والٹر آئیزیکسن نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا کے مشہور لکھاری ہیں۔ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے دوران CNN اور Time میگزین سے وابستہ رہنے کے علاوہ وہ Tulane University میں تاریخ کے پروفیسر بھی رہے ہیں۔وہ Aspen Institute کے سربراہ ہیں اور واشنگٹن میں رہتے ہیں۔ اُنھوں نے کئی مشہور شخصیات کے حالاتِ زندگی پر کتابیں لکھیں ہیں جن میں لیونارڈو ڈا ونچی ( Leonardo Da Vinci)، بینجمن فرینکلن (Benjamin Franklin )، اسٹیو جابز، آئن سٹائن، اور ہنری کسنجر شامل ہیں۔
اسٹیو جابز کی زندگی پر والٹر نے جو کتاب لکھی وہ اسٹیو جابز کی اپنی خواہش پر لکھی تھی جب اسٹیو جابز کینسر کے جان لیوا مرض میں گرفتار تھے۔ والٹر اسٹیو کی بیماری کی شدّت سے آگاہ نہیں تھے اس لئے اسٹیو جابز کی اپنے اوپر کتاب لکھنے کی خواہش کو اُنھوں نے سنجیدہ نہیں لیا تھا۔ لیکن ایک دن اسٹیو جابز کی بیوی نے والٹر کو فون کرکے بتایا کہ اسٹیو کے پاس زیادہ وقت نہیں بچا ہے اور اگر والٹر، اسٹیو کی زندگی کے بارے میں لکھنے میں واقعی سنجیدہ ہیں تو اُنھیں دیر نہیں کرنی چاہئے۔ والٹر نے اسٹیو جابز کی جو آپ بیتی لکھی اُس میں اسٹیو جابز اور اُن کے متعلقہ لوگوں کے انٹرویو شامل ہیں۔ والٹر کے مطابق اسٹیو جابز نے اُنھیں کتاب لکھنے کے سلسلے میں بہت آزادی دی تھی۔ اس کتاب کو لکھنے میں والٹر نے ایسے لوگوں سے بھی انٹرویو کئے جن سے اسٹیو کے اچھے تعلقات نہیں رہے تھے یا جن کو اسٹیو نے نوکری سے بھی نکالا تھا۔ اس کا نتیجہ ایک انتہائ شاہکار کتاب کی صورت میں برآمد ہوا جو نان فکشن کتابوں میں اب تک کی بیسٹ سیلر کتابوں میں سے ایک ہے۔ اسٹیو جابز پر کتاب لکھنے کے ساتھ ساتھ والٹر ایک ایسی کتاب ( “THE INNOVATORS”) پر بھی کام کر رہے تھے جس میں کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کا انقلاب لانے والی شخصیات کی خدمات کی تفصیلات بیان کی گئیں ہیں۔ قارئین ایسے میں ان دونوں کتابوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا بڑا مُشکل کام تھا کیوں کے اسٹیو جابز کی شخصیت بلامبالغہ ایک انتہائی اہم اور دلچسپ شخصیت ہے جنھوں نے ٹیکنالوجی اور اینٹرٹینمنٹ کے میدان میں دنیا کو نت نئی چیزوں سے روشناس کروایا۔ لیکن دوسری جانب THE INNOVATORS کو پڑھنے اور اس کا ترجمعہ و تلخیص کرنے کی صورت میں ایک سے زیادہ شخصیات کے بارے میں آگاہی حاصل ہوسکتی تھی اس لئے THE INNOVATORS کا پہلے انتخاب کیا گیا جبکہ دوسرے مرحلے میں اسٹیو جابز کی آپ بیتی کا جائزہ پیش کیا جائے گا۔ اس کتاب کو بجا طور پر ڈیجیٹل انقلاب کی معیاری تاریخی کُتاب کہا جاسکتا ہے۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو پڑھنے والوں کو بتاتی ہے کہ کوئی بھی ایجاد کس طرح وقوع پزیر ہوتی ہے۔
