(پہلاحصہ:لطافت اورکثافت)
(۱)
ابدی بازگشت کا تصور خاصہ پُراسرا رہے، اورنیچے (Nietzsche) نے فلسفیوں کو اس کے ذریعے اکثرالجھا دیا ہے: یہ سوچنا کہ ہر شے ٹھیک جس طرح ہم نے اس کا تجربہ کیا تھا اسی طرح دوبارہ واقع ہوتی ہے، اور یہی بازگردی خود بھی لامتناہی طریقے پراپنے کودہراتی ہے! یہ باولی اسطور کس بات پر دلالت کرتی ہے؟
اسے منفی طور پر بیان کریں تو ابدی بازگشت کی اسطور کے مطابق ایک زندگی جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اوجھل ہوچکی ہے، جو لوٹ کر نہیں آتی، ایک سائے کی طرح ہے، بے وزن، پہلے سے مردہ، اور اگر یہ ہول ناک، خوب صورت، یا رفعت آشنا تھی، تو اس کی ہول ناکی، رفعت، خوب صورتی بے معنی ہے۔ اس پر چودھویں صدی کے دو افریقی قبائل کے درمیان ہونے والی جنگ سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں، ایک ایسی جنگ جس نے تقدیرِ عالم میں کوئی فرق نہیں پیدا کیا، اگر چہ لکھوکھا سیاہ فام شدید کرب کے عالم میں اس کی بھینٹ چڑھے۔
اگر چودھویں صدی کے افریقا کے دو قبائل کے درمیان جنگ ابدی بازگشت کے اصول پراپنے کو بار بار دہرائے تو کیا اس سے خود اس کی تقدیر بدل جائے گی؟
بالکل بدل جائے گی: یہ ایک ٹھوس تودا بن جائے گی، ایک ابھارکی صورت دائماًآگے کو نکلا ہوا ، اپنی پوچی میں لا علاج۔
اگر انقلابِ فرانس ابدیت تک بار بار ہوتا رہے، تو فرانسیسی تاریخ داں روبس (Robespierre)
پر کم تر فخر کریں گے۔ لیکن چوں کہ ان کا تعلق ایک ایسی چیز سے ہے جو پھر واقع نہیں ہوگی، انقلاب کا خونیں عرصہ محض لفظوں، نظریات، اور بحث مباحثوں میں بدل کر رہ گیا ہے، بال و پر سے لطیف تر بن گیا ہے، جس سے کسی کو بھی خوف نہیں آتا۔ تاریخ میں صرف ایک بار ہی واقع ہونے والے روبس پئیر اور اس روبس پئیر کے درمیان جو ابدتک فرانسیسیوں کے سر قلم کرنے کے لیے لوٹ کر آتا رہتا ہے ایک لامتناہی فرق ہے۔
چلو اس پر اتفاق کریں کہ ابدی بازگشت سے مراد ایک ایسا تناظر ہے جس میں چیزیں جس طرح ہم انھیں جانتے ہیں اس سے مختلف نظر آتی ہیں: اس تناظر میں وہ ان اسباب و علل کے بغیر نمودار ہوتی ہیں جو ان کی آنی جانی نوعیت کی شدّت کو کم کردیتے ہیں۔ شدّت کو کم کرنے والے اسباب و علل ہمیں فیصلہ صادر کرنے سے باز رکھتے ہیں۔ آخر ہم کیسے کسی ایسی چیز کو موردِ الزام ٹھہرا سکتے ہیں جوزودگزر ہو، ابھی راہ ہی میں ہو؟ زائلی کے جھٹ پٹے میں، ہر شے ناستلجیا کی فضا سے اجاگر ہونے لگتی ہے، حتیٰ کہ گیوتین(سر قلم کرنے کی مشین) بھی۔
بہت زیادہ پہلے کی بات نہیں، میں نے ایک بے حد ناقابلِ یقین احساس کو ناگہانی اپنے میں سر اٹھاتے ہوئے پایا۔ ہٹلر کے بارے میں ایک کتاب کی ورق گردانی کرتے وقت مَیں اس کی بعض تصویروں سے متاثر ہوا: انھوں نے مجھے میرا بچپن یاد دلادیا۔ میری نشوو نما جنگ کے زمانے میں ہوئی تھی؛ میرے بہت سے رشتے دار ہٹلر کے کونسن ٹریشن کیمپوں میں فنا ہوگئے تھے؛ لیکن میری زندگی کے ایک گم گشتہ دور کی یادوں سے ان کا کیا مقابلہ ہوسکتا تھا، ایک ایسے دور سے جو لوٹ کر نہیں آنے والا تھا؟
ہٹلر سے یہ مصالحت ایک ایسی دنیا کی عمیق اخلاقی کج روی کا انکشاف کرتی ہے جس کا دارومدار بازگشت کے عدم وجود پر ہے، کیوں کہ اس دنیا میں ہر بات کو پہلے سے ہی معاف کردیا جاتا ہے اور، اسی لیے، ہر چیزکو کلبیت زدگی کے باعث کرگزرنے کی اجازت ہوتی ہے۔
(۲)
اگر ہماری زندگی کا ہر پَل خود کو لامتناہی طور پر دہرائے تو ہم جیزز کرائسٹ کی طرح ابدتک صلیب پر چڑھے رہیں۔ یہ بڑا ہول ناک خیال ہے۔ ابدی بازگشت کی دنیا میں، ہماری ہر حرکت پرناقابلِ برداشت ذمے داری کا بوجھ پڑا ہوتا ہے۔ اسی لیے نیچے(Nietzsche) ابدی بازگشت کے تصور کو سخت ترین بوجھ کہتا تھا (das schwerste Gewicht) ۔
اگر ابدی بازگشت ایک سخت ترین بوجھ ہے، تو ہماری زندگیاں اس کے مقابل اپنی تمام شان دارلطافت کے ساتھ کھڑی ہوسکتی ہیں۔
لیکن کیا گراں باری واقعتاً نفرت انگیز اور لطافت پُر شکوہ ہے؟
سخت ترین بوجھ ہمیں کچل کر رکھ دیتا ہے، ہم اس کے نیچے دب جاتے ہیں ، یہ ہمیں زمین پر بے نقل و حرکت کردیتا ہے۔ لیکن ہر دور کی عشقیہ شاعری میں عورت مرد کے جسم کے بوجھ سے دب جانے کی آرزو کرتی ہے۔ چناں چہ سخت ترین بوجھ بہ یک وقت زندگی کی شدید ترین آسودگی کا پیکر بھی ہوتا ہے۔ بوجھ جتنا زیادہ سخت ہوتا ہے، ہماری زندگی اتنی ہی زیادہ زمین سے قریب آجاتی ہے، اتنی ہی زیادہ حقیقی اور سچی بن جاتی ہے۔
اس کے برعکس، بوجھ سے مطلق آزادی آدمی کو ہوا سے لطیف تر بنا دیتی ہے، تاکہ بلندیوں میں پرواز کرسکے، زندگی سے اور اپنی حیاتِ دنیوی سے رخصت ہو، اور صرف نصف حقیقی رہ جائے، اس کی حرکات اتنی ہی آزاد جتنی کہ وہ بے معنی ہیں۔
