وجودیت(Existentialism) کا محورانسانی وجود ہے۔اس کا بنیادی مسئلہ خود شناسی ہے ۔ یہ داخلیت سے خارجیت اور خود نگری سے خود گری تک کا طویل اور کرب ناک سفر ہے۔جس میں وجود و عدم کے مسائل،خود شناسی، خدا شناسی ، کائنات شناسی ، سچائی کی تلاش،جبر و قدراور انسانی آزادی وغیرہ اہم سنگ میل ہیں اور کرب ،تشویش، گھن، کراہت، مایوسی،امکان ،انتخاب ، فیصلہ(داخلی وارداتیں) وغیرہ اس راہ کی مشکلات ہیں ۔یوں تو وجودی رجحان یا مسائل انسان کو روز آفرینش سے گھیرے ہوئے ہیں تاہم عالمی جنگوں کے دوران حد سے بڑھتی ہوئی تعقل پسندی اور سائنس پرستی کے خلاف ایک رد عمل کے طور پر مغرب میں وجودیت نے ادب کے ذریعے ایک فلسفیانہ تحریک کی شکل اختیار کر لی۔یہی وجہ ہے کہ اسے بحرانی یا جنگی دور کی پیداوار بھی کہا جا تاہے۔وجودیت کا بنیادی مقصد داخلی کیفیات کی مدد سےانسانی جوہر کی تلاش ہے۔
سورین کرکیگارڈ (پروٹسٹنٹ،ڈنمارک،۱۸۱۳ءتا۱۸۵۵ء،Soren Kierkegaard) ،فریڈرک نطشے (جرمن،۱۸۴۴ء تا ۱۹۰۰ء، Nietzsche Friedrich)، کارل جیسپرز (جرمن،۱۸۸۳ء تا ۱۹۶۹ءKarl Jaspers) ،مارٹن ہائیڈیگر (مظہریت پسند،جرمن، ۱۸۸۹ء تا ۱۹۷۶ء، Martin Heidegger)،گیبریل مارسل (کیتھولک،فرانس،۱۸۸۹ءتا ۱۹۷۳ء،Gabriel Marcel)، ژاں پال سارتر (لبرل،فرانس،۱۹۰۵ءتا۱۹۸۰ء،Jean-Paul Charles Aymard Sartre)، البرٹ کامیو (فرانس، ۱۹۱۳ء تا ۱۹۶۰ء ،Albert Camus )اورکولن ولسن (انگلینڈ، ۱۹۳۱ء تا ۲۰۱۳ء، (Colin Wilsonوغیرہ وجودیت (Existentialism) کے حوالے سے اہم نام ہیں ۔ نظام صدیقی نے سات سو قبل مسیح کے چینی مفکر لاؤتسے کو وجودیت کا اولین علمبردار کہا ہے۔(۱) تاہم موجودہ وجودیت( جسے مغربی فلسفیانہ تحریک کہا جاتا ہے) کا بانی کیرکیگارڈ کو کہا جاتاہے۔قاضی قیصر الاسلام کے نزدیک سب سے پہلے وجودیت کی اصطلاح کو کیرکیگارڈ نے متعارف کرایا (۲) ، محمد اسرار خان کے مطابق وجودیت کی اصطلاح سب سے پہلے کیتھولک فلسفی گابریل مارسل(۱۸۸۹ء) نے استعمال کی (۳)، سلطان علی شیدا لکھتے ہیں کہ “اس فلسفیانہ تحریک کو وجودیت کا نام ہائن من نے ۱۹۳۹ء میں دیا”(۴) جبکہ علی عباس جلال پوری کے نزدیک کیرکیگارڈ کے منتشر افکار کو کارل جاسپرز نے ایک باقاعدہ مکتب فکر کی صورت میں مرتب کیا اور فلسفۂ “موجودیت” کی تشکیل عمل میں آئی۔”(۵)
قدیم وجودی فلاسفہ جوہر کو وجود پر مقدم جانتےتھےجبکہ جدید گروہ کے نزدیک وجود جوہر پر مقدم ہے (existence precedes essence)۔جسے ہمارے ہاں مسئلہ تقدیر کہا جاتا ہے۔یعنی انسان کی تقدیر پہلے لکھی جاتی ہے یا وہ دنیا میں آنے کے بعد اپنی تقدیر آپ بناتا ہے۔مذہب و الہاد کی بنیاد پر وجودیت کی تفہیم کی غرض سےوجودی فلاسفہ کو دو گروہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ مذہبی گروہ کا بانی کیرکیگارڈ ہے اور دہری گروہ کا بانی سارتر ہے ۔ سارتر اس کی وضاحت میں لکھتا ہے ۔
