آج مجھے میرے والد صاحب کی بہت یاد آئی , ان کو ہم سے جدا ہوئے 47 برس بیت گئے۔ . میں نے جو کچھ بھی اپنی زندگی میں سیکھا اس میں میرے والد ممتاز علی خان مرحوم کی تعلیم وتربیت کی بدولت ہے اور آج میں جو کچھ بھی ہوں یہ میرے والدین کی دعا, مدد, محبت اور تربیت کا نتیجہ ہے. میں نے اپنے والد کو ہمیشہ کام کرتے ہوئے پایا اور پڑھتے لکھتے دیکھا.وہ ایسے ملنسار, محبت کرنے والے شفیق باپ تھے جن کا بیٹا ہونے پر مجھے ہمیشہ فخر رہےگا ۔ کسی فرد کے لیے باپ ایک اایسی چھت ہوتی ہے جس کے سائے میں بچے کی شخصیت پروان چٹرتی اور تشکیل پاتی ہے۔ میرے والد ایک مشفق ، پڑھے لکھےاور عملی انسان تھے۔ انھوں نے مجھے ہمیشہ کھلے زہن سے سوچنے کی عادت ڈالی ان سے میرے تعلقات کی عمل کیمیا غیر روایتی نوعیت کی تھی۔ بہت کم غصہ کیا کرتے تھے۔ مجھے نام لے کر نہیں " یار" کہ کر پکارا کرتے تھے۔ پیشے کے اعتبار سے ماہر حشریات {ENTOMOLOGIST} تھے اوراسلامیہ کالج پشاورسے زراعت میں سند حاصل کرنے کی۔ وہ ٹیکساس کی اے این ایم یونیورسٹی،امریکہ اورلینن گراڈ یونیورسٹی، روس سے بھی فارغ التحصیل تھے۔ ٹینس اور فٹ بال کے اچھے کھلاڈی تھے۔ ان کے ساتھ میں فلمیں دیکھتا، کتب خانوں میں ان کے ساتھ جاکر کتابیں لاتا۔ جمعے کی نماز پڑھنے انکے ساتھ جاتا۔ اور میں نے والد مرحوم کے ساتھ سندھ اور بلوچستان کے چپے چپے کی سیر و سیاحت کی ۔ میں ان کو صبح سویرے ناشتے کی میز پر اخبارات پڑھ کر سناتا تھا وہ میرے ساتھ میرے کھیلوں، کوئیز اور ادبی محفلوں میں بھی شریک رہتے تھے۔ میں ہر روز عشا کی نماز کے بعد آدھے گھنٹے ان کے پیر دبایا کرتا تھا۔ جب تک وہ سو نہ جاتے میں بھی نہ سوتا تھا ۔۔۔۔ ان کو بھلانا میرے بس کی بات نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*والد صاحب کی یاد میں*
==============
یہ تو صدیوں کا قصہ تھا
یہاں تو ایک بڑا سا پیڑ ہوا کرتا تھا
جلتی، تپتی، بھنتی اور سلگتی رت میں
اس کے نیچے
یہیں کہیں پر
ایک جزیرہ سا آباد رہا کرتا تھا
خنک خنک سائے میں
ہنستے ،گاتے مسکاتے لوگوں کی
اک بستی تھی
یہاں تو ایک بڑا سا پیڑ ہوا کرتا تھا
یہی دھوپ
جو آج یہاں پر چیخ رہی ہے
پل بھر سستا لینے کو ترسا کرتی تھی
یہ تو صدیوں کا قصہ تھا
یہاں تو ایک بڑا سا پیڑ ہوا کرتا تھا {راشد جمال فاروقی}
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...