تو پھر ہم کیا اختیار کریں؟ وزن یا لطافت؟
چھٹی صدی ماقبلِ مسیح میں پارمینیڈیز (Parmenides)نے یہی سوال اٹھایا تھا: اس نے دنیا کو متخالف اشیاکی جوڑیوں میں منقسم کیا: نور؍ظلمت،نفاست؍درشتی، گرمی؍سردی، وجود؍عدم۔ نصف ضدّوں کو مثبت قرار دیا (نور، نفاست، گرمی، وجود) اور بقیوں کو منفی۔مثبت اور منفی اقطاب میں یہ تقسیم ہمیں بچکانہ حد تک سیدھی سادی نظر آسکتی ہے اِلّا یہ کہ ایک دشواری ہے: ان میں سے کون سی مثبت ہے ، کثافت یا لطافت؟
پارمینیڈیز کا جواب تھا: لطافت مثبت ہے، کثافت منفی۔
کیا وہ درستی پر تھا یا نہیں تھا؟ سوال یہ ہے۔ اگر کوئی بات یقین کے درجے کو پہنچ سکتی ہے تو وہ یہ ہے: لطافت؍کثافت کا تضاد سب سے زیادہ پُراسرار، سب سے زیادہ مبہم ہے۔
(۳)
میں توماش کے بارے میں برسوں سے غور کررہا ہوں۔ لیکن صرف انھیں تفکرات کی روشنی میں مَیں اسے صاف صاف دیکھا سکا۔ میں نے اسے کھڑکی میں کھڑے صحن کے پار مقابل دیواروں کو گھورتے ہوئے پایا، اس سے لاعلم کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔
تیریزا سے اس کی پہلی ملاقاتیں ہفتے پہلے ایک چھوٹے سے چیک شہر میں ہوئی تھی۔ انھوں نے بہ مشکل ایک گھنٹا ہی ساتھ گزارا تھا۔ وہ اس کے ساتھ اسٹیشن تک آئی تھی اور اس وقت تک اس کے ساتھ انتظار کرتی رہی تھی جب تک کہ وہ ریل گاڑی میں سوار نہ ہوگیا۔ دس دن بعد وہ اس سے ملنے آئی۔ انھوں نے اس کی آمد والے دن ہی جفتی کی۔ اُسی رات اسے بخار چڑھ گیا اور وہ پورا ہفتہ فلو میں مبتلا فلیٹ ہی میں پڑی رہی۔
وہ اس تقریباً اجنبی کے لیے ایک ناقابلِ بیان محبت محسوس کرنے لگا تھا؛ وہ اسے ایک بچّی نظر آتی تھی، ایک بچی جسے کسی نے نرسل کی ٹوکری میں رخنے بھرنے کے لیے قیر ڈال کر دھارے کے رخ پر بہا دیا ہو تاکہ توماش اسے اٹھا کر اپنے بستر کے کنارے پر لے آئے۔
وہ اس کے ساتھ ہفتہ بھر رہی، تا آں کہ دوبارہ صحت یاب ہوگئی، پھر اپنے شہر لوٹ گئی، جو پراگ سے کوئی سوا سو میل کی مسافت پرواقع تھا۔ پھر وہ وقت آیا جس کا میں نے ابھی ابھی ذکر کیا ہے اور جسے مَیں توماش کی زندگی کی کلید کے طور پر دیکھتا ہوں: کھڑکی میں ایستادہ، صحن کے اوپر سے نظر الانگتا ہوااپنے مقابل دیواروں کو گھورتے ہوئے سوچ میں غرق۔
کیا وہ اسے ہمیشہ کے لیے پراگ بلالے؟ اسے ذمے داری کا خوف تھا۔ اگر اس نے آنے کی دعوت دی تو وہ آکر رہے گی اور اپنی زندگی اس کی نذر کردے گی۔
یا وہ اس کی طرف پیش قدمی کرنے سے احتراز کرے؟ اس صورت میں وہ ایک مضافاتی شہر کے ہوٹل ریستوراں میں ایک ویٹرس ہی رہے گی اور وہ اسے دوبارہ کبھی نہیں دیکھ سکے گا۔
وہ کیا چاہتا ہے۔۔۔ وہ آئے یا نہ آئے؟
اس نے صحن کے اوپر سے مقابل دیواروں کو دیکھا، کسی جواب کی تلاش میں۔
وہ رہ رہ کر اسے اپنے بستر پر لیٹے ہوئے یاد کرتا رہا؛ وہ اسے اپنی سابقہ زندگی میں کسی فرد کو یاد نہیں دلاتی تھی۔ وہ نہ داشتہ تھی نہ بیوی۔ وہ تو ایک بچی تھی جسے اس نے قیر لگی نرسلوں کی ٹوکری سے اٹھایا تھا جو اس کے بستر کے کنارے کی طرف بہا دی گئی تھی۔ وہ سو گئی۔ توماش اس کے برابر دو زانو ہوگیا۔ اس کی تپ میں پھنکتی ہوئی سانسوں میں تیزی آگئی اور اس نے ایک کم زور سی کراہ لی۔ توماش نے اپنا چہرہ اس کے چہرے سے بھڑا کر نیند ہی میں چند تسکین آمیز کلمات سرگوشی میں ادا کیے۔ کچھ دیر کے بعد اسے اس کا تنفس اپنے معمول پر آتا ہوا محسوس ہوا اور اس کا چہرہ لاشعوری طور پر توماش کے چہرے کی طرف اٹھنے لگا۔ اسے اس کے تپ کی لطیف مہک سنگھائی دی اور وہ اس میں سانسیں لینے لگا، جیسے اس کے جسم کی قربت سے خود کو بے تحاشاسیراب کرنے کا کوشاں ہو۔ اور یہ خیال کہ وہ ایک زمانے سے اس کے ساتھ رہی ہو اور اب پڑی مر رہی ہویک بارگی اس کے تخیل میں تیر گیا۔ اسے اچانک صاف صاف یہ احساس ہوا کہ وہ اس کی موت سے جاں بر نہ ہوسکے گا۔ وہ اسی کے برابر لیٹ جائے گا اور اسی کے ساتھ مرنا چاہے گا۔ اس نے تکیے پر اس کے چہرے کے برابر ہی اپنا چہرہ رکھ کردبایااور بڑی دیر تک وہیں رہنے دیا۔
فی الوقت وہ کھڑکی میں کھڑا اُس لمحے کو یاد کررہا تھا۔ اگر محبت اس سے اپنا اعلان نہیں کررہی تھی تو یہ کیا تھا؟
لیکن کیا یہ محبت ہی تھی؟ اس کے پہلو میں مرنے کا احساس بلاشبہ مبالغہ آمیزتھا: اس نے اپنی پوری زندگی میں آج سے پہلے اسے ایک بارہی دیکھا تھا! کیا یہ کسی ایسے آدمی کا بس ہسٹریا ہی نہیں تھا جو اپنی گہرائیوں میں محبت سے متعلق اپنی بے توفیقی سے آگاہ اسے طاری کرنے کی خودفریبانہ ضرورت محسوس کررہا ہو؟اس کا لاشعور اس درجہ بزدل تھا کہ اپنی واجبی سی کومیڈی کے لیے جو بہترین ساتھی منتخب کرسکتا تھا وہ ایک بے چاری مضافاتی ویٹرس تھی جس کا اس کی زندگی میں شامل ہونے کا سرے سے کوئی امکان ہی نہیں تھا!