“There are two kinds of existentialists: on one hand, the Christians, among whom I would include Karl Jaspers and Gabriel Marcel, both professed Catholics; and, on the other, the atheistic existentialists, among whom we should place Heidegger, as well as the French existentialists and myself.” (۶)
علی عباس جلال پوری کے نزدیک Existentialism کاترجمہ وجودیت کے بجائے موجودیت ہونا چاہیے ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں اس لفظ کے استعمال سےنظریہ وحدت الوجود کی طرف دھیان جاتا ہے۔ شہزاد احمد اور ڈاکٹر وزیر آغاکے نزدیک بھی درست ترجمہ موجودیت ہی ہے مگر اب مجبوراً وجودیت ہی لکھنا پڑتا ہے ۔البتہ افتخار بیگ کے نزدیک وجودیت ہی درست ترجمہ ہے ۔
یونان کے سب سے بڑے فلسفی سقراط کے شاگردافلاطون نے “وحدیت” یعنی ذات کے واحد القدیم ہونے کا اقرار کیا۔ اس کے شاگرد ارسطو نے افلاطون کے نظریات ِشعرو ادب اور نظام ریاست پر کھل کر تنقید کی مگر وجودی ترغیبات میں وہ افلاطون سے زیادہ مختلف نہ تھا۔کندن لاہوری کے مطابق:
“اگرچہ وجودیت یورپ میں “افلاطون” کے حوالے سے مطالعہ کی جاتی ہے۔ لیکن دراصل یہ اہل یونان کا ایک وجدانی اخلاقی نصب العین تھا جو عہد قدیم سے چلا آتا تھا اور جو بعد میں دیوی دیوتاؤں کے نظام میں بھی ختم نہ ہوا۔۔۔عہد ترقی میں یورپ میں کارلائل، ایمرسن، سپنوز، ہیگل اور سارتر وغیرہ نے “وحدت الوجود ” کو تدریجی طور پر قبول کیا اور اس کی قابل قدر تشریحات کیں جن کی اصل میں اتحاد اور فرع میں اختلاف پایا جاتا ہے۔”(۷)
وجودیت کو اگر مغرب اور مشرق میں تقسیم کر کے دیکھا جائے تو مشرقی آدمی ان وجودی مسائل سے دوچار نظر نہیں آتا جن کا شکار مغربی آدمی ہے ۔مشرق میں داخلیت سے مراد تصوف(وحدت الوجود ، وحدت الشہود ، مراقبہ/ دھیان) یا رہبانیت ہے ،دہریت کے آثار آٹے میں نمک کے برابر دکھائی دیتے ہیں اسی طرح سائنس پرستی اور تعقل پسندی کے خلاف رد عمل بھی اس نوعیت کا نہیں جیسا مغربی انسان میں پایا جاتا ہے ۔مشرق میں وجود اور جوہر کا موضوع مسئلہ تقدیر کی صورت میں موجود ہے۔اگر جبر و قدر کی بات کی جائے تو جبریہ مکتب فکر انسان کو مجبور و بے بس سمجھتے ہیں جب کہ قدریہ انسان کو بااختیار سمجھتے ہیں ۔ مگر اردو اور فارسی شاعری کے مزاج میں جبریہ مکتب فکرہی غالب نظر آتا ہے ۔ہمارے ادیب (خصوصاًشعرا) کثیر تعداد میں انسان کو طے شدہ تقدیر کا پابند مانتے ہیں۔بلکہ بعض کے نزدیک تو انسان کی تقدیر لکھ دینے کے بعدخدا بھی اس کا پابند ہے۔مثلاً عدیم ہاشمی کا شعرہے :
