واپسی متوقع تھی؛ میاں نواز شریف آج شاہد خاقان عباسی، شہباز شریف اور دیگر کی صورت میں ملک پر حکمرانی کر رھے ہیں
میاں نواز شریف کی واپسی متوقع تھی۔ مگر انکی برطانیہ روانگی کو بعض ٹی وی اینکرز اور پی ٹی آئی نے ملک چھوڑنے، بھاگنے، لندن سے پارٹی چلانے اور جلاوطنی جیسے مفروضات سے منسلک کر کے کافی سنسنی پھیلائی۔
میڈیا اور بعض سیاسی پارٹیوں میں اب یہ رحجان کافی مقبول ہے کہ ہر ایشو کو ایک معمہ بنا کر پیش کر دیا جائے۔ معمولی ایشوز کو بھی ایسے پیش کیا جائے جیسے یہ بھی کسی گہری سازش کا نتیجہ ہے۔ سابق وزیر اعظم ایک ایسے وقت میں اپنی بیمار بیوی اس کی دیکھ بھال اور خیال رکھنے گئے جو ان کے لئے اور پارٹی کے لئے کافی بھاری تھا۔ اس اقدام کو اسی نظر سے دیکھا جاتا تو ٹھیک تھا۔
میاں نواز شریف کا واپس آنا اور عدالتوں میں پیش ھونے کا اعلان کرنا اس گلے سڑے سرمایہ داری نظام کو بچانے کی ایک کوشش ہے۔ وہ اگر عدالتوں میں نہ آتے تو ان عدالتوں کا بچا کچھا اعتبار بھی جاتا رھتا۔ یہ عدالتیں تو اکثر حکم جاری کرتی رھتی ہیں، نوٹس جاری کرتی ہیں مگر عملدرامد صرف عام لوگوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
اپوزیشن راھنما خورشید شاہ ٹھیک کہتے ہیں کہ عمران خان اس سسٹم کو اکھاڑنا بچھاڑنا چاھتے ہیں۔ خورشید شاہ اور میاں نواز شریف پرانی طرز کے سرمایہ داری نظام کو بچانے اور چلانے کے وکیل ہیں۔ یہ سہی ہے مگر عمران خان سرمایہ داری کے ایک ایسے حصے کی نمائندگی کرتے ہیں جو upstarts یعنی تازہ تازہ امیر ہوئے ہیں۔ پراپرٹی مالکوں، آمرانہ دور میں ریاستی سرپرستی میں صنعت کاری اور زرعی فوائید حاصل کرنے والوں اور مڈل کلاس کے ان حصوں کی نمائندگی کرنے والے جو ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لوٹ مار کو پرفیشنل ازم کے نام پر دفاع کرتے اور بڑھاتے رھے ہیں۔
وہ پرانے سرمایہ داری نظام کو اپنے کنٹرول میں لے کر نئی طرز کی لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھنا چاھتے ہیں۔ یہ سرمایہ داری کے محافظ ہیں۔ اور اس پر اپنا کنٹرول کرنا چاھتے ہیں۔
میاں نواز شریف کیوں واپس نہ آتے؟ انکی پنجاب، بلوچستان، گلگت بلتستان اور کشمیر میں حکومتوں کے علاوہ فیڈرشن میں بھی حکومت ہے۔ ایک چہرہ اتارا گیا تھا کوئی بنیادی تبدیلی نہ تھی۔ اسی پارٹی کے دیگر راھنما ان کا کردار ادا کرنے کو سامنے آگئے ہیں۔
بقول قتیل شفائی
جب بھی چاہیں اِک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ
ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ
میاں نواز شریف آج شاہد خاقان عباسی، شہباز شریف اور دیگر کی صورت میں ملک پر حکمرانی کر رھے ہیں۔ انکو کچھ ایشوز پر مشکلات کا سامنا ہیے جو وقت اور حالات کے مطابق اپنا راستہ اختیار کریں گے۔ جیل جانے کے امکان پر تحریک انصاف جو بغلیں بجا رھی ہے وہ مستقبل میں ان کے لئے مقبولیت بڑھانے کے نئے مسائل کو سامنے لائے گی۔
بقول میر تقی میر
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا۔
وقتی طور پر اگر نواز شریف کو جیل بھی جانا ہڑا تو وہ جیل جا کرکچھ کھوئیں گے نہیں، پائیں گے اور وہ اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت حاصل کر کے۔ یہ تاریخ کا جبر ہے کہ جیلیں کرپشن ختم نہیں کرتیں اس کو مزید پھیلانے کا سبب بنتی ہیں۔ کرپشن کا خاتمہ افراد کو جیل بھیج کر نہیں بلکہ اس سرمایہ داری نظام کو تباہ وبرباد اور اسکی جگہ ایک ایسے نظام کو لا کر ہی کیا جا سکتا ہے جہاں انسانی ترقی اور برابری کے اصول ہر سطح پر محنت کش عوام خود اپنی منتخب تنظیوں کے زریعے لاگو کریں۔
مسلم لیگ نواز پر ایک حملہ ہوا ہے۔ اس کے پرانے طور طریقوں کو چیلنج کیا گیا ہے۔ اس پر گہری ضرب لگائی گئی ہے۔ اس کی اٹھان سوالیہ نشان بنی ہے۔ اس کی ساکھ مجروح ہوئی ہے۔ اس کو دوبارہ بنتے بنتےوقت لگے گا۔ مگر مسلم لیگ ایسے لوگوں کا اجتماع ہے جو وقت اور حالات سے اپنے طبقاتی مفاد میں سیکھتے رھتے ہیں، اپنا بیانیہ تبریل کرتے رھتے ہیں۔ وہ اپنی طاقت اور اقتدار کو برقرار رکھنے اور چھینی گئی مقبولیت کوواپس لینے کی جستجو میں ہیں۔ پارٹی کے اندر ایک خانہ جنگی جاری ہے۔ زخم پر مرھم رکھنے والی تدبیروں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔
"کونسی حکمت عملی نظام کو بھی بچائے گی اور ھمیں بھی مظبوط کرے گی" اس کا سامنا ہے۔ آج اس مسلم لیگ کوایسے سوالات، تدبیروں اور حکمت عملی کا جن سے انہیں ماضی میں کم ہی واسطہ پڑا تھا۔ مگر یہ منجھے لوگ ہیں۔ مشکلات کا سامنا کرتے کرتے یہ مسلسل اقتدار میںہیں 1980 کی دھائی سے۔ پارلیمانی فیلڈ کے یہ ماسٹرز ہیں۔ انہیں انتخاب جیتنے کے گر آتے ہیں۔ مگر عدلیہ سے نپٹنے کا جو نسخہ ماضی میں کارگر تھا وہ اب مریض کے کام نہ آسکا۔ اور بیماری بڑھ گئی۔
اس لئے بھی یہ ہوا کہ جو ماضی میں دوست تھے ان کو اب اس "خفیہ ھاتھ" کے نام سے پکارا جاتا ہے جو نظر نہیں آتا مگر انکے لئے مشکلات کا باعث ہے۔ مریم نواز نے NA 120 کے بعد ایسی طاقت کے لئے ہی کہا تھا۔ آج نظر انے اور نہ انے والی دونوں طاقتوں کو ھرایا ہے۔ اسی پرانی دوستی کو ایک دفعہ پھر بحال کرنے، ساتھ ملانے اور چلانے کے لئے میاں نواز شریف واپس آئے ہیں۔ اپوزیشن اور اقتدار کا چورن اکٹھا کر کے بیچنے آئے ہیں۔