صحن کے اوپر سے میلی سی دیواروں کو دیکھتے ہوے اسے محسوس ہوا کہ وہ بالکل نہیں جانتا کہ یہ ہسٹریا تھا یا محبت۔
اور اسے اس بات سے کلفت ہورہی تھی کہ ایسی صورتِ حال میں جس میں ایک حقیقی آدمی کو فوراً معلوم ہوتا ہے کہ اسے کیا کرنا چاہیے، وہ خود پس و پیش کا شکار ہوگیا ہے اور ان بے حد حسین لمحات کو جن کا اس نے اپنی زندگی میں تجربہ کیا ہو (اس کا بستر پر دوزانو ہو کر بیٹھنا اور یہ سوچنا کہ وہ اس کی موت سے جاں بر نہ ہوسکے گا) اپنی معنویت سے محروم کیے دے رہا تھا۔
وہ اس وقت تک خود پرجھنجلایا رہاجب تک یہ احساس نہ ہوگیا کہ کیا کرنا چاہیے اس کی یہ لاعلمی درحقیقت بڑی فطری بات ہے۔
ہم کبھی یہ نہیں جان سکتے کہ کیا خواہش کریں کیوں کہ صرف ایک زندگی گزارتے ہوئے نہ تو ہم اس کا سابقہ زندگیوں سے مقابلہ کرسکتے ہیں اور نہ ہی اپنی آنے والی زندگیوں میں اسے درجۂ کمال کو پہنچا سکتے ہیں۔
کیا تیریزا کے ساتھ ہونا بہتر تھا یا اکیلے رہنا؟
کون سا فیصلہ بہتر ہے ، اس کی آزمائش کا کوئی طریقہ نہیں، کیوں کہ مقابلے کی کوئی بنیاد نہیں۔ ہم جو پیش آتا ہے ، متنبہ کیے بغیر،اسے جھیلتے ہیں، کسی اداکار کی طرح جو اسٹیج پر بغیر رہرسل کیے پہنچ جائے۔ اگر زندگی کا پہلا رہرسل خود زندگی ہی ہو توبھلا ایسی زندگی کس قابل ہے؟اسی لیے زندگی ہمیشہ ایک خاکے کی طرح ہوتی ہے۔ نہیں، ’’خاکہ‘‘ مناسب لفظ نہیں، کیوں کہ خاکہ کسی چیز کا ہوتا ہے، کسی تصویر کی بیرونی خطوط اندازی، جب کہ وہ خاکہ جو ہماری زندگی ہے، کسی چیز کا خاکہ نہیں، وہ بیرونی خطوط جن میں کوئی تصویر نہیں۔Einmal ist keinmal توماش خود سے کہتا ہے۔جو ایک ہی بار ہوتا ہے،جرمن قول کے مطابق، بہتر ہے کہ کبھی ہوا ہی نہ ہوتا۔ اگر زندہ رہنے کے لیے ہم سب کے پاس ایک ہی زندگی ہے، تویہ بہتر ہوتا کہ ہم کبھی زندہ ہی نہ ہوتے۔
(۴)
لیکن پھر ایک دن اسپتال میں ، آپریشنوں کے درمیانی وقفے میں، ایک نرس نے اسے فون سننے کے لیے بلایا۔ اسے ریسیور سے تیریزا کی آواز آتی سنائی دی۔ وہ اسے ریلوے اسٹیشن سے فون کررہی تھی۔ وہ خوشی سے بے قابو ہوگیا۔ بدقسمتی سے اُس شام وہ مصروف تھا اور اگلے دن سے پہلے اسے اپنے ہاں نہ بلا سکا۔ فون واپس رکھتے ہی وہ خود کو لعنت ملامت کرنے لگا کہ کیوں نہیں اسے سیدھے وہاں جانے کے لیے کہا۔بہ ہر صورت، اس کے پاس اپنی مصروفیت منسوخ کرنے کے لیے کافی وقت تھا ! اس نے تصور کرنے کی کوشش کی کہ ان کی ملاقات سے پہلے کے چھتیس گھنٹوں تک تیریزا پراگ میں کیا کچھ کرے گی، اور یہ خیال آیا کہ چھلانگ لگا کر کار میں جا بیٹھے اور سڑکوں پر اس کی تلاش میں نکل کھڑا ہو۔
وہ اگلی شام آئی، شانے سے ایک ہینڈ بیگ لٹکائے، پہلے سے بھی زیادہ خوش وضع۔ اس کی بغل میں ایک ضخیم سی کتاب دبی ہوئی تھی۔ یہ ’’اینا کرے نینا‘‘ تھی۔ وہ اچھے موڈ میں تھی، حتیٰ کہ تھوڑا سا غل غپاڑہ بھی مچا رہی تھی، اور اسے یہ محسوس کرانے کی کوشش کی کہ وہ بس اتفاقیہ ہی اس کی طرف آنکلی ہے، کچھ ایسا ہی ہوا: وہ پراگ کسی کام کے سلسلے میں آئی تھی، شاید (اس مقام پر وہ کچھ گول مول سی ہوگئی) کسی کام وام کی تلاش میں۔
بعد میں، جب وہ بستر میں ایک دوسرے کے پہلو میں برہنہ پڑے ہوئے تھے اور شہوت کا زور ٹوٹ چکا تھا، اس نے پوچھا کہ وہ کہاں ٹھہری ہوئی ہے۔ اس وقت تک رات ہوچکی تھی، اور اس نے تیریزاکو کار میں وہاں پہنچانے کی پیشکش کی۔ اس نے سراسیمہ ہوکر جواب دیا کہ اسے ہنوز ہوٹل تلاش کرنا ہے اور یہ کہ وہ اپنا سوٹ کیس اسٹیشن پر چھوڑ آئی ہے۔
صرف دو دن پہلے اسے یہ دھڑکا لگا ہوا تھا کہ اگراس نے تیریزا کو پراگ آنے کی دعوت دی تو وہ اپنی جان اس کی نذر کردے گی۔ جب اس نے بتایا کہ اس کا سوٹ کیس اسٹیشن پر ہے، تو اسے فوری یہ احساس ہوا کہ اس میں اس کی جان رکھی ہوئی ہے اور وہ اسے اسٹیشن پر صرف اتنی دیر کے لیے رکھ آئی ہے جب تک اسے یہ اس کی نذر کرنے کا موقع نہیں مل جاتا۔
دونوں اس کی کار میں آبیٹھے جو گھر کے سامنے کھڑی ہوئی تھی اور اسٹیشن پہنچے۔ اس نے سوٹ کیس چھڑایا (یہ کافی بڑا اور بے تحاشا وزنی تھا) اور اسے اور تیریزا کو لے کر واپس گھر پہنچا۔