جو لکھ دیا جبیں پہ اُسے لکھ دیا گیا
پابند اُس کے بعد ہے پروردگار تک
یہ الگ بات ہےکہ قدریہ اس کے خلاف رائےرکھتے ہیں۔مثلاً اقبال کا شعر ہے :
تقدیر کے پابندنباتات و جمادات
مومن فقط احکام ِ الٰہی کا ہے پابند
سارتر کے خدا کے وجود سے انکار کو ہمارے یہاں تسلیم نہ کیا گیا تاہم ہمارے ادیبوں نے وجودیت کے فلسفے میں دلچسپی لی اور اس پر اپنی آرا کا اظہار بھی کیا۔اردو ادب میں وجودیت کے آثار ۶۰ کی دہائی میں ملتے ہیں ۔اس ضمن میں ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں :
“اس فلسفے نے بیسویں صدی کے ذہن انسانی کو نا امیدی ، بے یقینی ، عدم اعتماد اور بحران سے نجات دلا کر اپنی ذات پر اعتماد کرنا سکھایا۔ اس نے خیر و شر کی ساری ذمہ داری فرد کے کاندھوں پر ڈال دی اور بتایا کہ آدمی اس کے سوا کچھ نہیں ہے جو وہ خود کو بناتا ہے ، ذات کے عرفان کا مسئلہ ہم مشرقیوں کے لیے کوئی ایسی نئی چیز نہیں لیکن یورپ میں جہاں سائنس کی ترقی نے فلک افلاک کو چھو لیا تھا۔۔۔عرفانِ ذات کے اس فلسفے نے بحران زدہ انسان میں زندگی کی روح پھونک دی۔”(۸)
ڈاکٹر حیات عامر حسینی کے نزدیک وجودیت کی بنیادیں اسلامی فلسفۂ تصوف میں بھی موجود ہیں:
“ہر تہذیب نے علمی اور فکری سرمائے میں اپنی حیثیت و قویٰ کے مطابق اضافہ کیا ہے ۔ اس لیے جب ہم وجودیت کی تاریخ کی بنیادوں کی تلاش میں نکلیں تو ہمیں اس بات کو کھلے دل سے قبول کرنا چاہیے کہ اس کی بنیادیں صرف یونانی رومی یا مسیحی فکر میں ہی نہیں بلکہ اسلامی فلسفۂ تصوف اور ان ہندی فکری تحریکوں میں بھی ہیں جو جبریت کی تحریک کے خلاف رہی ہیں۔ دنیا کی دوسری تہذیبوں نے بھی اپنی اپنی حیثیت سے اس کی جڑوں کو مضبوط کیا ہے اس لیے جب ہم سقراط اور پاسکل کا نام لیں تو ہمیں حضرت علی ؓ، ابوذرؓ، سلمان فارسیؓ حسینؑ، زینبؓ اور جعفر صادق ؓ کو فراموش نہیں کرنا چاہیے جو تاریخ کی عظیم ترین آگاہ شخصیتوں میں بہت ہی عظمت کی حامل ہیں ۔ یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ انہوں نے وجودیت کی جو آواز بلند کی وہ جدید و قدیم وجودی مفکرین سے اپنی ایک علاحدہ ، منفرد اور بلند شناخت رکھتی ہے ۔”(۹)
صفیہ عباد کے نزدیک مشرق میں وجودیت کی تفہیم ادب، مذہب اور تصوف کے دائرہ میں رہ کر کی جا تی ہے۔
“مشرقی ادب میں بنیادی طور پر “وجودیت” وحدت الوجود کے راستے کی صورت ظاہر ہوا۔جبکہ مغرب میں وجودیت کا تصور فلسفے کے ساتھ وابستہ ہے ۔دراصل موجودیت کے دو رخ ہیں ، ایک دینی اور دوسرا لا دینی۔ دینی رخ میں مشرق کےنظریۂ وحدت الوجود کے اثرات موجود ہیں۔”(۱۰)