یہ ایک ایسی کتاب ہے جو بتاتی ہے کہ کُچھ موئجدوں اور entrepreneurs میں ایسی کیا صلاحیتیں تھیں کہ وہ اپنے تخیل کو حقیقت کی شکل دینے میں کامیاب ہوگئے۔ کیوں کُچھ لوگ کامیاب ہوئے اور کیوں ناکامی کچھ کا مقدّر ٹہری۔
اپنی اس شاہکار کتاب کی ابتدا والٹر نے ایڈا لَو لیس (Ada Lovelace) جو لارڈ بائرن ( Lord Byron) کی صاحبزادی ہیں کے تزکرے سے کی ہے جنھوں نے سن 1840 میں کمپیوٹر پروگرامنگ کی ابتدا کی تھی۔ اس کے علاوہ اُنھوں نے اُن دلچسپ شخصیات کے بارے میں لکھا ہے جنھوں نے موجودہ ڈیجیٹل انقلاب برپا کیا۔ ان میں سے چند شخصیات کے نام یہ ہیں۔ وانّیور بُش (Vannevar Bush)، ایلن ٹیورنگ ( Alan Turing)، جان وان نیو مین ( John von Neumann)، جے۔ سی۔ آر۔ لکلائیڈر ( J. C. R. Licklider)، ڈگ اینگلبارٹ (Dough Engelbart)، رابرٹ نوائس ( Robert Noyce)، بِل گیٹس (Bill Gates)، اسٹیو ووذنیاک ( Steve Wozniak)، اسٹیو جابز (Steve Jobs)، ٹِم برنرس لی (Tim Berners-Lee)، اور لیری پیج (Larry Page)
یہ کہانی ہے اس بارے میں ہے کہ کس طرح ان لوگوں کے دماغ کام کرتے تھے اور کس چیز نے ان کو اتنا جدّت و اختراع والا بنا دیا۔ اس کے علاوہ یہ کتاب ان شخصیات کی دوسروں کے ساتھ اشتراک کرنے اور ٹیم ورک ک صلاحیتوں کو بھی بیان کرتی ہے جس نے ان کو اور زیادہ تخلیق کار بنا دیا تھا۔
والٹر نے اپنی کتاب کو بارہ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا باب 1843 میں موجود ایک خاتون ایڈا لَولیس کے بارے میں ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پروگرامنگ کی ابتدا اُنھوں نے کی تھی۔ دوسرا باب کمپیوٹر کے بارے میں ہے، تیسرا پروگرامنگ، چوتھا ٹرازسٹر، پانچواں مائکروچِپ، چھٹا وڈیو گیمز، ساتوں انٹر نیٹ، آٹھواں پرسنل کمپیوٹر، نواں سافٹویئر، دسواں آن لائن، گیارہواں The Web، بارھواں Ada Forever کے بارے میں ہے۔ قارئین یہ تقریباً پانچ سو صفحات کی کتاب ہے۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ اس پوری کتاب کو اُردو زبان میں ترجمعہ کیا جائے کیونکہ والٹر آئیزیکسن صاحب نے یہ کتاب تقریباً دس سال کی تحقیق کے بعد لکھی ہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کتاب میں کتنی معلومات موجود ہوگی۔یہ کتاب بجا طور پر ڈیجیٹل انقلاب کی تاریخ کہلائے جانے کے لائق ہے۔
کتاب کا تعارف کرتے ہوئے والٹر آئیزیکسن صاحب فرماتے ہیں کمپیوٹر اور انٹر نیٹ ہمارے دور کہ نہایت اہم ایجادات میں سے ہیں لیکن بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ اُنھیں کس نے بنایا۔ یہ ایسی ایجادات نہیں ہے جنھیں کسی فردِ واحد نے اپنے گھر کے گیراج یا garret (امریکہ میں عموماً گھروں میں اوپر کی جانب ایک کمرہ نما ہوتا ہے جسے Attic بھی کہا جاتا ہے) میں ایجاد کیا ہو۔ اس کے برخلاف ڈیجیٹل دور کی یہ ایجادات مختلف لوگوں کے اشتراک سے وجود میں آئیں ہیں۔ اُن میں سے اکثر دلچسپ افراد تھے جن میں سے کچھ ذہین اور کُچھ انتہائی ذہین تھے۔ یہ کہانی ہے شروعات کرنے والوں (pioneers)، ہیکرز، موئجدوں اور تجارتی ذہن رکھنے والوں ( entrepreneurs) کی کہ کس طرح اُن کے دماغ کام کرتے تھے اور وہ کیا چیز تھی جس نے اُنھیں انتہائی تخلیقی بنا دیا تھا۔