اس نے یہ اچانک فیصلہ کیسے کرلیا تھا جب کہ پورے ایک پندھرواڑے تک وہ اس قدر ڈانواڈول رہا تھا کہ اسے ایک پوسٹ کارڈ بھیج کر یہ بھی نہ پوچھ سکا کہ کس حال میں ہے ۔
خود اسے تعجب تھا۔ اس نے اپنے اصولوں کے خلاف عمل کیا تھا۔ دس سال پہلے، جب اس نے اپنی بیوی کو طلاق دی تھی، تو اس نے اس موقعے کی خوشی اسی طرح منائی تھی جس طرح اورلوگ شادی کی خوشی مناتے ہیں۔ اس نے سمجھ لیا تھا کہ وہ کسی بھی عورت کے ساتھ رہنے کے لیے پیدا نہیں ہوا ہے اور صرف ایک غیر شادی شدہ کی جون ہی میں اپنا آپا پوری طرح برقرار رکھ سکتا ہے۔ اس نے اپنی زندگی کو اس طرح مرتب کرنے کی کوشش کی کہ کوئی عورت بھی اس کے گھر میں اپنے سوٹ کیس سمیت داخل نہ ہوسکے۔ اس کے فلیٹ میں صرف ایک بستر ہونے کی وجہ بھی یہی تھی۔ اگرچہ یہ کافی کشادہ تھا، توماش اپنی داشتاؤں سے یہی کہتا کہ وہ کسی کے پہلو میں سو ئے تو نیند نہیں آتی، اور آدھی رات گزرنے پرانھیں کار میں بٹھا کران کے گھر چھوڑ آتاتھا۔توجس بات نے تیریزا کی پہلی آمد پر اس کے ساتھ بستر میں رات گزارنے سے اسے باز رکھا تو وہ فلو نہیں تھی۔ پہلی رات وہ اپنی کشادہ سی آرام کرسی پر سویا تھا، اور ہفتے کے بقیہ دنوں ہر رات اسپتال چلا گیا تھا جہاں اس نے اپنے دفتر میں ایک کھاٹ ڈال رکھی تھی۔
لیکن اِس بار اسے تیریزا کے پہلو میں نیند آگئی۔ اگلی صبح جب اس کی نیند ٹوٹی تو اسے اپنے برابر تیریزا نظر آئی، ہنوز محوِ خواب، اور اس کا ہاتھ تھامے ہوئے (مضبوطی کے ساتھ: وہ اسے اس کی گرفت سے آزاد نہ کرسکا)، اور وہ لاتحاشا وزنی سوٹ کیس بستر کے برابر ہی پڑا تھا۔
اس کی گرفت سے اپنا ہاتھ چھڑانے سے وہ اس خوف کی وجہ سے بازرہا کہ کہیں وہ اٹھ نہ جائے، اور بڑی احتیاط سے اپنے پہلو کے بل ہوگیا تاکہ اسے نظر بھر کردیکھ سکے۔
ایک بار پھر اسے یہی خیال گزرا کہ تیریزا ایک بچی ہے جسے قیر لگی نرسلوں کی ٹوکری میں رکھ کر دھارے کے بہاؤ پر ڈال دیا گیا ہے۔ وہ ایسی ٹوکری کو جس میں ایک بچی پڑی ہے بھلا کیسے طوفانی دریا میں دھارے کے رخ بہنے دے سکتا ہے!اگر فرعون کی بیٹی نے موجوں کے منھ سے اس ٹوکری کو نہ نکال لیا ہوتا جو ننّھے موسیٰ کو لیے جارہی تھی، تو آج’’ تورات‘‘کا وجود نہ ہوتا، نہ کوئی تہذیب، جسے ہم تہذیب سمجھتے ہیں، ہوتی !کتنی بہت سی قدیم اساطیراس بچے کو بچانے سے شروع ہوتی ہیں جسے تقدیر کے رحم و کرم پر اکیلا چھوڑ دیا گیا ہو! اگر پولی بس نے (Polybus)نوخیز اوڈیپس کو اپنی پناہ میں نہ لیا ہوتا تو سوفوکلیز اپنا حسین ترین المیہ نہ لکھتا!
اُس وقت توماش کو یہ احساس نہیں ہوا کہ استعارے خطر ناک ہوتے ہیں۔ استعاروں کے ساتھ چھیڑ خانی نہیں کرنی چاہیے۔ ایک واحد استعارہ محبت کو جنم دے سکتا ہے۔
(۵)
وہ اپنی بیوی کے ساتھ دو سال کی مختصر مدت ہی رہا تھا، اور ان کے ایک بیٹا ہوا۔ طلاق کی کارروائی میں جج نے شیرخوار کو ماں کی تحویل میں دے دیا تھا اور توماش کو یہ حکم کہ اپنی تنخواہ کا ایک تہائی اس کی دیکھ بھال کے واسطے دیا کرے۔ اس نے توماش کو ہر دوسرے ہفتے بچے سے جاکر ملنے کا حق بھی دیا۔
لیکن ہر مرتبہ جب وہ اس سے ملنے والا ہوتا، ماں بچے کو اپنے ہی پاس رکھنے کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ تراش لیتی۔ جلد ہی اسے یہ احساس ہوگیا کہ اُن کے لیے قیمتی تحائف لانے سے معاملہ شاید نسبتاً آسان ہوجائے، کہ بچے کی محبت کے لیے اس سے ماں کو رشوت دینے کی توقع کی جارہی تھی۔ اسے ایک ایسا مستقبل نظر آیا جس میں وہ بچے میں اپنے خیالات کا نقش بٹھانے کی کوششیں کررہا ہے، وہ خیالات جو ہر طرح سے ماں کے خیالات کے الٹ تھے۔ اس خیال ہی سے وہ نڈھال ہوگیا۔ جب ایک اتوار کو بچے کی ماں نے ایک بار پھر ایک مقررہ ملاقات منسوخ کردی تو توماش نے کھڑے کھڑے فیصلہ کر ڈالا کہ وہ اب کبھی بچے سے ملنے نہیں جائے گا۔
کسی اور کے مقابلے میں اسے اس بچے کے لیے زیادہ جذبہ محسوس کرنے کی کیا ضرورت ہے جس سے اس کا واحد بندھن ایک ناعاقبت اندیش رات سے بیش نہیں؟ وہ دیکھ بھال کی رقم پابندی سے ادا کرتا رہے گا؛ وہ بس یہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی محض پدرانہ جذبات کی خاطر اسے بچے کے لیے لڑنے پر مجبور کردے!