محمد اسرار خان لکھتے ہیں:”مشرقی ادب پر جس حد تک تصوف کا نظریہ “وحدت الوجود” اثر انداز ہوا ہے شاید اسی حد تک مغربی ادب پر فلسفے کا نظریہ ‘وجودیت ‘ اثر انداز ہے ۔”(۱۱)لہذٰا مشرقی وجودیت کی تفہیم کی غرض سے یہ جاننا ضروری ہے کہ وحدت الوجود کیا ہے۔
“وحدت الوجود کا مطلب ہے کہ پوری کائنات میں ایک ہی وجود مختلف مظاہر میں جلوہ فرما ہے ۔کثرت محض التباس(فریب نظر) ہے۔ وجود حقیقی ایک ہی ہے باقی جو کچھ ہے محض فریب ہستی ہے ۔ یونان میں اس فلسفے کو اول اول فلاطینوس نے پیش کیا۔بعد میں ہندو مت میں اس فلسفے کی بڑی پذیرائی ہوئی۔۔۔مسلمانوں میں محی الدین ابن عربی نے اس فلسفے کی شرح میں اہم کام کیا۔ان کا خیال ہے وجود مطلق ایک ہی ہے اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے اس کا اپنا ذاتی وجود نہیں وہ محض اعتباری اور معدوم ہے ۔ ۔۔ اردو ، فارسی کی کلاسیکل شاعری کی رگوں میں وحدت الوجود کا فلسفہ خون کی طرح دوڑ رہا ہے ۔”(۱۲)
اس حوالے سے ڈاکٹر اقبال آفاقی رقمطرازہیں:
“انگلش میں اسے Pantheism کہتے ہیں ۔ یہ دو یونانی الفاظ Pan اور Theo سے مل کر بنا ہے ۔ پین کا مطلب ہے کل یا سب کچھ اور تھیو سے مراد ہے خدا۔ دونوں کو ملا کر بنا سب کچھ خدا ہے ۔ بقول ڈاکٹر عبدالخالق ‘یہ نظریہ اس تصور پر مبنی ہے کہ خدا کائنات سے الگ اور جدا نہیں بلکہ اس کی ہر چیز میں سمایا ہوا ہے ۔ خدا کا وجود مطلق ہے اور باقی اشیاء اسی کا ظہور ہیں ، اسی کا پرتو ہیں۔ کائنات کا تنوع اور کثرت، اسی کی جلوہ آفرینیاں ہیں، جو انسان کو اپنی ذہنی ساخت اور استعداد کے مطابق جدا جدا نظر آتی ہیں ورنہ حقیقت ہر شے خدا ہی ہے۔’سالک کی معراج یہی ہے کہ وہ اپنی انفرادیت کو خدا کی لا متناہیت میں گم کر دے ۔ قطرہ سمندر میں ضم ہو جائے ۔ مسلم مفکرین میں ابن عربی اور جدید فلسفۂ یورپ میں اسپینوزا خصوصیت کے ساتھ اس نقطۂ نظر کے علم بردار ہیں۔”(۱۳)
ڈاکٹر حیات عامرکے نزدیک” وحدت الوجودی صوفیا کے ہاں انسان خدا کی مخلوق نہیں بلکہ اس کا سایہ ہے ۔”(۱۴)
وجودیت میں وجود اور جوہر کی بحث اہمیت کی حامل ہے ۔ وجود جوہر پر مقدم ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ ہر تخلیق کا کوئی نہ کوئی مقصد پہلے سے متعین ہوتا ہے جیسے چاقو بنانے سے پہلے بنانے والے کے ذہن میں اس کا جوہر موجود ہوتاہے ۔ اسی بنیاد پر وہ چاقوکو ایسا تخلیق کرتا ہے کہ اس سے کچھ کاٹا جاسکے ۔مگر انسان کے جوہر کا تعین پہلے سے نہیں ہوتا ۔اسے اس دنیا میں پھینک دیا جاتا ہے اس کے بعد امکان اور انتخاب کے مراحل سے گزر کر وہ فیصلہ کرتا ہے اور نتیجتاً اپنی شناخت خود بناتا ہے ۔ڈاکٹرہارون الرشید تبسم کے مطابق :