والٹر لکھتے ہیں کہ اُن افراد کے ساتھ مل کر (Teamwork) کام کرنے کی کہانی زیادہ اہم ہے کیونکہ ہم عموماً اس مہارت (یعنی Teamwork) پر توجّہ نہیں دیتے جو ایجاد و اختراع کرنے میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایسی کتابوں کی تعداد ہزاروں میں ہوگی جس میں تنِ تنہا ایجادات کرنے والوں کا تزکرہ ہوگا۔ خود اُنھوں نے کچھ لوگوں کی بائیوگرافی لکھی ہے۔ اگر آپ “وہ جس نے ایجا کیا” (The man who invented) لکھ کر ایمازون (Amazon) کی ویب سائٹ پر سرچ کریں گے تو اٹھارہ سو ساٹھ (1860) کتابوں کی فہرست سامنے آجائے گی۔ لیکن اس طرح کی کتابیں ہمیں کم ہی ملیں گی جس میں لوگوں کی مُشترکہ جدّوجہد کی داستان بیان کی گئی ہو۔ اس طرح کی کتابیں ٹیکنالوجی کے موجودہ انقلاب کو بیان کرنے کے لئے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ آج کل ایجادات کے بارے میں اتنی بات کی جاتی ہے کہ یہ buzzword بن گیا ہے جس کے اپنے معنی دھندلا گئے ہیں۔ تو اس کتاب میں اُنھوں نے کوشش کی ہے کہ لوگوں کو یہ بتا سکیں کہ حقیقی دنیا میں ایجادات کس طرح وقوع پزیر ہوتی ہیں۔ کس طرح سے تخیّلاتی ذہن رکھنے افراد اپنے پریشان خیالات کو یکجا کرکے حقیقت میں بدلتے ہیں۔ اُنھوں نے اس کتاب میں ڈیجیٹل دور کی تقریباً درجن بھر اہم دریافتوں پر اپنی توجّہ مرکوز کی ہے۔ ایسا کیا ہوا کہ کچھ افراد ڈیجیٹل میدان میں دوسروں سے کہیں آگے نکل گئے۔ وہ کونسی مہارتیں تھیں جو زیادہ بہتر ثابت ہوئیں۔
اس کتاب میں والٹر نے یہ بھی جاننے کی کوشش کی ہے کہ وہ کونسے سماجی اور ثقافتی عوامل تھے جنھوں نے تخلیقی ماحول فراہم کرنے میں کردار ادا کیا۔ جیسا کہ دنیا کا ڈیجیٹل دور میں قدم رکھنا حکومتی اقدامات، اور ملٹری، صنعتی، اور تعلیمی اداروں کے اشتراک کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کمیونٹی کے سرکردہ افراد، خود سے کام کرنے کے شوقین، گھروں میں پروان چڑھنے والے ہیکرز جن میں سے زیادہ تر افراد سخت مرکزی اختیارات کے مخالف تھے۔
والٹر کے مطابق تاریخ اُن میں سے کسی بھی عوامل پر توجّہ مرکوز کرکے لکھی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پر Harvard/IBM Mark I کی ایجاد، جو دنیا کا سب سے پہلا برقی-میکانیکی (Electromechanical) کمپیوٹر تھا۔اس کمپیوٹر کے ایک پروگرامر گریس ہوپر نے جو تاریخ لکھی ہے اس میں ہاورڈ آئیکن (جن کا اس کمپیوٹر کی ایجاد میں بنیادی کردار تھا) پر توجّہ مرکوز کی گئی تھی۔ بہرحال تاریخ لکھتے وقت کسی خاص شخصیت پر بھی توجّہ کی جاسکتی ہے اور مجموعی افراد پر بھی۔ والٹر آئیزیکسن کی اس کتاب میں مختلف ادوار میں ڈیجیٹل انقلاب کے لئے کام کرنے والی شخصیات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