یہ کہنا بے ضرورت ہے کہ اسے کوئی ہم درد ی کرنے والا نہیں ملا۔ خود اس کے والدین نے کھلم کھلا اسے لعن طعن کی؛ اگر توماش اپنے بچے میں دل چسپی لینے کا انکاری ہے تو وہ، توماش کے والدین، خود اپنے لڑکے میں مزید دل چسپی نہیں لیں گے۔ انھوں نے اپنی بہو سے اچھے تعلقات قائم رکھنے کا خوب مظاہرہ کیا اور اپنے موقف اور احساسِ عدل کا خوب خوب نقّارہ پیٹا۔
چناں چہ فعلاً چشم زدن ہی میں اس نے بہ یک وقت بیوی، بچے، اورماں باپ سے پیچھا چھڑالیا۔ جو واحد چیز انھوں نے وراثتاً اسے ودیعت کی وہ عورتوں کا خوف تھی۔ توماش ان کی خواہش کرتاتو تھا لیکن ان سے ڈرتا بھی تھا۔ خوف اور خواہش میں مصالحت کی احتیاج کے باعث اس نے وہ حکمت عملی ڈھونڈ نکالی جسے اس نے’’شہوانی تعلق‘‘ کا نام دیا۔ وہ اپنی آشنا عورتوں سے کہتا: صرف وہی تعلق فریقین کو خوش کرسکتا ہے جس میں جذباتیت کا کہیں گزر نہ ہو اور جس میں کوئی فریق دوسرے کی زندگی اور آزادی پر کوئی حق نہیں جتاتا ہو۔
یہ خاطر جمع کرنے کے لیے کہ شہوانی تعلق کبھی محبت کی جراحت میں تبدیل نہ ہوجائے، وہ اپنی ہر دیرینہ داشتہ سے صرف وقفوں وقفوں بعدہی ملتا ۔ وہ اس طریقۂ کار کو بے عیب سمجھتا اور اپنے دوستوں میں اس کی ترویج کرتا: ’’اہم بات تین کے اصول کا التزام ہے۔ یا آدمی عورت سے جلد جلد تین بار ملے اور پھر کبھی نہیں، یا سالوں تعلق قائم رکھے لیکن یہ پکا کرلے کہ ملاقاتوں کے درمیان کم از کم تین ہفتوں کا وقفہ ہو۔‘‘
تین کے اصول نے توماش کو اس کا اہل بنادیا کہ بعض عورتوں سے اپنے معاشقے صحیح سلامت رکھے اوربہت سی دوسری عورتوں کے ساتھ قلیل مدّتی معاشقے بھی جاری رکھے۔ اسے ہمیشہ صحیح نہیں سمجھا جاتا تھا۔جو عورت اسے سب سے بہتر طور پر سمجھتی تھی وہ بس سبینا ہی تھی۔ وہ ایک پینٹر تھی۔ ’’میں تمھیں جس وجہ سے پسند کرتی ہوں،‘‘ وہ اس سے کہتی، ’’وہ یہ ہے کہ تم کِچ (kitsch)کا بالکل اُلٹ ہو۔ کِچ کی راج دھانی میں تم ایک عفریت ثابت ہوگے۔‘‘
اور جب اسے تیریزا کے لیے پراگ میں ملازمت دلوانے کی ضرورت آ پڑی تو یہ سبینا ہی تھی جس کااس نے رخ کیا۔ شہوانی دوستی کے غیر نوشتہ اصولوں پر عمل کرتے ہوئے سبینا نے حتّی المقدور سب کچھ کرنے کا وعدہ کیا اور سچ مچ جلد ہی ایک مصورہفتہ وار رسالے کے ڈارک روم میں تیریزا کے لیے ایک اسامی ڈھونڈ نکالی۔یہ ٹھیک ہے کہ اس کی نئی ملازمت میں کسی خاص اہلیت کی ضرورت نہیں تھی، اس نے کم از کم اس کی حیثیت ایک ویٹرس سے پریس کے ایک رکن میں بڑھا دی۔ جب سبینا نے بہ نفسِ نفیس تیریزا کا تعارف ہفتہ وار رسالے کے ہر کارگزارسے کرایا تو توماش کو پتا چل گیا کہ داشتاؤں میں سبینا سے بہتر اس کی کوئی اور دوست نہیں رہی ہے۔
(۶)
شہوانی دوستی کے غیر نوشتہ معاہدے کی رو سے توماش پر یہ شرط عائد ہوتی تھی کہ وہ ہرنوع کی محبت کو اپنی زندگی سے بے دخل کردے۔ جس لمحے وہ اس شق کی خلاف ورزی کرے گا، اس کی دوسری داشتاؤں کی حیثیت کم ہوجائے گی ا ور وہ بغاوت پر کمربستہ ہوجائیں گی۔
نتیجے کے طور پر اس نے تیریزا اور اس کے وزنی سوٹ کیس کے لیے ایک کمرا کرائے پر لے لیا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کی خیر خبر رکھے، اس کی حفاظت کرے، اس کی موجودگی سے لطف اندوز ہو، لیکن اس نے اپنی زندگی کی روش کو تبدیل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں محسوس کی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ لوگوں کو بھنک ہوجائے کہ تیریزا اس کی رہائش گاہ پر ہی سوتی ہے: رات ساتھ گزارنا محبت کی شہادتِ جرم ہے۔
وہ دوسری عورتوں کے ساتھ کبھی رات نہیں گزارتا تھا۔ اگر ان کی قیام گاہ پر ہوتا تو یہ کام آسان تھا: وہ جب چاہے وہاں سے جا سکتا تھا۔ لیکن اگر وہ اس کے یہاں آئی ہوئی ہوتیں توصورتِ حال نازک ہوجاتی اور اسے بتانا پڑتا کہ نصف شب گزرنے پر وہ انھیں کار میں گھر چھوڑ آئے گا کیوں کہ وہ بے خوابی کا شکار ہے اور کسی دوسرے کے قریب لیٹے تو نیندکا آنا ناممکن ہے۔ اگرچہ یہ بات صداقت سے دور نہیں تھی، ان سے پوری صداقت بیان کرنے کی جرأت اسے کبھی نہیں ہوئی: جفتی کے بعد تنہا ہونے کی ایک بے قابو خواہش اس پر حاوی ہوجاتی؛ بیچ رات میں کسی اجنبی جسم کے برابر جگنا اسے ناگوار گزرتا تھا، اور صبح کسی دخل انداز کے ساتھ اٹھنے سے اسے کراہت محسوس ہوتی تھی؛ اسے اس کی بالکل خواہش نہیں تھی کہ کوئی اسے برش سے دانت مانجھتے ہوئے سنے، نہ بے تکلف ناشتے کا خیال ہی اس کے لیے باعثِ ترغیب تھا۔
