ٹھیک ہے خلقِ خدا بے بس ہے۔ مان لیا اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں انصاف نہیں ہے اور کبھی تھا بھی نہیں، لیکن طاقت ور، قانون کو پیروں تلے روندتے وقت یہ کیوں نہیں سوچتے کہ جب پنڈلی سے پنڈلی لپٹے گی اور مرے ہوئے عزیز سامنے نظر آ رہے ہوں گے، اس وقت دھاندلیوں کے بارے میں پوچھا جائے گا!۔
نوے کی دہائی تھی۔ قومی ائر لائن میں۔ جہاں سالہا سال تک چور دروازے کْھلے رہے۔ دو خواتین ڈاکٹر تعینات کی گئیں۔ ایک وقت کے طاقت ور وزیراعلیٰ کی صاحبزادی تھیں، اور دوسری بھی ایک مقتدر شخصیت کی بیٹی تھیں۔ نہ مدعی نہ شہادت۔ نہ اشتہار نہ مقابلہ، ملک کی سینکڑوں بیٹیاں بہتر ریکارڈ کے باوجود ایسی تعیناتی کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔
پھر طاقت ور وزیراعلیٰ ملک سے باہر چلا گیا۔ پھر چشمِ فلک نے ایک اور تماشہ دیکھا۔ وہ طاقت ور شخص ملک میں واپس آیا لیکن اس کرسی پر بیٹھا تھا جس کے نیچے پہیے لگے ہوئے ہیں۔ کینسر نے اسے ہڈیوں کے ڈھانچے میں بدل دیا تھا۔
ٹھیک ہے خلق خدا اس خداداد ملک میں بے بس ہے، مگر دھاندلی کرنیوالے وہ وقت یاد کریں جب پنڈلی سے پنڈلی لپٹے گی اور جھاڑ پھونک کرنے والے کچھ نہ کر سکیں گے۔ مرے ہوئے عزیزوں کیساتھ قوم کے وہ بیٹے اور بیٹیاں نظر آئیں گی جن کے حق میں ڈاکے ڈالے گئے۔ آج بھارت کے مسلمان پوچھتے ہیں کہ کیا تم نے اس لئے الگ ملک بنایا تھا کہ طاقت وروں کی بیٹیاں چْن لی جائیں اور میرٹ، قاعدہ، قانون، ضابطہ ایسی لاشوں کی شکل اختیار کرلیں جن کے سرہانے گدھوں کی فوج بیٹھی ہو۔
آج پھر ایک مقتدر شخصیت کی صاحبزادی کو قوانین پامال کرکے سول سروس کے تخت طاؤس پر متمکن کیا گیا ہے اور آج ہی کا کیا ذکر اس سے پہلے جرنیل بھی یہی کچھ کرتے رہے۔ اپنے بیٹوں کو فوج کے مقدس پیشے سے نکال کر سول سروس میں داخل کراتے رہے اور سینکڑوں کپتان اور میجر جو زیادہ لائق تھے، اس سہولت سے محروم رہے۔ ان جرنیلوں میں دستار پوش جرنیل بھی تھے۔ اسلام ظاہر سے عبارت نہیں! اسلام تو امتحان ہے۔ جب آپ طاقت ور ہیں اور اپنے بیٹے کو دوسروں پر فوقیت دلوا سکتے ہیں اس وقت آپ اعلان کریں کہ نہیں! میرا بیٹا اس بہتی گنگا میں ہاتھ نہیں دھوئے گا! لیکن یہ اصل اسلام۔ مشکل اسلام ہے۔ آسان اسلام یہ ہے کہ آپ ظاہری وضع قطع اور لباس پر زور دیجئے اور کیجئے وہی کچھ جو سب کر رہے ہیں! اسی لئے تو قرآن پڑھ کر رو پڑنے والے شاعر نے کہا تھا …؎
چو می گویم مسلمانم بلرزم
کہ دائم مشکلاتِ لاالٰہ را