انٹرنیٹ اصل میں لوگوں کو ایک ساتھ مل جُل کر کام کرنے میں سہولت پیدا کرنے کے لئے بنایا گیا تھا۔ اس کے برخلاف پرسنل کمپیوٹر (خاص طور پر وہ جنھیں گھروں میں کام کرنے کے لئے بنایا گیا تھا) انفرادی تخلیقی عمل کے لئے بنائے گئے تھے۔ ایک دھائی سے بھی زیادہ عرصہ تک، جو 1970 کے اوائل سے شروع ہوتی ہے، نیٹ ورکس اور گھروں میں استعمال کئے جانے والے کمپیوٹروں کی ڈیویلپمنٹ کا کام ایک دوسرے سے الگ تھلگ تھا۔ بلآخر 1980 کی دہائی کے آخر میں modems، آن لائن سروسز، اور ویب (web) کی آمد کے بعد پرسنل کمپیوٹر اور انٹر نیٹ ایک دوسرے کے قریب آتے چلے گئے۔ جس طرح بھاپ سے چلنے والے انجن کو عام مشینوں سے ملا کر چلایا گیا تو صنعتی انقلاب برپا ہوا اسی طرح کمپیوٹر اور دنیا میں موجود مختلف نیٹ ورکس کے ملاپ سے ڈیجیٹل انقلاب آیا جس نے دنیا بھر میں موجود لوگوں کو آپس میں ملا دیا، کونے کونے میں پھیلی ہوئی معلومات کی اشاعت اور اُن تک پہنچنا سب کے بس میں ہو گیا۔
سائنس کی تاریخ لکھنے والے “سائنسی انقلاب” کا لفظ استعمال کرنے سے اجتناب کرتے ہیں اور اس کی بجائے وہ “سائنسی ارتقاء” کی اصطلاع کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن ڈیجیٹل انقلاب اس طرح سے واقع ہوا ہے کہ ہم بجا طور پر کہ سکتے ہیں کہ ہر تھوڑے عرصے بعد ہماری زندگیوں میں بے پناہ تبدیلیاں آجاتی ہیں۔ والٹر اُس وقت کو یاد کرتے ہیں جب وہ ٹائم میگزین اور ٹائم وارنر کے ڈیجیٹل ڈویژن کو چلانے میں معاونت کرتے تھے جس نے آگے چل کر ویب اور براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروس کا اجرا کیا۔ یہ کتاب سن 2014 میں شائع ہوئی جبکہ والٹر نے دس سال اس کتاب پر تحقیق کی اور 2004 سے 2014 تک کے عرصے میں ڈیجیٹل دنیا میں کئی تبدیلیاں رُونما ہوئیں جس نے والٹر کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اس سے قبل والٹر نے بینجمن فرینکلن اور اسٹیو جابز کی بائیوگرافی لکھیں تھیں لیکن اب وہ انفرادی شخصیات سے نکلنا چاہتے تھے اور اپنی ایک پہلے سے شائع شُدہ کتاب “The Wise Men” ( جو اُن چھ شخصیات کے تخلیقی و ٹیم ورک کے بارے میں تھی جنھوں نے امریکہ کی سرد جنگ کی پالیسی مرتّبب کی تھی) کی طرز پر کتاب لکھنا چاہتے تھے۔ والٹر نے اس کتاب کو اپنے ایک ساتھی کے ساتھ مل کر لکھا تھا۔ ابتدا میں اُن کا منصوبہ اُن شخصیات کے بارے میں لکھنے کا تھا جنھوں نے انٹر نیٹ تخلیق کیا۔ لیکن جب والٹر نے بِل گیٹس کا انٹرویو کیا تو بِل گیٹس نے اُنھیں قائل کیا کہ انٹر نیٹ اور پرسنل کمپیوٹر نے ایک ساتھ ارتقاء کی منازل طے کی ہیں تو اُن دونوں کی تفصیل زیادہ بہتر رہے گی۔ والٹر سن 2004 سے اس کتاب پر کام کر رہے تھے لیکن سن 2009 میں والٹر کو اسٹیو جابز پر کتاب لکھنی پڑی ( جس کی وجہ پہلے بیان کی جا چُکی ہے)، جس کی وجہ سے والٹر کو اس کتاب پر اپنا کام روکنا پڑا۔ لیکن والٹر لکھتے ہیں کہ اسٹیو جابز کی بائیوگرافی لکھتے ہوئے اُن کی ڈیجیٹل انقلاب سے متعلق مختلف شخصیات پر کتاب لکھنے کے خیال کو مزید تقویت ملی۔اس لئے اسٹیو جابز پر کتاب لکھنے کے بعد اُنھوں نے دوبارہ اس کتاب پر کام شروع کردیا۔