یہی وجہ تھی کہ بیدار ہونے پر یہ دیکھ کر کہ تیریزا بڑی مضبوطی سے اس کا ہاتھ دبا رہی ہے اسے اتنا شدید تعجب ہوا۔ وہاں لیٹے ہوئے اور اسے دیکھتے ہوئے اسے ٹھیک سے سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا ماجرا ہوا ہے۔ لیکن جب اس نے پچھلی چند ساعتوں کی یادآوری کی تو اسے ان سے ایک ان جانی مسرت کی لو پھوٹتی ہوئی محسوس ہوئی جس کا اس سے پہلے اسے کبھی تجربہ نہیں ہوا تھا۔
اس کے بعد سے دونوں ہی ساتھ ساتھ سونے کے منتظر رہنے لگے۔ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ ان کی جفتی کی غرض و غایت اتنی حصولِ لذّت نہیں تھی جتنی وہ نیند جو اس کے بعد آتی تھی۔تیریزا خاص طور پر اس سے متاثر ہوتی۔ جب کبھی اسے اپنے کرائے کے کمرے میں رات گزارنی پڑتی (جو بہت جلد توماش کے لیے عدم موجودگی کا عذر بن گیا تھا) تو اسے نیند ہی نہ آتی؛ لیکن چاہے وہ کتنی ہی پریشان اور پراگندہ خاطر کیوں نہ رہی ہو توماش کی بانہوں میں آسانی سے سوجاتی۔ وہ اسے سرگوشیوں میں پریوں کی کہانیاں سناتا جو اس نے وہیں اس کے بارے میں گڑھی ہوتیں، یہ بے معنی باتیں، لفظ جو وہ بڑی یک رنگی سے دہراتا، لفظ جو تسکین آور یا مزاحیہ ہوتے، جو اسے تھپک تھپک کر رات کے اولیں خوابوں میں لے جانے والے مبہم نظاروں میں بدل جاتے۔ تیریزا کی نیند پر اس کی پوری عمل داری تھی: وہ ٹھیک جس لمحے چاہتا وہ اونگھ جاتی۔
جب وہ سو رہے ہوتے تو وہ توماش کو اسی طرح تھامے رہتی جیسے پہلی رات، اس کی کلائی، انگلی، یا ٹخنے کو مضبوطی سے گرفت میں لیے ہوئے۔ اگر وہ اس کو بیدار کیے بغیر جنبش کرنا چاہتا، تو اسے کوئی حکمتِ عملی استعمال کرنی پڑتی۔ اس کی گرفت سے اپنی انگلی (کلائی، ٹخنا) آزاد کرانے کے بعد، ایک ایسا عمل جو کبھی اسے جزوی طور پر بیدار کیے بغیر نہ رہتا کیوں کہ وہ اپنی نیند میں بھی اس کی نگہ بانی کررہی ہوتی، وہ کوئی چیز (ایک گول مول تہ کیا ہوا شب خوابی کے لباس کا بالائی حصہ، سلیپر، کتاب) اس کی گرفت میں دے کراسے تسکین دیتا، جسے وہ پھر اتنی مضبوطی سے پکڑ لیتی جیسے یہ توماش کے بدن ہی کا کوئی حصہ ہو۔
ایک بارجب توماش نے اسے بس تھپک تھپک کر سلایا ہی تھا لیکن وہ ابھی خواب کی ڈیوڑھی سے آگے نہ بڑھی تھی اور ردِ عمل ظاہر کرنے پر قادر تھی، وہ اس سے بولا، ’’خدا حافظ، میں اب جا رہا ہوں۔‘‘ ’’کہاں؟‘‘ وہ نیند میں بڑبڑائی۔ ’’دور،‘‘ اس نے درشتی سے جواب دیا۔ ’’تو پھر میں بھی تمھارے ساتھ چل رہی ہوں،‘‘ وہ بولی، بستر میں ایک دم چوکس ہوتے ہوئے۔ ’’نہیں، تم نہیں چل سکتیں۔ میں ہمیشہ کے لیے جارہا ہوں،‘‘ وہ بولا، کمرے سے باہر ہال میں جاتے ہوئے۔ وہ اٹھ بیٹھی اور اس کے پیچھے پیچھے باہر نکل آئی، آنکھیں چندھیاتے ہوئے۔ اپنے کوتاہ نائٹ ڈریس کے نیچے وہ برہنہ تھی۔ اس کا چہرہ خالی خالی تھا، بے تاثر، لیکن وہ بڑی پھرتی سے حرکت کررہی تھی۔ وہ چلتے ہوے فلیٹ کے ہال سے عمارت کے ہال میں آیا (جسے سارے کرائے دارمشترکہ استعمال کرتے تھے) ، اور دروازہ اس کے منھ پر بند کردیا۔ اس نے اسے دھڑ سے کھول دیا اور اس کا تعاقب جاری رکھا، اپنی نیند میں قائل کہ وہ واقعی اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جارہا ہے اور تیریزا کو کسی نہ کسی طرح اسے روکنا چاہیے۔ وہ زینے سے اتر کر پہلی لینڈنگ پر آیا اور وہاں اس کا انتظار کرنے لگا۔ وہ اس کے پیچھے پیچھے سیڑھیاں اتر کر آئی، اس کا ہاتھ پکڑ لیا، اور واپس بستر پر لے آئی۔ توماش اس نتیجے پر پہنچا: ایک عورت کے ساتھ جفتی کرنا اور ایک عورت کے ساتھ سونا دو مختلف شدید جذبے ہیں، محض مختلف ہی نہیں بل کہ ایک دوسرے کی ضدبھی۔محبت اپنا اظہارجفتی کی خواہش میں نہیں کرتی (ایک ایسی خواہش جو عورتوں کی ایک لا محدود تعداد کو محیط ہوتی ہے) بل کہ ساتھ سونے کی خواہش میں (وہ خواہش جو صرف ایک عورت تک محدود ہوتی ہے)۔
(۷)
دورانِ شب وہ نیند میں کراہنے لگی۔ توماش نے اسے جگایا، لیکن اس کے چہرے کو دیکھتے ہی وہ نفرت بھری آواز میں بولی، ’’مجھ سے دور ہو! مجھ سے دور ہو!‘‘اس کے بعد اس نے توماش سے اپنا خواب بیان کیا: وہ دونوں اور سبینا ایک بڑے سے کمرے میں تھے۔ کمرے کے وسط میں ایک پلنگ رکھا تھا۔ یہ تھئیٹر کے چبوترے کی طرح تھا۔ توماش نے اسے کونے میں کھڑے ہوجانے کا حکم دیا تاکہ وہ سبینا کے ساتھ جفتی کرے۔اس منظر سے تیریزا کو ناقابلِ برداشت تکلیف پہنچی۔ اس امید میں کہ جسم کی تکلیف سے شاید دل کی تکلیف میں افاقہ ہوجائے، اس نے اپنی انگلیوں کے ناخنوں کے نیچے سوئیاں چبھوئیں۔ ‘‘اتنی شدید تکلیف ہوئی،‘‘ اس نے کہا، اپنے ہاتھوں کو سختی سے مٹھیوں کی شکل میں بھینچتے ہوئے جیسے وہ سچ مچ زخمی ہوں۔
توماش نے اسے اپنے سے لگالیا، اور وہ (بڑی دیر تک شدت سے تڑپتی ہوئی) اس کی بانہوں میں سوگئی۔
