لوک کلچر
ہماراپاکستان 20کروڑ آبادی کا مک، جس میں طرح طرح کی زبانیں اور ثقافتیں ایک ہی وقت میں اپنا وجود رکھتی ہیں۔ مثلاً مجھے وسطی اور جنوبی پنجاب میں رہتے ہوئے۔ یہ بالکل بھی نہیں پتہ تھا کہ گلگت میں ایک سے زائد باقاعدہ زبانیں موجود ہیں ۔ اسی طرح صحرائے تھر میں بجائے جانے والے آلات موسیقی کا تو کبھی میں نے سوچا بھی نہ تھا۔
گزشتہ ماہ دسمبر2017میں اسلام آباد میں وزارت اطلاعات و نشریات حکومت پاکستان کے ذیلی ادارے ’’لوک ورثہ‘‘ پاکستان کے زیرِ اہتمام ایک دو ہفتے طویل فوک کلچر اینڈ ہیریٹیج مینیجمنٹ(Folk Culture & Heritage Management)کے حوالے سے ایک ورکشاپ ہوئی۔
اس ورکشاپ میں بوسٹن یونیورسٹی ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے لوک کلچر برائے جنوبی ایشیاء کے عالمی ماہر ڈاکٹر فینک کورم نے تمام نو دن ایک طویل اور جامع لیکچر سیزر سے شرکاء کو عالمی اور علاقائی تناظر میں لوک داستان اور ثقافت اور میلہ اور لوک رواج کے حوالے سے تفصیلی طور پر آگاہ کیا۔ اس پروگرام میں باقاعدہ طور پر کلچر و ثقافت کے حوالے سے عالمی سطح کی کتب بھی فراہم کی گئی اور شرکاء سے یہ توقع رکھی گئی کہ وہ ہر روز مقرہ کتاب کے مطالعہ کے بعد لیکچر میں حاضر ہو گئے اور پروفیسر کورم اُن سے زبانی سوالات وغیرہ بھی کریں گے۔
جبکہ بعد دوپہر اس لیکچر میں مختلف سماجی و ثقافتی شخصیت آتی تھی۔ جن میں پروفیسر سعید فارانی، پروفیسر نادرہ (لمز لاہور)، انکل سرگم ، ڈاکٹر فوزیہ سعید، پروفیسر ترولی (سوات ، صوبہ کے پی کے) سمیت دیگر شامل ہیں۔
اس ورکشاپ میں چونکہ اخراجات کے لیے امریکی سفارت خانہ کے طرف سے مالی معاونت تھی۔ اس لئے شرکاء کے انتخاب کے سلسلہ میں معیار کافی سخت تھا۔ کم از کم ایم فل سطح کے شرکاء کو زیر غور کیا گیا۔ 250کے قریب ناموں میں حتمی طور پر 40لوگوں کو منتخب کیا گیا۔ شائد کچھ علاقوں سے نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے ان علاقوں میں سے کافی نرمی بھی کی گئی۔
ہمارے معاشرہ میں ثقافت کے بارے میں ملا جلا ردِ عمل ہمیشہ سے رہا ہے۔ کلچر کے نام پر ہونے والے پروگرام جس میں عام طور پر صرف گانا وغیرہ ہی ہوتا ہے ۔ ان کے خلاف مذہبی تنظیموں کی طرف سے فوری طور پر احتجاج ۔ عرض بانی کا تو مجھے نہیں پتہ ۔ لیکن میرے ذہن میں بہر حال کلچر کے معانی کچھ واضح نہ تھے۔ یقینی طور پر ہمارے پنجاب اور پاکستان کے اکثر لوگ میرے ہی جیسے خیالات رکھتے ہوں گے ۔ ان کو کلچر ہے کیا؟ اس سوال کا کوئی واضح جواب نہیں ملتا ہو گا۔
اس ورکشاپ میں بہر حال میرے ذہن میں کلچر کے معانی بڑی حد تک واضح ہوئے۔
اس ورکشاپ کی خاص باتوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ 40شرکاء کو 5-6گروپس میں تقسیم کر کے ان کو ورکشاپ کی تکمیل کے لئے ایک ایک عملی پروجیکٹ بنانا تھا۔ اس سلسلہ میں جو پروجیکٹ ہوئے ان میں اول پروفیسر جواد ہاشمی صاحب کا ’’کچی آبادی میں لوک کلچر‘‘ اور پروفیسر ڈاکٹر رزاق چند صاحب ( پی ایچ ڈی آسٹریلیا) جو کہ آج کل سندھ یونی ورسٹی سے وابستہ ہیں ۔ ان کا صحرائے تھر کے ختم ہوتے ہوئے آلاتِ موسیقی کے حوالے سے پروجیکٹ اور پروفیسر نور ولی صاحب اور دولت بیگ کا پاکستان کے پہاڑی علاقوں کے کھیلوں کے حوالے سے پروگرام جس میں خاص طور پر گلگت بلتستان کے اور چترال کے علاقے کے کھیل شامل تھے۔
اس کے علاوہ ہزارہ یونیورسٹی کے پروفیسر عبدالحمید صاحب کا آثار ِ قدیمہ کے حوالے سے پروجیکٹ او ر میرا گولڑہ شریف کی درگاہ اور تاریخی ریلوے اسٹیشن کے حوالے سے پروجیکٹ ۔ یہ پروجیکٹ میں نے اکیلے بنایا تھا۔ ا
س لئے مجھے ایک اور گروپ کے لگا دیا گیا جو کہ ہمارے لاہور کے تاریخی نیشنل کالج آف آرٹس کے ناصر احمد نروان صاحب کا پتلی تماشے کے حوالے سے تھا۔ ان تمام پروجیکٹوں کی اپنی اپنی جگہ پر اہمیت ہے ۔ شرکاٗ میں چونکہ بہت زیادہ تنوع تھا۔ اس لئے شرکاٗ میں موجود سینئر دوستوں سے نسبت جوانوں نے کافی کچھ سیکھا بھی خاص طور پر ڈاکٹر عبدالرزاق چند جو کہ سندھ یونیورسٹی سے آئے تھے اور ڈاکٹر عبدالحمید صاحب فیصل سمیع دہلوی (کراچی) سے ہم لوگوں نے خاص طور پر فائدہ لیا۔ ان کا زندی کا تجربہ تمام نوجوان کے لئے ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہوا ۔ سوات پر ڈاکٹریٹ کرنے والے ڈاکٹر علی دینا خیل بھی گروپ میں ایک نمایاں شخصیت تھی۔
عرض 40میں سے817لوگ جو کہ سینئر تھے ان سے شرکاء نے کافی سیکھا۔ دوسری طرف ایک نوجوان حارث کبیر صاحب بھی تھا۔ جس کو مل کر مزا آ گیا۔ حارث کبیر صاحب این سی اے پنڈی میں لیکچر ار رہے اور پرانی پنڈی پر کافی کام ہے ۔ حارث کبیر بھائی نے تمام گروپ کو پرانی راول پنڈی کا ایک دن تفصیلی دورہ بھی کروایا۔
اس کامیاب پروگرام میں انتظامی طور پر عاصم شہزاد صاحب اور ایمن فاطمہ صاحبہ خاص طور پر تعریف کے مستحق ہیں۔ جنہوں نے بھانت بھانگ کے لوگوں کو دس دن برداشت کیا۔ معاشرہ سے عدم برداشت کا خاتمہ اسی طرح کی ثقافتی پروگرامز کے ذریعے سے ممکن ہے ۔ لوک ورثہ کا یہ قدم مبارک ہو۔ پاکستان زندہ آباد