اِس دور میں نثر لکھنا کمال ہے۔ مگر کالم نگاری کو آج کل ایک فیشن بنا لیا گیا ہے۔ افسانے اور تخلیقی ادبی تحریریں لکھنا ذوق شوق کی آزمائش کی طرح ہیں۔ میرے میانولی کے وقار احمد ملک بہت پکے ارادے اور سچی آرزوسے بھرے ہوئے لگتے ہیں۔ اِ س سے پہلے انہوں نے افسانوں کی ایک کتاب چھاپی ہے جس کانام '' سُرخ بتی''ہے۔ وہ سُرخ بتی کے سامنے رُکا نہیں۔ بلکہ مسلسل چل رہا ہے۔ اُسے منزلوں سے کوئی سروکار نہیں۔ راستوں بلکہ کچے راستوں سے پیار کرنا اُس کا شیوہ ہے۔ جس رستے پر نقشِ قدم نہیں بنتے وہ راستہ نہیں ہوتا۔ اسی لیے تو آج سچے مسافر کہیں نہیں ملتے۔
اس کی دوسری کتاب کا نام'' جنگل میں گاؤں'' ہے۔ لوگ تو صرف جنگل کو منگل بنانے کا شوق رکھتے ہیں مگر وقار احمد ملک کو جنگل میں گاؤں اچھا لگتا ہے۔ اور پھر منگل ہو یا بُدھ ہو سارے دن اچھے لگتے ہیں۔ اب تو گاؤں بھی ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ گاؤں بھی گاؤں کی طرح نہیں رہے۔ اب یہ بات بھی صرف افسانوں میں رہ گئی ہے۔ وقار صاحب جیسے لوگ غنیمت ہیں کہ گاؤں ان کے دل اور ان کی سوچوں میں آباد ہیں۔ مجھے بھی اپنا گاؤں بہت یاد آتا ہے۔ اب تو وہ بھی گاؤں نہیں ہے۔ مگر جنہیں بھولتے ہوئے غم یاد ہیں اور انجانے رومانٹک رویے نہیں بھولتے، کسی پرانی محبت اور ہجر کے موسم کا ذکر اپنے افسانوں میں کر دیتے ہیں تو مجھے وہ شخص اپنی طرح پینڈو لگتا ہے۔ پینڈو ہونا فخر کی بات ہے۔ وقار احمد ملک پینڈو ہے اور میں بھی پینڈو۔ پنڈ نہیں رہے مگر پینڈو تو ہیں۔ وقار صاحب کا شکریہ واجب ہے کہ وہ کتابوں کے درمیان رہتے ہوئے بھی اپنے گاؤں کو یاد رکھتا ہے۔وہ کتاب کے اہمیت کا قائل بلکہ گھائل ہے۔ یہ افسانوں کی کتاب اُس کی دل آباد بستیوں کی یاد دلاتی ہے جو غیر آباد جگہوں پر قائم ہیں۔کتابیں گھروں کی طرح ہوتی ہیں۔ ان میں رہنا چاہیے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...