میان نواز شریف کو اب ایک مکمل نئی صورحال کا سامنا ہے۔ حکومت کے باوجود وہ رعب دبدبہ نہیں جو ماضی کے چار سالوں میں بالخصوص انہیں حاصل تھا۔ اب اشاروں اور ٹیلیفونوں سے بات آگے بڑھ گئی ہے۔ یہ زخمی ہوئے ہیں فوت نہیں۔ زخم بعض اوقات بھرنے کے بعد ایک زیادہ بہتر جسمانی کارکردگی کو سامنے کے آتا ہے۔ علاج جاری ہے۔ اور علاج کے اس مرحلے پر میاں نواز کی واپسی زخم مندل کرنے کی ایک موثر دوا کے طور پر سامنے آئی ہے۔
آج ایک رد انقلابی دور ہے، رائیٹ ونگ طاقتیں نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی پر پھیلا رھی ہیں۔ مزھبی دھشت گردی عروج پر ہے، اور دھشت گردی کو ختم کرنے کے حقیقی علاج کی بجائے تپتے جسم پر پانی ڈال کر ٹمپریچر کم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ دھشت گردی کو فوجی طریقے سے وقتی طور پر دبایا جا سکتا ہے مگر جڑ سے اکھاڑہ نہیں جا سکتا۔
محنت کش عوام کی اپنی تنظیمیں کمزور ہیں۔ ٹریڈ یونینیں تتر بتر ہیں اور پاکستان میں اب تو ایک فیصدبھی ان یونینوں میں منظم نہیں۔ جاگیرداری کے خلاف کسانوں کی تحریکیں کم نظر آتی ہیں۔ اوکاڑہ مزارعین قیادت کو بے پنا مقدمات میں الجھا کر عبرت کا نشانہ بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ ایسے میں جبکہ عوام کی ایک مخصوص تعداد کی بے بسی کی یہ حالت ہے کہ اب عمران خان سے تبدیلی کی بات کو سچا سمجھتے ہیں۔
انہیں بارے قتیل شفائی نے لکھا تھا
خود فریبی کی انھیں عادت سی شاید پڑ گئی
ہر نئے رہزن کو سینے سے لگا لیتے ہیں لوگ
میاں نواز شریف کی پاکستان واپسی سرمایہ درانہ سیاست میں ایک دھڑے کی دوسرے کے خلاف ایک نئی اور موثر چال ہے۔
دوسری طرف تحریک انصاف اب کوئی اور بیانیہ ڈھوندنے کی کوشش کر رھی ہے۔ اس پارٹی کا عروج ہم نے دیکھ لیا ہے۔ اب تو جو اس کے پاس ہے اسے ہی بچا لے تو بڑی بات ہو گی۔
تحریک انصاف کا عروج بنیادی طور پر سیاست کی بڑی زوال پزیری کا اظہار ہے، یہ سیاست کے مزید دائیں طرف جانے کی غمازی کرتی ہے۔ یہ بہتری کا قدم نہیں بلکہ محنت کش طبقے کے لئے ایک اور برا پیغام ہے۔ یہ ھمیں ملے ہوئےبچے کچھے حقوق کا بھی ستیاناس کر دیں گے اگر کبھی یہ چکر وغیرہ چلا کر اقتدار میں آگئے۔
ہم اس وقت ایک بڑے دلچسپ سیاسی مرحلے میں داخل ہیں۔ حکمران طبقات کی آپس کی لڑائیاں جاری ہیں، مڈل کلاس کی ایک بڑی تعداد اپنے اپ کو "تبدیلی" کے سراب میں گم کر چکی ہے۔ مزدور طبقہ خاموش ہے یا مایوس۔ ایسے میں کس حکمران کی کونسی چال کامیاب ہو گی، کہنا مشکل ہے۔ مگر میاں نواز شریف نے واپسی اختیار کر کے اپوزیشن کو وقتی طور پر پسپا کر دیا ہے۔
تحریر؛ فاروق طارق
[email protected]
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