وہ تو کہیے کہ اس ملک پر خدائے برتر کا احسان ہے کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن اور کاکول اور رسالپور کی ملٹری اکیڈمیوں جیسے ادارے موجود ہیں جن کے طفیل لائق اور غریب پاکستانی مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہو کر سول سروس میں آتے ہیں اور جرنیلوں کے بیٹے ناکام ہو جاتے ہیں اور کسانوں اور حوالداروں کے بچے کمیشن حاصل کرلیتے ہیں۔ میں وہ منظر کبھی نہیں بھول سکتا جب کاکول میں پاسنگ آؤٹ پریڈ کے بعد، اکیڈمی کے بڑے دروازے کے پاس تہمد میں ملبوس ایک کسان اپنے کیڈٹ بیٹے سے باتیں کررہا تھا۔ اب اگر کوئی جرنیل حلف سے دغا کرتے ہوئے آئین کو پامال کرتا ہے تو اس میں کاکول کا کوئی قصور نہیں اور اگر کوئی ناخلف، سول سروس میں آنے کے بعد ناموس کا گلا گھونٹتا ہے اور بادہ و ساغر کو سیڑھی بنا کر اوپر جاتا ہے یا پرنسپل سیکرٹری کے طور پر اپنی پوزیشن سے ناروا فائدہ اٹھاتا ہے تو اس میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا کوئی قصور نہیں۔
آج اگر بیرون ملک تعیناتیاں اور PEMRA، اور NEPRA اور دوسری اتھارٹیوں میں تقرریوں کا کام فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے سپرد کر دیا جائے تو میرٹ کی حفاظت بہتر طور پر انجام دی جاسکے گی۔ تعیناتیوں کا کام مہذب ملکوں میں ادارے کرتے ہیں۔ بھلا وزیراعظم کا ان معمول کے کاموں سے کیا تعلق! اگر فرسٹ سیکرٹری کا تقرر ملک کے وزیراعظم نے کرنا ہے تو وزیراعظم پالیسی سازی کا کام کس وقت کریں گے؟
ہماری حالت یہ ہے کہ امن وامان تہس نہس ہو چکا ہے، گرانی عوام کے سینے پر بیٹھ کر گلا دبا رہی ہے۔ امریکہ اور بھارت ہمیں نرغے میں لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ روزنامہ نیشن (Nation) نے اپنی ایک حالیہ اشاعت میں ایشیاء ٹائمز کا ایک مضمون شائع کیا ہے جس کا عنوان ہے What is in store for Muslim States? پاکستان کے بارے میں یہ ایشیائی اخبار اس مضمون میں کیا لکھتا ہے، دیکھئے۔
’’آدھا ملک ناخواندہ ہے اور ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کی رو سے تین چوتھائی کا گزارہ دو ڈالر روزانہ سے کم آمدنی پر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان میں نوجوان، علاقے کے دوسرے ملکوں کی نسبت زیادہ تعداد میں میسر ہیں اور ارزاں بھی! بے حد غریب اور ان پڑھ نوجوان… جن کی تعلیم صرف مدرسوں میں ہوئی ہے۔ جنگجو کارروائیوں کیلئے بہت آسانی کے ساتھ ہاتھ آ جاتے ہیں‘‘۔
آگے چل کر اخبار پاکستان کو صومالیہ کی صف میں لا کھڑا کرتا ہے اور صومالیہ میں بیروزگار نوجوانوں کی تعداد پاکستان سے بہت کم ہے! ایک طرف ہماری یہ حالت ہے اور دوسری طرف ہمارے رہنماؤں اور زعما کی ترجیحات ملاحظہ ہوں۔
ایک ہفتہ قبل راولپنڈی کے ایک سیاست دان کا… جو گذشتہ انتخابات میں دو نشستوں سے ہارے ہیں… بیان شائع ہوا ہے، جس میں، اخبارات کے مطابق انہوں نے اس خواہش کا یا حسرت کا اظہار کیا ہے کہ اگر نوازشریف ق لیگ کے لیڈروں کو معاف کردیں اور دونوں لیگیں ضم ہو جائیں تو مسلم لیگ ایک بار پھر چھا جائے گی!
