زندگی کے ہر موڑ پر آپ فیصلے کر رہے ہیں جو ایک شخص پر بڑا گہرا اثر ڈالیں گے۔ وہ شخص “مستقبل کے آپ” ہیں۔ پھر جب یہ دوڑتا وقت اس مستقبل کو جا ملے گا تو آپ ان کئے گئے بہت سے فیصلوں سے ناخوش ہوں گے۔ ان میں سے کچھ کو پلٹانے کی کوشش کریں گے۔ لیکن وقت تو واپس نہیں آتا۔ ہم ایسے فیصلے کیوں لیتے ہیں جن پر بعد میں اس قدر پچھتانے ہیں؟
بنیادی وجہ وقت کی طاقت کے بارے میں تصور کی غلطی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ انسان میں تبدیلی کی رفتار زندگی کے ساتھ سست ہو جاتی ہے۔ بچہ ہر منٹ میں بدل رہا ہوتا ہے جبکہ آپ کے والدین اتنا بدلنے میں سال لگا دیتے ہیں۔ لیکن زندگی کا وہ جادوئی نقطہ کہاں پر ہے جہاں ہم میں ہوتی ہوئی یہ دوڑتی ہوئی تبدیلی، سست ہو کر رینگنا شروع کر دیتی ہیں؟ ٹین ایج؟ مڈل ایج؟ بڑھاپا؟
اس کا جواب، اکثر لوگوں کے لئے “آج” ہوتا ہے، خواہ وہ زندگی کے کسی بھی حصے میں ہوں۔ ہم میں سے ہر کسی کو اس سوچ کا سامنا ہے کہ ہماری اپنی ذاتی تاریخ لکھی جا چکی۔ اب ہم باقی تمام زندگی ایسے ہی رہیں گے جیسا کہ آج ہیں۔ یہ سوچ صرف ایک سراب ہے۔
اس دعوے کو سپورٹ کرنے کے لئے کچھ ڈیٹا۔ یپہلی سٹڈی لوگوں کی ذاتی اقدار کی اہمیت میں ہونے والی تبدیلی کے بارے میں ہے۔ یہ تین اقدار “زندگی سے لطف اندوز ہونا”، “کامیابی” اور “دیانتداری” ہیں۔ یہ ہر کسی میں ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ بڑھتی عمر کے ساتھ ان میں توازن تبدیل ہوتا ہے۔ ہزاروں لوگوں سے پوچھا گیا کہ پچھلے دس برس میں آپ کی ان اقدار میں کس قدر تبدیلی آئی ہے۔ دوسرا سوال یہ کیا کہ آپ پیش گوئی کریں کہ اگلے دس سال میں آپ کے خیال میں کتنی تبدیلی آئے گی۔ حاصل ہونے والا ڈیٹا خاصا دلچسپ تھا کیونکہ اب اس سے لوگوں کے گروپس کا موازنہ کیا جا سکتا تھا۔ یعنی کہ اٹھارہ سال کے گروپ کا موازنہ اٹھائیس سال کی عمر والے گروپ سے کیا جا سکتا تھا۔
تو پھر اس میں کیا نظر آیا؟ پہلی چیز کہ ہاں، آپ ٹھیک ہیں۔ وقت کے ساتھ تبدیلی کی رفتار پر فرق پڑتا ہے لیکن دوسری چیز کہ نہیں، آپ غلط ہیں۔ یہ فرق اتنا نہیں جتنا آپ کا خیال ہے۔ اٹھارہ سال سے لے کر اڑسٹھ سال تک ہر گروپ نے اپنے مستقبل میں تبدیل ہونے کے امکان کا تخمینہ بہت ہی کم لگایا، اس کے مقابلے میں، جتنا وہ گروپ اصل میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس کو ہم “تاریخ کے خاتمے کا سراب” کہتے ہیں۔ یہ فرق بہت زیادہ ہے۔
یہ فرق صرف اقدار کا نہیں، ہر چیز کا ہے۔ نفسیات میں کسی کی شخصیت کی پانچ بنیادی خصائس سمجھے جاتے ہیں۔ (ان کی تفصیل نیچے لنک سے)۔ اس حوالے سے کئے گئے سوالوں میں بھی بالکل ایسا ہی پیٹرن نظر آیا۔ یہ تصور کرنا ہی مشکل ہے کہ آج سے دس سال بعد ہم ایک مختلف انسان ہوں گے۔ حالانکہ ہمیں خود اچھی طرح سے علم ہے کہ دس سال پہلے ہم ایک مختلف انسان تھے۔ اس حوالے سے کئے گئے تخمینے بھی یہی بتاتے ہیں۔
