ناشر کو اس امر سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ اس کے نزدیک سبطِ حسن ایک برانڈ ہے جو بکتا ہے ۔ نفع دیتا ہے ۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ سبطِ حسن کی کتابیں ہوشربا قیمتوں کے باعث اس کے اصل قاری سے دور ہوتی جا رہی ہیں ۔ اس روش ، اس چلن کو کیا نام دیا جائے کہ آج سبطِ حسن کی کتاب پر لکھا ہوا ہوتا ہے کہ ’’ اس کتاب کا کوئی بھی حصہ ناشر کی پیشگی اجازت کے بغیر کسی بھی وضع یا جلد میں کُلی یا جُزوی ،منتخب یا مُکرر اِشاعَت یا بصورتِ فوٹو کاپی ، ریکارڈنگ ، الیکٹرانک ، میکینکل یا ویب سائیٹ اپ لوڈ کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔‘‘ کیا عجب کہ آنے والے دنوں میں اس جملے کا بھی اضافہ کر دیا جائے کہ ’ سبطِ حسن کی کسی
تحریر کاحوالہ دینا بھی ممنوع ہے ۔‘ اب یہ سبطِ حسن کے ناشر اور مرتبین کی صوابدید پر ہے کہ وہ سبطِ حسن کے ساتھ اور کیاکرتے ہیں ۔ اِنھیں سبطِ حسن کے افکار کے پرچار سے دلچسپی ہے یا اپنے منافع اور رائلٹی سے یہ طے کرناان کا کام ہے ۔ یہ صریحاََ کارپوریٹ کلچرکی اپروچ ہے ۔ دنیا بھر میں کہیں بھی ترقی پسند اور انقلابی اس طرح کی کوئی قدغن نہیں لگاتے ۔
یہاں کا نوجوان اگر سبطِ حسن کی تحریروں کا دلدادہ ہے تو وہ ساحر لدھیانوی کی شاعری کا بھی دیوانہ ہے ۔ اس مابعد الطبعیاتی لفظ پر معذرت مگر مجھے کہنے دیجیے کہ ساحر لدھیانوی سبطِ حسن سے کہیں زیادہ خوش قسمت ہیں ۔ پاکستان میں ساحر لدھیانوی کے سر پر کاپی رائٹ ،منافع اور رائلٹی کی کوئی تلوار نہیں لٹکتی ۔ ساحر لدھیانوی پاکستان میں خوب شایع ہوتا ہے اور ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے ۔ ساحر لدھیانوی ہر خاص وعام کی پہنچ میں ہے ۔ سبطِ حسن تو اس معاملے میں علی عباس جلالپوری ، ڈاکٹر مبارک علی اور ڈاکٹر شاہ محمد مری جتنے بھی خوش قسمت ثابت نہیں ہوئے جو اپنے قارئین کی پہنچ سے بالکل دور نہیں ہیں ۔کیا ہی اچھا ہو اگر ہندوستان کا کوئی ناشر سبطِ حسن کی ساری کتابیں شایع کر دے اور ہم وہاں سے منگوا کرپڑھ لیا کریں کہ سبطِ حسن اپنے دیس میں محنت کش عوام کی پہنچ سے دور کر دیا گیاہے ۔
سبطِ حسن اور ان کے افکار کو گنبدِ بے در سے کب نجات حاصل ہو گی ۔ یہ سوچتے ہوئے دماغ کی نسیں پھول جاتی ہیں ۔ ان کے تخلیق کردہ پچھلے خزانے پر تو اجگر بیٹھے ہی ہوئے تھے ۔ ان کے نئے کام کو نہ جانے کس سوچ کے تحت انہی سوداگروں کے حوالے کر دیا گیا ۔ہمارا یہ سمجھنا ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہے کہ سبطِ حسن کی فیملی ان کی کتابوں کی رائلٹی سے زیادہ ان کی انقلابی میراث کو اس کے ورثا تک پہنچانے میں زیادہ دلچسی رکھتی ہے ۔ شاید وہ اس سلسلے میں کوئی راست اقدام کر سکے ۔
سبطِ حسن جس آدرش اور تحریک سے وابستہ تھے وہ آج کمزور ونحیف سہی لیکن یہی تحریک ایک دن طاقتور ہو کر اپنے اس ورثے کو سنبھالے گی ، اسے قید سے نکالے گی اور محنت کش عوام تک اس کی رسائی کو ممکن بنائے گی ۔ سبطِ حسن وقت کی آغوش میں زندہ رہیں گے ۔
( 31دسمبر 2016کو انجمن ترقی پسند مصنفین ، حیدر آباد کمیٹی کے زیر اہتمام منعقدہ سبطِ حسن صد سالہ جشنِ پیدائش کے موقع پر پڑھا گیا )
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“