“کچھ مفکرین کا کہنا ہے کہ انسان پہلے وجود میں آتا ہے پھر اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرتا ہے ۔ انسان کی انفرادی حیثیت بڑی اہمیت کی حامل ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ کائنات میں تمام چیزوں کا تصور فطرت کے پاس ہے ۔ انسان ان مادی شکلوں کو وجود میں لاتا ہے ۔ انسان اپنے آپ کو خود تعمیر کرتا ہے ۔ نظریہ جبر، نظریہ قدر، وحدت الوجود، وحدت الشہود ایسے امور اسی وجودیت کی بنا پر اردو ادب میں رائج ہیں ۔”(۱۵)
انسان اپنے افعال و اعمال پر کس حد تک قادر ہے ۔ کیا وہ اپنی تقدیر آپ بناتا ہے یا اس کے وجود سے پہلے اس کی تقدیر لکھی جا چکی ہے ، وہ کس حد تک آزاد ہے ۔اس حوالے سے ڈاکٹر سید عبداللہ رقمطراز ہیں :
“جبرو اختیار کے مسئلے میں اسلامی رد عمل بَین بَین ہے ، انسان کو مختار و مجبور قرار دیا گیا ہے ، صوفی فکر کا ایک حصہ انسان کو مجبور مانتا ہے لیکن جزا و سزا کے عقیدے کی وجہ سے انسان کا ایک دائرہ میں مختار ہونا ثابت ہوتا ہے ۔وجودیت، مجبوریت کو نہیں مانتی۔اس کے نزدیک انسان کو بہت سے امکانات کے اندر سے اختیار و انتخاب کرنا پڑتا ہے ، خصوصاً اس لیے کہ اس کی ہستی ، دوسرے افراد اور دوسری اشیاء سے رابطہ رکھنے پر مجبور ہے۔۔۔اس لحاظ سے وجودیت، اسلام یا شاید کسی بھی الہامی مذہب کے لیے قابل قبول نہیں۔ “(۱۶)
لیکن ایک اور مقام پرانہیں وحدت الوجود میں وجودیت کی جھلک نظر آتی ہے؛”وحدت الوجود کے پیچیدہ تصور میں کہیں کہیں اس (وجودیت ) کی جھلک سی ہے ۔”(۱۷)
وجودیت کے بعض مقامات میں صوفیانہ خیالات سے مماثلت پائی جاتی ہے ۔ مثلاً”اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی”۔اس حوالے سے شمیم حنفی رقم طراز ہیں :
“وجودی فکر جسے جدیدیت کے نظام افکار میں کلیدی حیثیت دی جاتی ہے ۔اس کے نقوش ابن عربی ، رومی ، غالب، اقبال، اور ازمنہ وُسطی کی پوری متصوفانہ تحریک میں تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ “(۱۸)
ہمارے ادیب ۱۹۵۸ ء تا ۱۹۷۰ء تک مختلف وجودی مباحث میں مشغول رہے۔ڈاکٹراسلم انصاری لکھتے ہیں:
“اردو ادب میں وجودی فکر کا سراغ ان صوفیانہ افکار میں لگایا جا سکتا ہے جو ہمیں غزل کی شاعری میں مل جاتے ہیں ، مثلاً کائنات میں انسان کی مرکزیت کا تصور جو ایک خالصتاً متصوفانہ تصور ہے ۔”(۱۹)