اور یہ صرف اقدار یا شخصیت کے ساتھ نہیں، ہر طرح کی پسند اور ناپسند کے ساتھ ہے۔ آپ کا بہترین دوست کون ہے؟ آپ کہاں چھٹی گزارنا پسند کریں گے؟ آپ کا پسندیدہ مشغلہ کیا ہے؟ آپ کو کس طرح کی موسیقی پسند ہے؟ جب لوگ نے اس کا جواب دیا تو آدھے لوگوں سے پوچھا گیا کہ “آج سے دس برس پہلے آپ کا ان سوالوں کے بارے میں کیا جواب تھا” اور آدھے لوگوں سے کہ “کیا آپ کے خیال میں دس سال بعد آپ کی پسند بدل جائے گی؟” یہاں پر بھی ٹرینڈ واضح تھا۔
کیا اس سے فرق پڑتا ہے؟ بالکل پڑتا ہے۔ ہم اپنے آج کے فیصلے اس مفروضے کے ساتھ کرتے ہیں کہ ہم ہمیشہ ایسے ہی رہیں گے۔ اپنی موجودہ حالت کو دیکھ کر یہ تصور بنا کر کہ کچھ بھی نہیں بدلے گا۔ ہر طلاق لینے والے جوڑا جب اس خوشگوار رشتے میں بندھا تھا تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایسا اس کے ساتھ ہو گا۔
ایسا ہوتا کیوں ہے؟ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یاد تصور سے زیادہ آسان ہے۔ یہ یاد کرنا کہ ہم ماضی میں کیسے تھے آسان ہے۔ یہ تصور کرنا کہ ہم مستقبل میں کیسے ہوں گے، مشکل۔ اور چونکہ یہ مشکل ہے اس لئے ہم یہ غلط تصور بنا لیتے ہیں کہ ہم تبدیل ہی نہیں ہوں گے۔ میں یہاں پر معذرت کے ساتھ آپ سب کو یہ ہوں گا کہ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ “میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ میں تبدیل ہو جاوٗں گا” تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایسا ہو گا نہیں، اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ آپ کی سوچ محدود ہے۔
وقت بہت طاقتور ہے۔ یہ ہماری ترجیحات کو، ہماری اقدار کو، ہماری شخصیت کو بدل دیتا ہے۔ اور ایسا نہیں کہ ہم بے خبر ہیں۔ لیکن صرف ماضی کے حوالے سے اسے تسلیم کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ صرف جب پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ پچھلے دہائی میں ہم ہپلے جیسے تو رہے ہی نہیں۔ تو پھر ہم میں سے اکثر لوگوں کے ذہن میں “آج” وہ جادوئی وقت ہے جب یہ تبدیلی کی کا سبک رفتار خرگوش معجزاتی طور پر کچھوا بن گیا ہے۔ ہم اب کے بعد ایسے ہی رہیں گے۔ انسان تمام عمر ایک زیرِ تعمیر کام رہتا ہے، اس غلط فہمی کا شکار کہ وہ تعمیر ہو چکا۔ آپ کی موجودہ شخصیت اتنی ہی عارضی اور ناپائیدار ہے جتنی اس سے پچھلے برسوں میں رہی ہے۔
اگر آپ کا خیال یہ ہے کہ آئندہ آنے والے برسوں میں آپ کے ساتھ ایسا نہیں ہو گا تو اس غلط فہمی میں آپ اکیلے نہیں۔