اگلے دن خواب کی بابت سوچتے ہوئے اسے کچھ یادسا آیا۔ اس نے ڈیسک کی ایک دراز کھولی اور ان خطوط کا پیکٹ نکالا جو سبینا نے اسے لکھے تھے۔ اسے یہ عبارت ڈھونڈ نکالنے میں زیادہ دیر نہیں لگی: ’’میں تمھارے ساتھ اپنے اسٹودیو میں جفتی کرنا چاہتی ہوں۔ یہ ایک اسٹیج کی طرح ہوگا جس کے گردخلقت جمع ہوگی۔ تماش بینوں کو قریب آنے کی اجازت نہیں ہوگی، لیکن وہ ہم پر سے اپنی نظریں نہیں ہٹا سکیں گے۔‘‘
بد ترین یہ کہ خط پر تاریخ پڑی تھی۔ یہ ابھی حال ہی میں لکھا گیا تھا، تیریزا کے توماش کے یہاں آجانے کے بہت بعد میں۔
’’تو تم میرے خط ٹٹولتی رہی ہو!‘‘
اس نے تردید نہیں کی۔ ’’تو پھر مجھے نکال دو!‘‘
لیکن اس نے اسے نکال نہیں دیا۔ وہ اسے تصور میں سبینا کے اسٹوڈیو کی دیوار سے بھڑے بیٹھے ناخنوں کے نیچے سوئیاں چبھوتے ہوئے دیکھ سکتا تھا۔ اس نے اس کی انگلیاں اپنے ہاتھوں میں لے کرتھپ تھپائیں، پھر اپنے لبوں سے لگا کر چومیں، یوں جیسے خون کے قطرے ابھی تک ان پر ہوں۔
اس کے بعد سے گویا ہر چیز اس کے خلاف سازش میں لگی ہوئی تھی۔ مشکل سے کوئی ایسا دن رہا ہوگا جب تیریزا کو اس کی خفیہ زندگی کی کسی نہ کسی بات کا علم نہ ہوجاتا ہو۔
اول اول تو اس نے سب باتوں کی تردید کر ڈالی۔ پھر، جب شہادت بالکل صریح ہوگئی، تو اس نے یہ تاویل پیش کی کہ ا س کا کثیر الازواج شعارِ زندگی کسی بھی طرح اس کی اس سے محبت کے خلاف نہیں جاتا۔ اس کے بیان میں آشفتگی تھی: پہلے اپنی بے وفائیوں سے مکرنا ، اور پھرانھیں جائز قرار دینے کی کوشش۔
ایک دفعہ فون پر کسی عورت سے ڈیٹ مقرر کرنے کے بعد وہ اسے خدا حافظ کَہ رہا تھا کہ برابر والے کمرے سے ایک عجیب سی آواز آئی جیسے دانت کٹکٹا رہے ہوں۔
وہ اس کے جانے بغیر اتفاقیہ گھر لوٹ آئی تھی۔ وہ دوا کی بوتل سے کچھ اپنے حلق میں انڈیل رہی تھی اور اس کا ہاتھ اس شدّت سے کانپ رہا تھا کہ بوتل اس کے دانتوں سے ٹکرا کر بجنے لگی۔
وہ اس کی طرف یوں جھپٹا جیسے اسے ڈوبنے سے بچانے کی کوشش کررہا ہو۔ بوتل فرش پر آرہی، اور قالین پر ولیرین (valerian)کے قطروں کے داغ ڈال دیے۔ اس نے خوب ہاتھا پائی کی، اور توماش کو کوئی پندرہ منٹ تک اسے جکڑے رکھنا پڑا تاآں کہ اس کا سکون بہ حال ہوا۔
اسے معلوم تھا کہ وہ جس حالت میں ہے اس کا دفاع نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ اس کی بنیاد سراسر غیر مساوات پر تھی۔
سبینا کی مراسلت کا علم ہونے سے پہلے ایک شام وہ چند دوستوں کے ساتھ تیریزا کی نئی ملازمت کی خوشی منانے ایک بارگئے ہوئے تھے۔ ہفتہ واری اخبار میں اس کی ڈارک روم ٹیکنیشین سے اسٹاف فوٹوگرافر میں ترقی ہوگئی تھی۔ چوں کہ توماش کو رقص وقص سے بہت زیادہ دل چسپی نہیں تھی،اس کے ایک عمر میں ذرا چھوٹے ہم کار نے یہ ذمے داری سنبھال لی۔ ڈانس فلور پر وہ دونوں بڑا شان دار جوڑا لگ رہے تھے اورتوماش کو تیریزا پہلے سے کہیں زیادہ حسین نظر آئی۔ جس نپی تلی سرعت اور پاسِ خاطر سے تیریزا اپنے ساتھی کی حرکات کی پیش بینی کررہی تھی توماش اسے حیرت سے دیکھتا رہا۔رقص اسے اس بات کا اعلانیہ معلوم ہوا کہ اس کی عقیدت مندی، توماش کی ہر للک کو پورا کرنے کی اس کی پُرجوش خواہش کاتوماش کی ذات سے کوئی ناگزیرتعلق نہیں تھا، بل کہ وہ توکسی بھی مرد کے بلاوے کا جواب دینے کے لیے تیار ہوتی جس سے توماش کی بہ جائے اس کی ملاقات ہوئی ہوتی۔ تیریزا اور اپنے اس نوجوان ہم کار کو عاشقوں کے روپ میں تصوّر کرنے میں اسے کوئی دقّت پیش نہ آئی۔ اوراس آسانی سے یہ افسانہ گھڑ لینے پر اسے تکلیف محسوس ہوئی۔ اسے لگا کہ تیریزا کے جسم کا کسی بھی مرد جسم سے بھڑے ہوئے ہونے کا خیال بالکل کیا جاسکتا تھا، اور اس خیال سے اس کی طبیعت مکدّر ہوگئی۔ اس دن، گھر پر، بڑی رات گزر جانے کے بعد ہی کہیں جاکر، اس نے تیریزا سے اپنی رقابت کا اعتراف کیا۔
اس لایعنی رقابت نے جس کی اساس تخمین و ظن پر قائم تھی یہ ثابت کردیا کہ وہ تیریزا کی (جنسی)وفاداری کوان دونوں کے تعلق کا ایک غیر مشروط بنیادی اصول گردانتا ہے ۔ تو اس صورت میں وہ کیسے خود اپنی سچ مچ کی داشتاؤں سے اس کی رقابت پر بے اطمینانی کا اظہار کرسکتا ہے۔
(۸)
دن کے وقت اس نے توماش کے بیان پر یقین کرنے کی (اگرچہ جزوی کام یابی کے ساتھ) کوشش کی، اور پہلے جتنی ہی ہشاش بشاش نظر آنے کی بھی۔ لیکن رقابت جس پردن میں کسی طرح قابو پالیا گیا تھا اس کے خوابوں میں اور بھی زیادہ تندی کے ساتھ پھٹ پڑی، جن میں کے ہر خواب کی انتہا ایک دکھ بھری چیخ پر ہوئی جسے وہ اسے جگا کر ہی فرو کرسکا۔