آپ اندازہ لگایئے، جاگیردارانہ نظام، سرداری سسٹم، بلوچستان کے مسائل، تعلیم کی ڈوبتی کشتی، لیکن اہل سیاست کو ان مسائل کا ادراک ہے نہ فکر۔ ان کی کوتاہ نظر مسلم لیگ کے چھا جانے سے پرے کچھ دیکھ ہی نہیں سکتی۔ کیا یہ رویہ تعلیم کی کمی کا نتیجہ ہے یا تربیت کے فقدان کا شاخسانہ ہے یا Vision نہ ہونے کا کرشمہ ہے؟ کیا گذشتہ آٹھ سال مسلم لیگ چھائی نہیں رہی؟
جب وزیر قانون کے صاحبزادے کراچی ائرپورٹ پر مسافروں کی بدستِ خود دھنائی کر رہے تھے تو کیا مسلم لیگ چھا نہیں گئی تھی؟ جب صوبے کے وزیراعلیٰ وردی کو دس بار ظفریاب کروانے کا اعلان کر رہے تھے اور لال مسجد کے قتل عام کے وقت وزیراعظم قلفیوں کی دکان بذریعہ حکم کھلوا رہے تھے کیا مسلم لیگ چھائی ہوئی نہیں تھی؟ اسی مسلم لیگ کے بطن ہی سے تو شوکت عزیز جیسا بطلِ جلیل پیدا ہوا‘ جس کے آستانے پر راولپنڈی کے اس سیاست دان سمیت سب سجدہ ریز تھے!۔
آج قانون وہ بچہ ہے جو پنگوڑھے میں پڑا بلک بلک کر رو رہا ہے اور دونوں بازو ہوا میں اٹھائے سیاست دانوں کی طرف دیکھ رہا ہے۔ آج اگر اہل سیاست… قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان… قانون پر عمل پیرا ہونے کا فیصلہ کرلیں تو فوج اور بیورو کریسی کی مجال نہیں کہ قانون کی خلاف ورزی کریں۔
ملک کی قیادت عساکرکے پاس ہے نہ افسر شاہی کے پاس وہ تو ماتحت ہیں۔ قیادت تو سیاست دانوں کے پاس ہے اور انہی کو قیادت کا حق حاصل ہے۔ حکمرانی منتخب نمائندوں کے ہاتھ میں ہے اور یہی ہونا چاہئے لیکن منتخب نمائندے قانون پر تو چلیں۔
ہمارے رہنماؤں کے طور اطوار ایسے ہیں جیسے کسی زمانے میں وائسرائے کے تھے۔ وہ اپنی کاروں پر امتیازی نمبر پلیٹیں لگواتے ہیں اور سفارشوں اور مداخلتوں سے میرٹ کا راستہ روکتے ہیں۔
یہاں تو یہ بھی ہوا کہ جہاز پر سوار ہوتے وقت اسلحہ لے جانے پر اصرار کیا گیا اور ائرپورٹ کے جس فرض شناس اہلکار نے اعتراض کیا ، اسے فوراً تبدیل کر دیا گیا!۔
جو جانتا ہے۔ وہ تو جانتا ہی ہے۔ جو نہیں جانتا وہ جان لے کہ جس دن منتخب نمائندے فیصلہ کرلیں گے کہ وہ بال برابر بھی قانون شکنی نہیں کریں گے اور اپنے بیٹوں، صاحبزادیوں، کنبوں خاندانوں اور قبیلوں کے لئے دوسروں کا حق نہیں ماریں گے اور غلط کام کریں گے نہ کرنے دیں گے۔ اس دن اس ملک کی خاکی اور سول بیورو کریسی کا بگاڑ درست ہو جائے گا اور یہ ملک… مہذب ملکوں میں شمار ہونے لگے گا!۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...