انٹرنیٹ کے پروٹوکولز مختلف لوگوں کی مُشترکہ کاوشوں سے تیار کئے گئے تھے۔ نتیجہ کے طور پر مختلف لوگوں کا ساتھ مل کر کام کرنا اس نظام کی بنیادی خصوصیات میں سے تھا۔ انٹرنیٹ اور پرسنل کمپیوٹر کے امتزاج سے جو نظام سامنے آیا تھا اُس کے زمانے پر بلکل اُسی طرح اثرات پڑے جیسے پرنٹنگ پریس کی ایجاد پڑے تھے۔ تب کی طرح اب بھی معلومات کے تبادلے کی رفتار پہلے کے مقابلے میں بہت تیز ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ ایک عام آدمی کے لئے کُچھ بھی تخلیق کرنا اور اُسے لوگوں سے شیئر کرنا آسان ہوگیا ہے۔
وہ اشتراکِ عمل جو ایک ساتھ کام کرنے والے لوگوں کے درمیان ہوا تھا جس کے نتیجے میں ڈیجیٹل انقلاب رُونما ہوا وہ نسلوں کے درمیان بھی پروان چڑھا۔ ایک بات جو دیکھنے میں آئی وہ یہ کہ لوگوں نے ڈیجیٹل انقلاب کو سماجی روابط کو مضبوط کرنے کے لئے استعمال کیا۔ اس کے علاوہ مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کے لئے کی جانے والی کوششوں میں بھی اس بات نے جگہ حاصل کرلی کہ کس طرح انسانوں اور مشینوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی جائے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ تخلیقی اشتراکیت جس کے نتیجے میں انسانیت ڈیجیٹل عہد میں داخل ہوئی اُس میں انسانوں اور مشینوں کا اشتراکِ عمل بھی شامل ہے۔
آخر میں والٹر لکھتے ہیں ڈیجیٹل عہد کی حقیقی تخلیقیت اُن لوگوں کی طرف سے آئی ہے جو آرٹس اور سائنس کا ملاپ کرنے کے قابل ہوئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ خوبصورتی کی اپنی اہمیت ہے۔ یہ کتاب اُن لوگوں کے بارے میں ہے جو Humanities اور سائنسز کے اس ملاپ میں معاون ثابت ہوئے جس کے نتیجے میں انسانوں اور مشینوں کا حسین امتزاج وجود میں آیا۔
ڈیجیٹل عہد کے بہت سارے پہلوؤں میں سے ایک یہ خیال کہ ایجاد، آرٹس اور سائنسز کے سنگم پر پائی جاتی ہے نیا نہیں ہے۔ لیونارڈو ڈا ونچی اس کی بہترین مثال ہے۔ اسی طرح جب آئن سٹائن theory of General Relativity پر کام کرتے کرتے کہیں پر اٹک جاتا تھا تو وہ اپنا وائلن نکال کر موزارٹ کی کوئی دھُن بجانے لگ جاتا تھا یہاں تک کہ اُس کو اپنا ذہن دوبارہ کام کرتا محسوس ہوتا۔ اس عمل کو آئن سٹائن نے “reconnection to the harmony of spheres” کا نام دیا تھا۔
جب بات کمپیوٹر کی آئے گی تو یہاں ایک اور تاریخی شخصیت کا نام آئے گا، جو اتنی زیادہ مشہور نہیں ہے، جنھوں نے آرٹس اور سائنسز کے ملاپ کو مجسّم شکل دی۔ اپنے مشہور باپ کی طرح اُسے شاعری کے رومانس کی سمجھ تھی۔ لیکن اپنے باپ کے برخلاف اُس نے ریاضی اور مشینری کے درمیانی تعلق کو سمجھا۔ اور یہیں سے کتاب “THE INNOVATORS” کی شروعات ہوتی ہے۔