اس کے خواب ٹیلی وژن کے سیریلز کے موضوعات اور معمولی سی تبدیلی کے ساتھ پیش کی جانے والی قسطوں کی طرح بار بار لوٹ آتے۔ مثال کے طور پر، وہ بار بار یہ خواب دیکھتی کہ بلّیاں اس کے چہرے پر کود پھاندرہی ہیں اور اس کی جلد میں پنجے گاڑ رہی ہیں۔ اس کی تعبیر کے لیے ہمیں بہت دور جانے کی ضرورت نہیں: چیک سلینگ میں ’’کیٹ‘‘ کا مطلب ایک حسین عورت ہوتا ہے۔ تیریزا خود کو عورتوں، سب عورتوں سے ہراساں دیکھتی۔ تمام عورتیں توماش کی امکانی داشتائیں تھیں، اور اسے ان سب سے خوف آتا تھا۔
خوابوں کے ایک اور سلسلے میں وہ دیکھتی کہ اسے اپنی موت سے ہم کنار کیا جارہا ہے۔ ایک بار، جب اس نے رات کے سنّاٹے میں دہشت ناک چیخ ماری اور توماش نے اسے جگا یا ، تو اس نے اپنا خواب بیان کردیا: ’’میں ایک بڑے سے اندرونی سوئمنگ پول میں تھی۔ اس میں ہم بیس عورتیں تھیں۔ ہم برہنہ تھیں اور ہمیں پول کے گرد مارچ کرنی پڑ رہی تھی۔ چھت سے ایک ٹوکری لٹکی ہوئی تھی اور اس میں ایک آدمی کھڑا تھا۔ مرد کے سر پر ایک چوڑی کناری والا ہیٹ منڈھا تھا جس سے اس کا چہرہ چھپ گیا تھا، لیکن مجھے دکھائی دے رہا تھا کہ یہ تم ہو۔ تم ہمیں حکم دیتے رہے۔ ہم پر چلّاتے رہے۔ مارچ کرتے ہوے ہمیں گانا بھی پڑ رہاتھا، گانا اوربیٹھکیں لگانا۔اگر کوئی بھی قاعدے سے نہیں بیٹھک لگاتا تو تم اس پر پستول داغ دوگے اور وہ مرجائے گی اور تالاب میں جاگرے گی۔ جس پر سبھوں کو ہنسی آگئی اور وہ اور زور زور سے گانے لگیں۔ تمھاری آنکھیں ہم پر گڑی ہوئی تھیں، اور جس لمحے ہم سے کوئی بھول چوک ہوجاتی تو تم گولی ماردیتے۔ تالاب لاشوں سے بھرا تھا جوسطحِ آب کے بس ذرا ہی نیچے تیر رہی تھیں۔ مجھے معلوم تھا کہ ایک بار اوربیٹھک لگانے کی طاقت مجھ میں نہیں رہی ہے اور تم مجھے گولی مارنے والے ہو!‘‘
ایک تیسرے سلسلے میں وہ مر چکی ہوتی۔
وہ ایک فرنیچر کی وین جتنی بڑی جنازہ گاڑی میں پڑی ہے اور اس کے چاروں طرف مردہ عورتیں ہیں۔ اتنی زیادہ کہ پچھلا دروازہ بند نہیں ہورہا اور متعدد ٹانگیں باہر کو نکلی جھول رہی ہیں۔
’’لیکن میں مردہ نہیں ہوں!‘‘ تیریزا چلائی۔ ’’محسوس کرنے کی قدرت مجھ میں اب بھی باقی ہے۔‘‘
’’اور ہم بھی،‘‘ لاشیں ہنس پڑیں۔
ان کی ہنسی ان زندہ عورتوں کی ہنسی کی مانندہی تھی جو بڑی بشاشت کے ساتھ اس سے کہتیں کہ یہ بالکل معمول کے مطابق تھا کہ ایک دن اس کے دانت خراب ہوجائیں گے، رحم میں عیب آجائے گا، جھریاں نکل آئیں گی، کیوں کہ ان سب کے دانت خراب تھے، رحم میں نقص پڑ گیا تھا، جھریاں نکل آئی تھیں۔ وہی ہنسی ہنستے ہوئے انھوں نے اسے بتایا کہ وہ مرچکی ہے اور یہ عین حسبِ معمول ہے!
اچانک اسے پیشاب خارج کرنے کی حاجت محسوس ہوئی۔ ’’دیکھا نا تم نے،‘‘ اس نے چلا کر کہا، ’’مجھے پیشاب آرہا ہے۔ یہ اس کا حتمی ثبوت ہے کہ میں مری نہیں ہوں!‘‘
لیکن وہ دوبارہ صرف ہنس پڑیں۔ ’’پیشاب لگنا ٹھیک معمول کے مطابق ہے!‘‘ وہ بولیں۔ ’’اس قسم کی چیز تم بہت دنوں تک محسوس کرتی رہوگی۔ اُس آدمی کی طرح جو بازو کٹ جانے کے بعد بھی اسے اپنی جگہ پر ہی محسوس کرتا ہے۔چاہے ہمارے اندر پیشاب کا ایک قطرہ بھی موجودنہ ہو، پیشاب کرنے کی حاجت قائم رہے گی۔‘‘
تیریزا بستر میں توماش کے جسم سے بھڑ گئی۔ ’’اور مجھ سے ان کا اندازِ گفتگو! پرانے دوستوں جیسا، لوگ جو مجھے ہمیشہ سے جانتے ہوں۔ ان کے ساتھ ابد تک رہنے کے خیال ہی سے میں بدحواس ہوگئی۔‘‘
(۹)
وہ تمام زبانیں جو لاطینی سے نکلی ہیں "compassion" (’’ترحّم‘‘،’’ ہم دردی‘‘)کا لفظ ، بہ معنیٰ "with"کے سابقے کے ساتھ اساسی معنیٰ "suffering" (لاطینیِ متاخر، passio com-) کے لفظ کو جوڑ کر بناتی ہیں ۔ دیگر زبانوں میں۔۔۔مثلاً چیک، پولش، جرمن، اور سوئیڈش۔۔۔اس لفظ کا ترجمہ ایک اسم کے ذریعے ہوتا ہے جو ایسے ہی ایک اور سابقے"feeling" (’’احساس‘‘)کے لفظ کے ساتھ ملا کر بنایا جاتا ہے (چیک: sou-cit؛ پولش، wsp243l-czucie؛ جرمن، Mit-gef252hl؛ سوئیڈش، med-k228nsla )۔
اُن زبانوں میں جن کی اصل لاطینی ہے، "compassion"(ہم دردی)کا مطلب ہے: ہم سرد مہری کے ساتھ دوسروں کو تکلیف پہنچتے ہوے نہیں دیکھ سکتے ہیں؛ یا، ہم ان لوگوں کے لیے ہم دردی محسوس کرتے ہیں جو تکلیف اٹھا رہے ہوں۔ اس سے تقریباًملتے جلتے معنیٰ کا ایک اور لفظ ہے، "pity" (فرانسیسی، piti233؛ اتالوی، piet224، وغیرہ )، جس میں تکلیف اٹھانے والے کے حق میں ایک نوع کی کرم فرمائی کا مفہوم پایا جاتا ہے۔"To take pity on a woman" (’’ایک عورت پر ترس کھانا‘‘) کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم اس عورت کے مقابلے میں بہتر ہیں، کہ ہم خود کو اس کی سطح پرفروتن کررہے ہیں، اپنے کو گرا رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ"compassion" کا لفظ عام طور پرشک و شبہ کو ہوا دیتا ہے؛ یہ ایک ایسے