::: " وجودی ناول : مغربی ادب اور اردو ادب میں ":::
میری نظر سے مغرب کی ستر/ 70 سے زائد ایسی ناولیں گذری ہیں جو خالصتا " وجودی فلسفے سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہیں۔ ادھر اردو ادب میں بھی وجودی ناولوں کا وجود بھی ملتا ہے۔ فلسفہ وجودیت ایک غیر عقلی فلسفہ اور نظام فکر ہے کیونکہ اس میں فرد کے جوش و جذبہ، جمالیاتی مزاج وفطرت اور داخلی آزادی کی سوچیں حاوی ہوتی ہیں۔ فلسفہ وجودیت میں پاسکل، کرکیگارڈ، ہیڈیگر، سارتر، مارٹن بیوہر، مارسل اور البرٹ کامیو وغیرہ کے فکریات کا گہرا اثر ہے۔ خاص کر سارتر کی تین/3 نالولین۔۔" آزادی کے راہیں"۔۔۔ " عقل کا زمانہ" ۔۔۔ " روح کی موت" ۔۔۔ نے وجودی ناول کو نیا آفاق عطا کئے۔ میرے مطالعے میں ایک عرصے سے " وجودی ناولین" رہی ہیں اس فہرست میں میری پسندیدہ وجودی ناولیں یہ ہیں:
FIGHT CLUB [1996] Chuck Palahniuk، ۔۔۔۔ JOURNEY TO THE END OF THE NIGHT [1932] Louis-Ferdinand Celine ، ۔۔۔ MAN'S FATE [1932] Andre Malraux ، ۔۔۔ – STEPPENWOLF [1928] Hermann Hesse، ۔۔۔۔۔ THE WOMAN IN THE DUNES [1962] Kobo Abe ، ۔۔۔۔ NAUSEA [1938] Jean-Paul Sartre ، ۔۔۔۔۔۔ THE TRIAL [1925] Franz Kafka ، ۔۔۔۔ INVISIBLE MAN [1952] Ralph Ellison ، ۔۔۔۔۔ NOTES FROM UNDERGROUND [1864] Fyodor Dostoevsky ، ۔۔۔۔۔ THE STRANGER [1942] Albert Camus ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان میں سے کچھ ناولو ں کا اردو ترجمہ ہو چکا ہے۔
اردو میں مولانا عبد الحلیم شرر نے کوئی وجودی ناول نہیں لکھا مگر انھوں نے اپنی ناول " فردوس برین" میں ایک کردار شیخ علی وجودی کو خلق کیا جو اس کے نام کی مناسبت سے تھوڑا بہت وجودی ضرور ہے۔ اردو میں ترقی پسندی کےمدھم ہونے کے بعد 1960 کی دہائی میں اردو میں وجودیت کی مباحث کا آغاز ہوا اور پھر اردو میں چند اچھے وجودی ناولز لکھے گئے۔ اس میں جوگندر پال کا ناول " ناہید" وجودی حسیّت کی عمدہ مثال ہے۔ جس میں نابیناوں کی دینا میں نادار لوگوں کی معاشرتی اور وجودی بے بسی کی حسیٰت کی سچائیوں کو بیان کیا گیا تھا۔ وجودی انتشار اور موضوعی نراجیت کو صدیق سالک کی دو/۲ ناولوں ۔۔" پریشرکککر"۔۔۔ اور ۔۔۔ " ایمرجنسی" ۔۔۔ انوکھے اور منفرد انداز کا وجودی افسانوی بیانیہ ہے۔ ان دونوں ناولوں میں پاکستانی معاشرے کا روحانی بحران، انسان کی اخلاقیات اور اعلی اقدار کے زاوال، اور پاکستان کے معاشرتی اور سیاسی اندوہناکی کا تجربہ اور مشاہدہ ایک وجودی گہرائی کے ساتھ لکھا گیا ہے۔ جس کے تمام کرادر معنویت میں معنویت تلاش کرتے ہیں۔ پاکستان میں انیس ناگی وجودی مکالمے میں پیش پیش رہے ۔ ان کا معرکتہ آرا ناول " دیوار کے پیچھے " میں وجودی رویّوں کے تحت فرد کے وجودی مزاج وفکر کو بیاں کیا جاتا ہے۔ اس ناول میں فرد وجودیت سے لایعنیت میں داخل ہوجاتا ہے۔ ناول کی کہانی اس کے مرکذی کردار" احمد" کے گرد گھومتی ہے۔ جس کے موضوع اور معروض میں سفاّک وجودی ماحول بکھرا ہوا ہے ۔ اور یہ کردار وجودی مکالمہ کرتا ہے۔ جس میں فرد تہنا ہےاور وہ اپنے فیصلے کرنے میں آزاد نہیں ہے ۔ انیس ناگی کا ایک اور ناول " محاصرہ" کو بھی وجودی ناول کہا جاسکتا ہے۔ فہیم اعظمی کا ناول " جنم کنڈلی" مکمل طور پر وجودی ناول نہیں ہے لیکن ان مِیں وجودی اشارے ضرور ملتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر تجرباتی ناول ہے۔ جس میں وجودی حوالے غیر مربوط افسانوی منہاجیاتی تکنیک کا منفرد نوعیت کا مشاہداتی تجربہ بیاں کیا ہے جس میں آزاد تلازمہ خیال سے وجودی لایعنیت کی ماہیت کو دریافت کیا۔ جہاں فرد معاشرے میں ایک ناسٹالجیائی احوال میں دربدر پھر رہا ہے۔ اس ناول میں بے ترتیب "افکار پریشاں" بہت ہیں۔ جس میں بے ترتیبی کا احساس ضرور ہوتا ہے۔۔ لیکن اس ناول میں معاشرتی جبر کا " وجودی المیہ" رقم کیا گیا ہے۔ بانو قدسیہ کی ناول " راجہ گدھ " کو بھی وجودی ناول کے زمرے میں رکھا جاسکتا ھے۔ ان تمام وجودی ناولوں میں مقدر کے المیے کا " بنیادی نکتہ" چھپا ہوا ہے۔ جو میر تقی میر کے ان اشعار میں نظر آتا ہے:
۔۔۔۔ آدم خاکی سے عالم کو جلا ہے ورنہ
آئینہ تھا تو مگر قابل دیدار نہ ہو
میں مشک خاک لیکن جو کچھ ہے میر ہم ہیں
مقدور سے زیادہ مقد در ہے ہمارا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