وجودیت کے تانے بانے نظریہ وحدت الوجود سےضرور ملتے ہیں مگر بعض لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ سارتر (دہری گروہ کا نمائندہ)کوئی صوفی تھا ۔اس حوالے سے پاشا رحمان لکھتے ہیں؛
” بعض لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ وہ وحدت الوجودی تھا اور وجود کے “کل” کا قائل تھا۔لیکن ایسی کوئی بات نہیں ۔ تصوف کی بنیاد خالق کائنات کے وجود کو تسلیم کرنے پر ہے ۔ لیکن سارتر سرے سے انسان سے کسی بالاتر ہستی کے وجود کا قائل ہی نہ تھا۔”(۲۰)
سارتر خود بھی اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ خدا کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا مگر علی عباس جلالپوری اس کے خلاف رائے رکھتے ہیں:
” اس (سارتر)کی ملحدانہ موجودیت کیرکیگارڈ کی مسیحی موجودیت کے قریب تر آ گئی ہے ۔ اور یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ موجودیت خواہ وہ کوئی شکل و صورت اختیار کرے بنیادی طور پر مذہبیاتی رنگ مزاج ہے فلسفہ نہیں ہے ۔”(۲۱)
فرید الدین بھی کچھ ایسی ہی رائے رکھتے ہیں ان کے نزدیک تمام دہری اور مذہبی مفکرین لاشعوری طور پر عیسائیت کی گرفت میں تھے:
“وجودیت،یہودیت،مسیحیت،سریت(Mysticism)غناسطیت(Gnosticism) اور رومانیت کا امتزاج ہے ۔۔۔اس میں مسیحی فلسفے ، الٰہیت اور مبادیات کی چھاپ کافی گہری ہے ، وجودی فلسفی چاہے وہ مذہبی خیالات کے حامل ہوں (جیسے پاسکل، کرکیگارڈ، مارسل ، یاسپر اور بوبر) یا غیر مذہبی (جیسے نیٹشے ، ہائیڈیگر، سارتر وغیرہ) یہ سب کے سب لا شعوری طور پر روایتی عیسائیت کی گرفت میں تھے۔”(۲۲)
دوسری طرف کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ وجودیت کا اسلام یا تصوف سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ مثلاً اکبر لغاری کے نزدیک “وجودیت کا وحدت الوجود سےکوئی تعلق نہیں۔”(۲۳)
بعض ناقدین کے نزدیک وجودیت کا خاتمہ ہو چکاہے۔اسی وجہ سے کولن ولسن نے نئی وجودیت کی بنیاد رکھی۔اس کے نزدیک کیرکیگارڈ سے سارتر تک وجودیت میں جو کمیاں تھیں وہ اس نے پوری کر دی ہیں۔ کندن لاہوری لکھتے ہیں:
“علامہ اقبال کے بقول یورپ کی سائنسی ترقی نے ‘وجودیت’ کو مسترد کر دیا ہے اور مذہب کو خارجی عناصر سے پاک کرنے کے دعوے دار اسے مذہب سے نکال چکے ہیں جیسا کہ اس کی کوشش علامہ اقبال نے بھی کی تھی۔حقیقت حال یہ ہے کہ ایسی کاوشیں صرف نظری طور پر ثمر بار کہی جا سکتی ہیں۔ لیکن حقیقی سطح پر ایسا اس لیے نہیں ہو سکا کیونکہ وحدت الوجود ایک معروضی فلسفے کے طور پرایک ارتقاء پذیر فلسفہ ہے اور اس کے بہت سےعناصر جدید فلسفہ میں ضم ہو چکے ہیں ۔ “(۲۴)
یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ وجودیت کے تانے بانے وحدت الوجود سے ملتے ہیں۔اور تصور خدا ، معروضیت ، موضوعیت (داخلی وارداتیں یعنی کرب، تشویش ، گھن وغیرہ ) یا دیگر وجودی اصطلاحات و موضوعات کا گہرا مطالعہ کیا جائے تو محولا بالا آرا کی روشنی میں وحدت الوجود اور وجودیت کے قدیم رشتے سے انکار ممکن نہیں رہتا۔کرکے گارڈ کے مطابق انسانی حیات کا ہر وہ لمحہ بے کار ہے جس میں وہ خدا سے وابستہ نہیں رہتا۔دوسری طرف سارترکویہ احساس ہے کہ اسے خدا کے وجود سے انکار کی بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑی۔ اگر وہ وجود خدا کو تسلیم کر لیتا تو اس کی زندگی آسان ہو جاتی۔ڈاکٹر حیات عامر حسینی کا خیال ہے کہ اگر ملحدوجودی اسلام کا مطالعہ کرلیتے تو وجودیت کی ایک مختلف صورت ہمارے سامنے ہوتی:
“مغرب جب عیسائیت، یہودیت اور یونانی تصورات سے اکتا گیا تو اس نے ہندومت اور بدھ مت کی طرف رخ کیا جو مَحض ایک دیوانگی اور شدت پسندی ہے ، مغرب نے ایک انتہاسے دوسری انتہا کا رخ کیا۔ اگر مارکس، نطشے ، سارتر اور دوسرے مفکرین نے اسلام کامطالعہ کیا ہوتا تو شاید سوشلزم اور وجودیت کی دوسری ہی تصویر ہمارے سامنے ہوتی جس میں انسانی وجود کی حیثیت اصلی کی شناخت بھی ہوتی اور اس کی آزادی ذمہ داری اور وجودی و مابعد الطبیعاتی حدود کی بھی۔” (۲۵)
ڈاکٹر جمیل اختر محبی بھی وجودیت اور اسلام میں کسی حد تک مشابہت کے قائل ہیں:
“وجودیت کے خدو خال اسلامی فلسفہ میں بھی تلاش کیے جا سکتے ہیں میں یہاں جناب لطف الرحمٰن صاحب (ریڈر شعبۂ اردو بھاگلپوریونیورسٹی) سے ایک ملاقات کا حوالہ دینا چاہوں گا ۔ انہوں نے میرے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ وجودیت اسلامی فلسفہ سے بھی روشنی اخذ کرتی ہے ۔ فلسفہ وجودیت ، داخلیت، فردیت، انفرادی آزادی ، عرفان ذات اور عرفان حقیقت پر زور دیتاہے ۔ اسلام کی روح بھی یہی ہے اور بقول یوسف حسین خاں’مذہبی باطنیت چاہے وہ مسیحیت کی ہو یا اسلام کی اس میں روح کی ایسی کیفیتیں پیدا ہوتی ہیں جو وجودیت کے فلسفے سے بہت کچھ مشابہت رکھتی ہیں’۔”(۲۶)
یوں عربی کے ایک قول “من عرف نفسہ، فقد عرف ربہ” (عرفان ذات ہی سے عرفان خدا حاصل ہو سکتاہے )کی روشنی میں وجودیت کا مطالعہ کیا جائے تو قاری وجودیت سے اسلام اور وحدت الوجودکی مشابہت کا قائل ہو جاتاہے۔
حوالہ جات
۱۔ روش ندیم/ صلاح الدین درویش، وجودیت انحطاط پسندی کی روایت،(مضمون)مشمولہ:سارتر کے مضامین ،مرتبہ فہیم شناس کاظمی،بک ٹائم، کراچی، ۲۰۱۵ء، ص۴۶۵
۲۔ قاضی قیصر الاسلام ، فلسفے کے بنیادی مسائل،نیشنل بک فاؤنڈیشن، کراچی، ۱۹۷۶ء، ص۱۰۹
