عزیز بچوں، آج آپ کے سامنے ایک شخص کا واقعہ بیان کریں گے جو کہ اپنے والدین کا بڑا فرمانبردار تھا بڑی غربت کے ساتھ زندگی بسر ہورہی تھی کسی طرح سے گھر کا خرچ چلتا تھا اس کے والد نے اس کو ایسی دعا دی کہ وہ آگے چل کر ایک بڑا مفسر اور صاحب علم بنا،۔ امید کہ یہ واقعہ آپ کو پسند آئے،
بیان کیا جاتا ہے کہ ایک گھرانہ بڑی کسمپرسی کا شکار تھا غربت نے چاروں طرف سے اس گھر کو گھیرا ہوا تھا، باپ کسی طرح محنت مزدوری کرکے اپنے ایک بیٹے کی کفالت کررہا تھا، والدہ کا سایہ بیٹے کی پیدائش ہوتے ہی سر سے اٹھ چکا تھا، جب وہ بچہ جوان ہوا تو اس کو ذمہ داری کا احساس ہوا چونکہ اب والد صاحب ضعیف ہوچکے تھے کمانا اور گھر کا خرچ چلانا اس کے بس میں نہیں رہا وہ نوجوان دن بھر مزدوری کرتا شام کو جب گھر آتا تو اپنی کمائی لاکر والد کی میز پر رکھ دیتا یہ سوچ کر کہ والد صاحب ہاتھ پھیلائیں یہ بڑی شرم کی بات ہے جب اس کے والد اس کی کمائی کو دیکھتے تو بہت خوش ہوتے اور خوش ہوکر روزانہ ایک ہی دعا دیتے! بیٹا خدا تمہیں قرآن کا خادم بنائے! لکھا ہے کہ اس کے والد کو علم کا بہت شوق تھا اور وہ چاہتے تھے کہ میں تو علم سے محروم رہا لیکن اگر خدا نے مجھے کوئی بیٹا عطا کیا تو میں اس کو علم کی دولت سے محروم نہیں رکھونگا لیکن معاشی حالت مانع تھی ،
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ وہ حسب معمول صبح سویرے گھر سے اپنے کام کیلئے نکلا ابھی تھوڑی ہی دور چلا تھا کہ ایک متقی پرہیزگار اور صاحب علم سے ملاقات ہوگئی، عالم صاحب اس نوجوان کو دیکھ کر یوں گویا ہوئے،
کہاں کا سفر ہے؟
نوجوان۔ کام کیلئے سفر پر نکلا ہوں،
عالم صاحب! کیا مصروفیت ہے؟
نوجوان! مزدودی،
عالم صاحب! کیا علم حاصل کرنا چاہتے ہو؟
نوجوان! مایوس چہرے کے ساتھ، خواہش تو بہت ہے لیکن۔۔۔۔۔
عالم صاحب! لیکن؟
نوجوان! معاشی حالت مانع ہے، ایک بوڑھا باپ ہے کسی طرح محنت مزدوری کرکے ان کی اور ان کے طفیل خود کی بھی کفالت کرتا ہوں،
عالم صاحب! ہفتہ میں کسی دن وقت نکال سکتے ہو؟
نوجوان! کوشش کروں گا،
عالم صاحب۔ دعا دیتے ہوئے رخصت ہوئے، چنانچہ وہ نوجوان ہفتہ میں ایک دن نکال کر اس عالم صاحب کی مجلس میں جانے لگے اور اپنی علمی تشنگی کو بجھا رہے تھے، علم کو انہوں نے بڑے شوق و لگن کے ساتھ حاصل کیا اور فن تفسیر میں خوب مہارت حاصل کی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا شہرہ بھی چاروں طرف پھیل گیا، ایک مرتبہ کسی شہر میں مسابقہ قرآن کا سیمینار منعقد ہوا اس سیمینار میں اس کے استاد نے اس نوجوان کو بھی مدعو کیا، جب یہ وہاں پہنچے اور اسٹیج پر چڑھے تو سامعین کی نگاہیں اس نوجوان کو ہی دیکھ رہی تھی ہر کوئی بیتاب تھا کہ کب اس نوجوان کی باتوں کو سنے، جب اس کی باری آئی اور مائک پر پہنچے تو زارو قطار رونے لگے اس کے استاد نے وجہ دریافت کی تو فرمایا،
میں اس لئے رورہا ہوں کیونکہ مجھے میرے والد صاحب یاد آگئے وہ ہمیشہ مجھے یہ دعا دیا کرتے تھے کہ بیٹا۔ خدا تمہیں قرآن کا خادم بنائے۔ آج والد صاحب کی دعا کا اثر ہے کہ میں اس مقام تک پہنچا ہوں،
پھر انہوں نے قرآن کی تفسیر اور اس کے معانی و مطالب بیان کرنا شروع کیے پھر کیا تھا ، مجمع میں سناٹا چھا گیا صرف انہی کی آواز گونج رہی تھی لفظ لفظ سے موتی جھڑ رہے تھے ان کی باتوں کا اثر سامعین کے چہرے پر صاف ظاہر ہورہا تھا، اور ایسا سماں بندھ گیا تھا کہ گویا ابھی قرآن کا نزول ہورہا ہے ،
پیارے بچو! دیکھا آپ نے ایک والد کی دعا نے ایک مزدور اور خستہ حال نوجوان کو کہاں تک پہنچا دیا،
لہذا ہمیں بھی چاہئے کہ ہم اپنے والدین کی خوب خدمت کرکے ان کی دعائیں لیں ان کی نافرمانیوں سے بچیں تاکہ ہم دونوں جہاں میں کامیاب ہوں،