بی ایف سکنر نے 1947 میں کبوتروں کے ساتھ بہت طرح کے تجربات کئے جو جانوروں کی نفسیات سمجھنے کے لئے بڑا اہم قدم تھا۔
ان میں سے ایک تجربے میں پنچرے میں بند کبوتروں کے آگے ایک بٹن لگا تھا۔ اس کو چونچ مارنے پر ایک دانہ گرتا۔ کبوتروں نے جلد ہی سیکھ لیا کہ خوراک کیسے حاصل کرنی ہے۔ وہ اس بٹن کو چونچ مارتے اور دانے حاصل کر لیتے۔ مٹر کے دانے جتنا دماغ رکھنے والے کبوتروں نے یہ جلد سیکھ لیا تھا۔
پھر سکنر کے ذہن میں ایک نیا تجربہ آٰیا۔ نئے تجربے میں دانہ گرنا رینڈم تھا، یہ بس کسی بھی وقت گر سکتا تھا۔ جب سکنر نے کچھ دیر بعد کبوتروں کو دیکھا تو عجیب حال تھا۔ ایک کبوتر دو چکر گھڑی وار لگاتا تھا، رکتا تھا اور پھر دو چکر لگاتا تھا۔ ایک کبوتر اپنی گردن پنڈولم کی طرح دائیں اور بائیں گھما رہا تھا۔ ایک کبوتر پنجرے کے ایک کونے میں مسلسل چونچیں مارنے میں مصروف تھا، ایک کبوتر پر پھڑپھڑا رہا تھا۔ ایسا کیوں؟
یہ کبوتر وہم کا شکار تھے۔ کسی کا خیال تھا کہ وہ پر پھڑپھڑائے گا تو ہی دانہ گرے گا۔ پر پھڑپھڑانے کے دوران کبھی دانہ گر بھی جاتا تھا اور کبوتر کے خیال میں یہی دانہ گرنے کی وجہ تھی اور وہ دانوں کے لئے وہ عمل مسلسل جاری رکھے ہوئے تھے جو ان کے خیال میں دانہ گرنے کی وجہ تھی حالانکہ یہ عمل خود رینڈم تھا۔
اس سے اگلا سوال کہ جب دانہ نہیں گرتا تھا تو پھر کیا وہ یہ نہیں سمجھ جاتے تھے کہ اس کا تعلق ان کے چکر کھانے یا پر پھڑپھڑانے سے نہیں؟ اس کا جواب بی ایف سکنر نے تلاش کیا جو ری انفورسمنٹ شیڈول ہے۔ کبوتروں پر کئے گئے نفسیاتی تجربات سے پتہ لگا کہ ایک بار جب کبوتر اس وہم کا شکار ہو جائے اور وہ پورا نہ ہو تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کے چکر کھانے میں کچھ کسر رہ گئی اور وہ اس کو بار بار دہراتا ہے۔ یہاں تک کہ کچھ کبوتر دس ہزار مرتبہ ری انفورسمنٹ کی ناکامی پر اس سے نہ رکے۔
اینیمل سائکولوجی کے اس تجربے سے پتہ لگا کہ چھوٹے سے دماغ والے کبوتر اس وہم کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کیا بڑے دماغ والے انسان ایسا نہیں کرتے؟
آنکھ پھڑکنے، خواب میں کچھ دیکھ لینے، الو کی آواز، ہاتھ میں کھجلی، مچھلی کے بعد دودھ، کالی بلی، چاند گرہن اور حاملہ خاتون، گاڑی کے پیچھے جوتی لٹکانے اور اس قسم کی اور بہت سی چیزوں سے کچھ ہو جانے اور ان کبوتروں کے چکر کھانے میں اگر کچھ مماثلت نظر آتی ہے تو وہ محض اتفاقیہ نہیں۔
لیکن یہاں پر اس کا ایک اور پہلو۔ ان کبوتروں کا وہم ہمیں ان کے شعور کا بھی بتاتا ہے۔ یہ اس رینڈم عمل میں سے پیٹرن تلاش کر رہے تھے اور اس غیریقینیت کی صورتحال، جس پر ان کا کنٹرول نہیں تھا، میں اپنا کردار ڈھونڈ رہے تھے۔ بجائے خاموشی سے پنجرے میں بیٹھ کر دانے کا انتظار کرنے کے بجائے پینڈولم کی طرح گردن گھما کر اپنی طرف سے اپنی کوشش سے اس تک پہنچنا ان کے ذہنی شعور کی علامت ہے۔
اس وہم کا انسانوں کے لئے دوسرا پہلو۔ یعنی کچھ وہم جیسا کہ خوش قسمت شرٹ پہن کر کھیلنا خود کیوں کئی دفعہ کارکردگی بہتر کر دیتا ہے؟ اس پر تفصیل نیچے دئے گئے آرٹیکل سے۔
بی ایف سکنر کا تحقیقاتی پیپر
http://psychclassics.yorku.ca/Skinner/Pigeon/
وہم کا دوسرا پہلو
http://www.businessinsider.com/michael-jordan-ritual-how-su…
دنیا کے مختلف علاقوں کے توہمات
https://mashable.com/…/…/30/superstitions-around-the-world/…
اس کی ریاضیاتی وجہ
https://en.wikipedia.org/wiki/Illusory_correlation
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