۳۔محمد اسرار خان، وجودیت کیا ہے؟،(مضمون)مطبوعہ:تخلیقی ادب، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز ، اسلام آباد، ۲۰۱۰ء، ص ۲۹۷
۴۔ سلطان علی شیدا ، وجودیت پر ایک تنقیدی نظر، اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنوء، ۱۹۷۶ء،ص۹
۵۔ علی عباس جلالپوری، روایات ِ فلسفہ،خرد افروز، جہلم،۱۹۹۲ء ص ۱۷۴
۶۔Jean paul Sartre, Exestentialism is a humanism, translated by Carol Macomber, Yale University press,new haven & London, 2007,page20
۷۔ کندن لاہوری، وحدت الوجود(مضمون)،مشمولہ:فلسفۂ وحدت الوجود (مقالات)، مرتبہ وحید عشرت، ڈاکٹر، سنگ ِ میل پبلی کیشنز ، لاہور، ۲۰۰۸ء،ص۲۴۵
۸۔ حمیرا اشفاق، جدیدیت ، وجودیت اور اردو ناول،(مضمون)مطبوعہ:معیار،شمارہ ۱،۲۰۰۹ء،بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی ، اسلام آباد،ص۲۶۴
۹۔ حیات عامر حسینی ، ڈاکٹر ، وجودیت، بتول پبلیکیشنز، سرینگر،۱۹۹۰ء،ص۶۵
۱۰۔ صفیہ عباد، رشید امجد کے افسانوں کا فنی و فکری مطالعہ ، پورب اکادمی، اسلام آباد، ۲۰۰۷ء،ص۴۲
۱۱۔ محمد اسرار خان، وجودیت کیا ہے؟، ص۲۹۳
۱۲۔انور جمال ، پروفیسر، ادبی اصطلاحات،نیشنل بک فاؤنڈیشن ، اسلام آباد،۲۰۱۲ء،ص۱۹۱
۱۳۔اقبال آفاقی ، ڈاکٹر، روایاتِ عرفان و تصوف، صریر پبلیکیشنز، لاہور، ۲۰۲۰ء،ص۳۰
۱۴۔ حیات عامر حسینی ، ڈاکٹر ، وجودیت،ص ۸۶
۱۵۔ہارون الرشید تبسم ، ڈاکٹر، ادبی اصطلاحات،بک کارنر، جہلم ، ۲۰۱۸ء،ص۱۰۹
۱۶۔ سید عبداللہ ، ڈاکٹر، وجودیت (موجودیت)،(مضمون)مشمولہ:سارتر کے مضامین ، ص۵۸۵
۱۷۔سید عبدا للہ ، ڈاکٹر، ادب و فن ، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی ، لاہور، ۱۹۸۷ء،ص۵۸۵
۱۸۔ جمیل اختر محبی ، ڈاکٹر، فلسفۂ وجودیت اور جدید اردو افسانہ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی، ۲۰۰۲ء،ص ۴۷
۱۹۔ اسلم انصاری، ڈاکٹر، فلسفہ وجودیت اور سارتر،(مضمون)مشمولہ:فلسفۂ وحدت الوجود (مقالات) ،ص ۴۵۵
۲۰۔ پاشا رحمان، سارتر کا فکری سرچشمہ(مضمون)،مشمولہ: ادب، فلسفہ اور وجودیت(ژاں پال سارتر کی نظر میں)،مرتبین شیما مجید/ نعیم احسن ، نگارشات، لاہور،۱۹۹۲ء ،ص۶۳۵
۲۱۔اکبر لغاری ، وجودیت، (مضمون) مشمولہ : سارتر کے مضامین ،ص ۲۸۲
۲۲۔ فرید الدین، پروفیسر، وجودیت۔۔۔تنقیدی جائزہ، (مضمون)مشمولہ:وجودیت، مرتبہ جاوید اقبال ندیم،وکٹری بک بینک، لاہور،۲۰۰۹ء، ص۱۸۴
۲۳۔ اکبر لغاری ، وجودیت، (مضمون) مشمولہ : سارتر کے مضامین ،ص ۲۸۲
۲۴۔ کندن لاہوری، وحدت الوجود(مضمون)،مشمولہ:فلسفۂ وحدت الوجود (مقالات)، ص۲۴۰
۲۵۔ حیات عامر حسینی ، ڈاکٹر ، وجودیت، ص۱۷۱
۲۶۔ جمیل اختر محبی ، ڈاکٹر، فلسفۂ وجودیت اور جدید اردو افسانہ،ص۴۷